Hadeer Naam Ka Matlab Aur Hadeer Naam Rakhna Kaisa?

حَدِیْر نام کا مطلب اور حدیر نام رکھنا کیسا ؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2497

تاریخ اجراء: 13شعبان المعظم1445 ھ/24فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   "حَدِیْر" کا مطلب کیا ہے ؟ اور یہ نام رکھنا جائز ہے؟ اور کیا یہ کسی صحابی کا نام ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لفظِ "حَدِیْر"(حا پر زَبَر اور دال کے نیچے زیر ) حَدَرَ یَحْدُرُ سے مشتق، صفتِ مشبّہ کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب ہے : " مضبوط و  خوش خِلْقَت شخص "، اور یہ اچھے معنی پر مشتمل ہے لہذا یہ نام رکھنا شرعاً درست ہے کہ حدیث پاک میں اچھے نام رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ تلاش و جستجو کے باوجود ہمیں اس نام کے کوئی صحابی نہیں ملے ۔البتہ جمہور علماء کے نزدیک کتبِ اسلامیہ  میں دو ایسے صحابہ کرام کا تذکرہ ملتا  ہے کہ جن کا نام " حُدَیْر "ہے (جس میں حا پر پیش اور دال پر زَبَر ہے) لہذا اُن صحابہ کرام کی نسبت سے " حُدَیْر " نام رکھا جا سکتا ہے بلکہ یہ نام رکھنا مستحب ہے ؛ کیونکہ یہ نام صحابہ کرام سے ثابت ہے اور احادیث طیبات میں اچھے لوگوں کے ناموں پر نام رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے،  اس میں امید ہے کہ نیک لوگوں کی برکتیں بچے کے شامل حال ہوں ۔

   لفظِ " حُدَیْر " کے معنی سے متعلق وضاحت یہ ہے کہ یہ " حَادِر ٌ" کی تصغیر ہے اور " حَادِر ٌ " کا معنی ہے :  مضبوط اور خوش خِلقت شخص،  تو اس اعتبار سے " حُدَیْر " کا معنی بنے گا:" کم مضبوط و کم خوش خِلقت شخص "۔

   تاج العروس من جواهر القاموس  میں "حدر" مادہ کے تحت لکھا ہے :" (و)الحدر(اجتماع خلق) من الغلظ، يقال: فتى حادر، أي غليظ مجتمع … (فِعْلُه كنَصَرَ وكَرُمَ)" ترجمہ :   "حدر" کا ایک معنی ہے : مضبوط اور اچھی خلقت والا ہونا۔ کہا جاتا ہے : فَتىً حادِرٌیعنی مضبوط اور اچھی خلقت والا نوجوان۔ اس کا فعل "نَصَرَ یَنْصُرُ "اور "كَرُمَ یَكْرُمُ " کی طرح آتا ہے ۔(تاج العروس من جواهر القاموس، جلد 10، صفحہ  556،ناشر : وزارة الإرشاد والأنباء ، الكويت )

   جامع الدروس العربية  میں ہے :" قد تُبنى الصفةُ المشبَّهةُ من باب "فعَلَ" المفتوحِ العينِ ... ، فتجيءُ على وزن "أفعلَ" ... ، وعلى "فيْعِل". بكسر العين، ... ، وعلى "فَيْعَلٍ" بفتح العين، ... وعلى "فَعيل" بكسر العين ۔۔۔ كحريصٍ وطويلٍ "ترجمہ :  کبھی صفتِ مشبہ کا صیغہ بابِ فَعَل (عین پر زَبر کے ساتھ )  سے بھی بنایا جاتا ہے ، اور اس وقت یہ اَفْعَل ، فَيْعِل ، فَيْعَل اور فَعِيْل کے وزن پر آتا ہے جیسے حریص (حرص یحرص سے ہے)، طویل (یہ طال یطول سے ہے)۔ (جامع الدروس العربية  ، جلد1، صفحہ 190، المكتبة العصرية، بيروت)

   حدیث پاک میں اچھے نام رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ حدیث پاک میں ہے :"قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: "إنّكم تُدعَوْنَ يومَ القيامَةِ باسمائِكُم وأسماءِ آبائكُم، فاحسِنُوا أسماءكم"ترجمہ :  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے والد کے نام سے پکارے جاؤگے، لہذا اپنے اچھے نام رکھو! ۔ (سنن أبي داود،كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء،  جلد7، صفحۃ  303، دار الرسالة العالمية)

   معرفة الصحابة لابن منده (صفحة436)،معرفة الصحابة لابي نعيم (2/ 893) اوراسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ (1/465، دار الفکر، بیروت) اورمرآة الزمان فی تواريخ الاعيان میں ہے : واللفظ للآخِر " ‌‌حُدَيْر:رجل من الصحابة ، ولم يُذكر له نسب …وفي الصحابة مَن اسمُه حُدير رجلان: أحدهما هذا وليس له رواية، والثاني حُدَير مولى بني سُلَيم …، له صحبةٌ وروايةٌ "ترجمہ : ‌حُدَيْر: صحابہ میں سے ایک صحابی ہیں البتہ ان کا نسب نامہ معلوم نہیں ۔ صحابہ میں دو افراد کا نام "‌حُدَيْر"ہے ، ایک تو یہی ہیں لیکن ان سے کوئی روایت مروی نہیں ہے ، اور دوسرےبنو سلیم کے آزاد کردہ غلام  "‌حُدَيْر" ہیں ، یہ صحابی بھی ہیں اور ان سے روایت بھی مروی ہے ۔ (مرآة الزمان فی تواريخ الأعيان، جلد5، صفحۃ  260، دار الرسالة العالمية، دمشق ، سوريا)

   الاصابۃ فی تمییز الصحابہ میں ہے :" حدير: - مصغّر، أبو فوزة…السلمي…مختلف في صحبته. ذكره جماعة في الصحابة، وذكره ابن حبّان في التابعين."ترجمہ : "حدير" -تصغیر شدہ لفظ ہے-  یہ ابو فوزہ سلمی ہیں ۔ ان کی صحابیت میں اختلاف ہے ۔ علماء کی ایک جماعت نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے اور علامہ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں تابعین میں شمار کیا ہے ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة، جلد2، صفحۃ  37، دار الكتب العلمية ، بيروت)

   المقتضب للامام مبرد میں ہے :"هَذَا بَاب مَا كَانَ من الْمُذكر على ثَلَاثَة أحرف:اعْلَم أَن تصغيره على مِثَال فُعَيْل "ترجمہ : یہ باب تین لفظوں پر مشتمل لفظِ مذکر (کی تصغیر )کے بارے میں ہے ، جان لو کہ اس کی تصغیر " فُعَيْلٌ "کی طرح آتی ہے ۔(المقتضب للامام مبرد، جلد2، صفحۃ  237،  عالم الكتب، بيروت)

    امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 911ھ)" همع الهوامع شرح جمع الجوامع " میں لکھتے ہیں :"من التصغير نوع يسمى تصغير الترخيم وذلك بحذف الزوائد مع إعطاء ما يليق به من فعيل أو فعيعل …كحارث وأسود … حُرَيْث وسُوَيْد"ترجمہ :  تصغیر کی ایک قسم "‌تصغير ‌الترخيم " ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ لفظ میں موجود حروفِ زائدہ کو حذف کر کے اسے اسی وزن پر لایا جاتا ہے جو اس کے لائق ہے یعنی فعیل یا فعیعل کے وزن پر ، مثلاً  : حارِث کی تصغیر حُرَیْث اور اَسْوَد کی سُوَیْد ہو گی ۔(همع الهوامع فی شرح جمع الجوامع، جلد3، صفحۃ  392، المكتبة التوفيقية، مصر)

   احادیث میں اچھے لوگوں کے ناموں پر نام رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ، مسند الفردوس میں حدیث پاک ہے:" تسمّوا بخياركم " ترجمہ : اپنے اچھے لوگوں  کے ناموں  پر نام رکھو۔ (مسندالفردوس ،جلد2،صفحہ58،دار الكتب العلمية، بيروت)

   حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دس بیٹوں کے نام انبیاء کے نام پر رکھے اور اس کی وجہ بیان  کرتے ہوئے فرماتے  ہیں :" فعلت ذلك تبركًا بهم " ترجمہ :  میں نے ان سے برکت حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا ہے ۔(النجم الوھاج  فی شرح المنھاج  للامام الدمیری ، جلد9، صفحۃ 530، دار المنهاج ،جدة)

   اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :" حدیث سے ثابت کہ محبوبانِ خداانبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ  والثناء کے اسمائے طیبہ پرنام رکھنا مستحب ہے جبکہ ان کے مخصوصات سے نہ ہو۔" (فتاوی رضویہ ، جلد 24، صفحہ 685، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )

   بہارِ شریعت میں ہے :" بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں جن کے کچھ معنی نہیں یا اُن کے برے معنی ہیں ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے امید ہے کہ اُن کی برکت بچہ کے شامل حال ہو۔ "(بہارِ شریعت ، جلد3، حصہ 15 ، صفحۃ 356، مکتبۃ المدینۃ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم