Kuniyat Rakhne Ki Sharai Hesiyat Kya Hai?

کنیت رکھنے کی شرعی حیثیت ؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-11755

تاریخ اجراء:14ربیع   الثانی1444 ھ/10نومبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ کنیت رکھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مرد و عورت،دونوں کے لیےکنیت رکھنامستحب اوراچھا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد کنیتیں تھیں اورآپ علیہ الصلاۃ والسلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کنیتیں رکھا کرتے تھے اور اچھی کنیت سے پکارنے کو پسند فرماتے تھے ۔بہتر یہ ہےکہ اولاد میں سے سب سے بڑے بیٹے کے نام پر اور بیٹا نہ ہوتو بڑی بیٹی کے نام پر کنیت  رکھی جائے ۔

   معجم الکبیر للطبرانی میں ہے:”كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه أن يدعو الرجل بأحب أسمائه إليه وأحب كناهترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ کسی بھی شخص کو اس کے پسندیدہ نام اور محبوب کنیت سے پکارا جائے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی،جلد04،صفحہ13،مطبوعہ القاھرہ)

   مشکاۃ المصابیح میں ہے:”عن أنس  رضي الله عنه قال: كناني رسول الله  صلى الله عليه وسلم ببقلة كنت أجتنيها“ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت اس سبزی سے رکھی جسے میں چنا کرتا تھا،(یعنی ابو حمزہ)۔(مشکوۃ المصابیح،جلد07،صفحہ1348،مطبوعہ بیروت)

   مصنف ابن ابی شیبہ میں  امام زہری سے روایت ہے:كان رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يكتنون قبل أن يولد لهمترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب   صاحب اولاد ہونےسے پہلے ہی کنیت رکھ لیتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،جلد05،صفحہ300،مطبوعہ ریاض)

   عمدۃالقاری میں پیارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی کنیت کے متعلق فرمایا:”كان النبي صلى الله عليه وسلم يكنى: بأبي القاسم وهو أكبر أولاده، وعن ابن دحية: كنى رسول الله، صلى الله عليه وسلم بأبي القاسم لأنه يقسم الجنة بين الخلق يوم القيامة، ويكنى أيضا بأبي إبراهيم، باسم ولده إبراهيم الذي ولد في المدينة من مارية القبطية۔۔۔۔۔وفي التوضيح: وله كنية ثالثة وهو  أبو الأراملترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی،حضرت قاسم رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کے بڑے شہزادے  تھے،اور حضرت ابن دحیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت مبارک ابو القاسم تھی  کیونکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام قیامت کےدن مخلوق کے مابین جنت تقسیم فرمائیں گے ۔آپ کی کنیت ابو ابراہیم  بھی ہے،حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ آپ کے شہزادے ہیں جو کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے پیدا ہوئے ۔۔۔۔اور توضیح  میں ہے آپ علیہ السلام کی تیسری کنیت ابوارامل ہے ۔(عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری،جلد16،صفحہ100،مطبوعہ بیروت)

   حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: قالت: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله،كنيت نساءك، فاكنني، فقال: تكني بابن أختك عبد الله“ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم تشریف لائے تو  میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !آپ نے اپنی اَزواج کو کنیت عطا فرمائی ہیں ۔میری کنیت بھی رکھ دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اپنی بہن کے بیٹے عبداللہ کےنام پر  کنیت رکھو ۔(ادب المفرد،صفحہ295،مطبوعہ بیروت)

   معجم الکبیر للطبرانی  میں ہےعن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كناه أبا عبد الرحمن ولم يولد له“ترجمہ :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان کی کنیت”ابو عبد الرحمن“رکھی حالانکہ  ان کے ہاں اولاد نہیں تھی ۔(معجم الکبیر للطبرانی ،جلد 09،صفحہ 65 ،مطبوعہ  قاھرہ)

   سنن ابو داود شریف  میں حدیث پاک ہے :انه لما وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مع قومه سمعهم يكنونه بأبي الحكم، فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الله هو الحكم، وإليه الحكم، فلم تكنى أبا الحكم؟» فقال: إن قومي إذا اختلفوا في شيء أتوني، فحكمت بينهم فرضي كلا الفريقين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أحسن هذا، فما لك من الولد؟ قال: لي شريح، ومسلم، وعبد الله، قال: فمن أكبرهم؟ قلت: شريح، قال: فأنت أبو شريح“ترجمہ : جب حضرت ہانی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی وفد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قوم کو انہیں ابو الحکم کی کنیت سے  پکارتے سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلب کیا اور ارشاد فرمایا: اللہ پاک حکم ہے اور حکم اسی کے سپرد ہے ،تم نے اپنی کنیت ابو الحکم کیوں رکھی ؟تو حضرت ہانی نے عرض کیا کہ جب میری قوم میں کسی معاملے میں اختلاف ہوتاہے تو وہ  میرے پاس آتے ہیں ، میں ان  کے مابین فیصلہ کرتا ہوں ،تو دونوں فریق اس پر راضی ہوجاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہ کتنا ہی اچھا کام ہے ،تمہارے کتنے بیٹے ہیں ؟عرض کیا کہ میرے شریح ،مسلم اور عبداللہ تین  بیٹے ہیں ،آپ نے فرمایا کہ ان میں سے بڑا کون ہے ؟حضرت ہانی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ شریح بڑے ہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ تو تم ”ابو شریح ہو۔“(سنن ابی داود،جلد04،صفحہ289،مطبوعہ بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت شرح سنن ابی داود  لابن رسلان (متوفی 844)میں ہے:فیہ استحباب تكنية الرجل بأكبر أولاده، لهذاالحديثترجمہ:اور اس حدیث میں مرد کے لیے اپنی اولاد میں بڑے کے نام پر کنیت کے استحباب پر دلیل ہے ۔

          اسی طرح ایک اورحدیث کی شرح میں کنیت کے متعلق لکھا:فیہ استحباب تكنية المرأة والصغير والرجل، فإن فيه نوع إكرامترجمہ:اس میں عورت، بچے اور مرد  کی کنیت کے مستحب ہونے پر دلیل ہے اور اس میں تعظیم کا پہلو ہے ۔(شرح سنن ابی داودلابن رسلان،جلد19،صفحہ95،61،مطبوعہ دارالفلاح)

   مرقاۃ المفاتیح میں شرح السنہ کے حوالے سے ہے :إن الأولى أن يكتني الرجل بأكبر بنيه، فإن لم يكن له ابن، فبأكبر بناته، وكذلك المراة تكتني بأكبر بنيها، فإن لم يكن لها ابن، فبأكبر بناتها ترجمہ : بہتر یہ ہےکہ مرد اپنے بڑے بیٹے کے نام پر اور اگر بیٹا نہ ہوتو بڑی بیٹی کے نام پرکنیت رکھے اور اسی طرح عورت اپنے بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھے اور بیٹا نہ ہوتو بیٹی کے نام پر کنیت رکھے ۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد07،صفحہ3004،مطبوعہ بیروت )

   التوضیح لشرح الجامع الصحیح  میں ہے :”روي عن عمر بن الخطاب أنه قال: عجلوا بكنى أولادكم؛ لا تسرع إليهم ألقاب السوء وهذا كله من حسن الأدب“ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرمایا:اپنے بچوں کی کنیت رکھنے میں جلدی کرو ،اس سے پہلے کہ ان کی طرف بُرے اَلقاب سبقت لے جائیں اور یہ تمام اُمور حُسن ادب سے ہیں۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح،جلد28،صفحہ624،مطبوعہ دمشق)

    تفسیر قرطبی میں تفسیر کشاف سے منقول ہے :”روى عن النبي صلى الله عليه وسلم:من حق المؤمن على أخيه أن يسميه بأحب أسمائه إليه، ولهذا كانت التكنية من السنة والأدب الحسنترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ایک مؤمن کےاپنے مؤمن بھائی پر آنے والے حقوق میں سے ایک حق یہ ہےکہ اسے اس کے  محبوب نام اور کنیت سے پکارے،او ر اسی وجہ سے کنیت رکھنا سنت اوراچھے اخلاق میں سے ایک ہے ۔(تفسیر قرطبی،جلد16،صفحہ330،مطبوعہ قاھرہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم