Rahim Naam Rakhna Aur Pukarna

رحیم نام رکھنا اور پکارنا

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر: WAT-2466

تاریخ اجراء: 09شعبان المعظم1445 ھ/20فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   رحیم نام رکھنا کیسا؟اور بیٹے کو صرف"رحیم"کہہ کر پکارنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رحیم نام رکھنا بالکل درست ہے ، اور بیٹے کو رحیم کہہ کر پکارنے میں بھی کوئی حرج نہیں، رحیم اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے لیکن یہ ایسا نام نہیں جو اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ خاص ہو، قرآن پاک میں یہ نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےبھی آیا ہے اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے صفاتی ناموں میں بھی شامل ہے۔

   جو نام اللہ عزوجل  کے ساتھ خاص نہیں ، ان سے  متعلق درمختار میں ہے”و جا ز التسمیۃ  بعلی و رشید  و غیرھما من الاسماء المشترکۃ و یراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالی ،لکن التسمیۃ بغیر ذلک فی زماننا اولی لان العوام  یصغرونھا عند النداء“ترجمہ:اسما ء مشترکہ میں سے علی ،رشید  وغیرہ نام رکھنا جائز ہے  اور (ان اسماء سے )جو معنی  اللہ تعالیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے ،لیکن ہمارے زمانے میں ایسے ناموں کے علاوہ نام رکھنا بہتر ہے کیونکہ عوام پکارتے وقت ان ناموں کی تصغیر کرتے  ہیں۔(الدرالمختار مع ردالمحتار ،کتاب الحضر وا لاباحۃ،جلد9،صفحہ689,688،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی مصطفویہ میں ہے :’’بعض اسماء  الٰہیہ  جو اللہ عزو جل  کے لیے مخصوص ہیں جیسے اللہ ،قدوس ، رحمن ،قیوم وغیرہ انہیں کا اطلاق غیر پر کفر ہے ، ان اسماء کا نہیں ،جو اس کے ساتھ مخصوص نہیں جیسے عزیز ،رحیم ، کریم، عظیم، علیم، حی وغیرہ ۔بعض وہ ہیں جن کا اطلاق مختلف فیہ ہے ،جیسے قدیر،مقتدر  وغیرہ ۔‘‘( فتاوی مصطفویہ ،صفہ90،مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم