Muhammad Zakwan Naam Rakhna Kaisa ?

محمد ذکوان نام رکھنا کیسا؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2496

تاریخ اجراء: 13شعبان المعظم1445 ھ/24فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   محمد  ذکوان نام رکھنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ذکوان نام رکھنا جائز ہے  ۔ذکوان کا معنی  "ذہین" ہے ۔کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم  کا نام' ذکوان' تھا  جن میں سے ایک مشہور صحابی  حضرت ابو السبع  ذکوان بن عبد قیس رضی اللہ عنہ   بھی ہیں جنہوں نے انصار میں سے     سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا ۔ حدیث پاک میں اچھوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے ،اس حدیث پاک پرعمل کی نیت اور صحابیِ رسول  کے نام سے برکت لینے کی نیت سے'         ذکوان ' نام رکھیں گے توان شاء اللہ عزوجل ثواب اوربرکت دونوں نصیب ہوں گے۔

   البتہ!بچوں کے نام رکھنے میں زیادہ بہتر  طریقہ یہ ہے کہ لڑکے کا نام اولاصرف" محمد "رکھا جائے تاکہ نام محمدرکھنے کی جوفضیلت احادیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہے وہ  بھی حاصل ہوجائے اورپھرپکارنے کے لیےمحمدذکوان نام رکھا جائے ۔

   معرفۃ الصحابہ میں ہے :”عن عروة، في تسمية من شهد العقبة من الأنصار، من بني زريق: ذكوان بن عبد قيس بن خالد، وكان خرج من المدينة إلى مكة مهاجرا إلى الله، وقد شهد بدرا“ترجمہ:حضرت عروہ   سے  مروی ہے کہ   بیعت عقبہ میں  انصار صحابہ کرام    کے ناموں میں قبیلہ  بنی   زریق   کے ذکوان بن عبد قیس بن خالد    بھی    شامل ہیں ،اور یہ وہ ہی ہیں جنہوں  نے مدینہ سے مکہ کی طرف  اللہ کی راہ میں ہجرت کی  اور  یہ غزوہ بدر میں بھی   شریک ہوئے تھے ۔(معرفة الصحابة لأبي نعيم،ج2،ص1026،مطبوعہ ریاض)

   اسد الغابہ   میں ہے:”خرج أسعد بن زرارة وذكوان بن عبد قيس إلى مكة     يتنافران إلى عتبة بن ربيعة، فسمعا برسول الله صلى الله عليه وسلم فأتياه، فعرض عليهما الإسلام، وقرأ عليهما القرآن، فأسلما ولم يقربا عتبة، ثم رجعا إلى المدينة، فكانا أول من قدم بالإسلام إلى المدينة“ترجمہ: اسعد بن زرارہ اور  اور ذکوان بن  عبد قیس  مکہ کی طرف روانہ ہوئے  (مشرکین کےسردار )عتبہ بن ربیعہ    سے  (ایک معاملے کے بارے میں ) فیصلہ کروانے    تو انہوں نے    رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے  میں سنا   تو وہ دونوں آپ علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے   ،پس نبی پاک نے ان پر اسلام پیش کیا   اور ان کے سامنے قرآن پڑھا   تو وہ اسلام لے آئے   اور پھر عتبہ کے پاس نہ گئے  اور بعد ازیں مدینہ  واپس لوٹ گئے ۔پس یہ دونوں     پہلے  شخص   ہیں جو مسلمان ہوکر مدینہ آئے ۔(أسد الغابة ،ج2،ص17،دار الفكر،بیروت)

   کنز العمال کی حدیث پاک ہے :”تسموا بخياركم“ترجمہ:اپنے  میں سے بہترین لوگوں کے ناموں پر نام رکھو۔ (كنز العمال،ج16،ص423،حدیث 45229 ،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)

   بہارشریعت میں ہے :” انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے امید ہے کہ ان کی برکت بچہ کے شامل حال ہو۔“(بہارشریعت،ج 03،حصہ15،ص356،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ  بالاحدیث پاک کے تحت ہے” قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن “ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار ،ج 6،ص 417،دار الفکر،بیروت)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے :” بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے ان کے ساتھ ’’ جان ‘‘ وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“(فتاوٰی رضویہ،ج24،ص 691،رضا فاؤنڈیشن)

   لفظ 'ذکوان' عربی گرائمر کی رو سے " ذکی"  صفت مشبہ کا ایک  صیغہ ہے جو کہ "ذکاء"  سے مشتق ہے ،لسان العرب میں ذکاء کا معنی یہ بیان کیا گیا:  ”والذكاء: سرعة الفطنة وصبي ذكي إذا كان سريع الفطنة“ترجمہ:ذکاء کا معنی  تیز فہمی (ذہانت )ہے  اور   ذکی  بچہ  تب کہا جاتا ہے جب وہ تیز فہم (ذہین )ہو۔(لسان العرب،ج14،ص287،دار صادر بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم