mayyat, Chehlum Aur Niaz Ke Khane Ka kiya Hukum Hai ?

میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

مجیب:مولانانوید چشتی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin:4874

تاریخ اجراء:08صفرالمظفر1438ھ/09نومبر2016ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں اگر کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو فوتگی والے دن کے کھانے، تیجے، ساتویں، دسویں، بیسویں اور چالیسویں وغیرہ کے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز میلاد،نذر اور نیاز کے کھانے کی کیا حیثیت ہے؟وضاحت فرما دیں۔

سائل:محمد عثمان عزیز عطاری( گریڈ اسٹیشن،کہوٹہ، راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ایسا کھانا جو ایام  موت میں بطور دعوت کھلایا جاتا ہے وہ ممنوع اور بدعت ہے، وہ نہ کھایا جائے اغنیاء کے لیے نا جائز ہے،فقراء کھا سکتے ہیں، اس کے علاوہ فاتحہ، چہلم، برسی، ششماہی کا کھاناجبکہ  ایصال ثواب کے لیے ہے تو غنی و فقیر سب کے لیے کھانا جائز ہے البتہ بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائیں بلکہ فقیر کھائیں، اور اگر یہ کھانا صرف رسمی اوربھاجی کے طور پر کھلایا جاتا ہے تو یہ بالکل بے معنی ہے اس سے احتراز کرنا چاہیے البتہ اس کا کھانا منع نہیں اور میلاد یا نیاز کا لنگر کھانا بالکل جائز بلکہ باعث برکت ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم