Wali Ullah Naam Rakhna Kaisa ?

ولی اللہ نام رکھنا

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2769

تاریخ اجراء: 27ذیقعدۃالحرام1445 ھ/05جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ولی اللہ نام رکھنا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ’’ولی اللہ ‘‘ نام رکھنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ ایک منصب ہےاور نیک و پر ہیز گار  لوگوں کےلیے ہی بولا جاتاہے نیز خود سےایسا  نام رکھنے میں خود ستائی اور تزکیہ نفس کا عنصر موجود ہےجس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی پسند نہیں فرمایا ،چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت کا نام ”بَرّہ/ نیکوکار“ سے تبدیل فرما کر ”زینب“ رکھا تھا اور فرمایا تھا کہ ”اپنے نفس کا تزکیہ نہ کرو۔

   لہذا اس کی جگہ بچے کا نام انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام پر رکھیں، اس کی برکت سے بچے کی زندگی میں ان ہستیوں کی برکت شامل ہونے کی بھی امید ہے اور اس میں بھی بچے کا اصل نام ’’محمد‘‘  رکھیں اور پکارنے کے لیے  انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام علیہم الرضوان یا بزرگانِ دین میں سے کسی کے نام پر رکھا جائے، اس  طرح ’’محمد‘‘ نام کی برکات بھی ملیں گی اور اس نام کی وجہ سے دنیا و آخرت میں انعامات و اکرامات بھی ملیں گے۔

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:” ایسے نام جن میں تزکیہ نفس اور خود ستائی نکلتی ہے، ان کو بھی حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے بدل ڈالا، برہ کا نام زینب رکھا اور فرمایاکہ ''اپنے نفس کا تزکیہ نہ کرو۔ ''شمس الدین، زین الدین، محی الدین، فخر الدین، نصیر الدین، سراج الدین، نظام الدین، قطب الدین وغیرہا اسما جن کے اندر خود ستائی اور بڑی زبردست تعریف پائی جاتی ہے نہیں رکھنے چاہیے۔(بہارشریعت،جلد3،حصہ 16، صفحہ604، مکتبۃالمدینہ )

محمدنام رکھنے کی فضیلت:

   کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے” قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن “ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 6،ص 417،دار الفکر، بیروت)

   الفردوس بماثور الخطاب میں ہے:  ”تسموا بخياركم “ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو ۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2328، دار الكتب العلمية ، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم