قرض دے کر مشروط نفع لینے کا حکم ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1738

تاریخ اجراء:10ربیع الآخر1441ھ/08دسمبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے کچھ لوگوں سے ادھار میں مال لیا تھا ، اب مزید مال کی ضرورت ہے ، لیکن اُن لوگوں کو اُن کی گزشتہ رقم ادا کیے بغیر مزید مال نہیں ملے گا ، اس لیے میں نے اپنے ایک دوست سے کچھ رقم ادھار لینے کے لیے رابطہ کیاتاکہ وہ رقم اُن لوگوں کو دے کر مزید مال لے لوں ، لیکن دوست کے ساتھ طے یہ کرنا ہے کہ میں اُس کے پیسے قرض خواہوں کو دے کر جو مال لاؤں گا ، اس میں سے ہر پیس پر معین مقدار میں دوست کو بھی نفع دیتا رہوں گا اور دوست کی اصل رقم میرے پاس ہی محفوظ رہے گی ، بعد میں وہ رقم بھی لوٹا دوں گا ۔ آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ اس طرح میرا اپنے دوست سے قرض لینا اور اس کو یہ نفع دینا جائز ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ خالص سود ہے  کہ قرض دے کر نفع لینا ہے اور اسی کو سود کہتے ہیں ، اس کا لینا دینا ناجائز و حرام ہے ۔

    اللہ عز وجل قرآنِ مجید میں سود کی حرمت کے متعلق ارشاد فرماتا ہے : ﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ ترجمۂ کنز الایمان:”اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو ۔ “

(پارہ 3 ، سورۃ البقرۃ ، آیت 275 )

    نفع کے ساتھ مشروط قرض کے متعلق سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا :”کل قرض جر منفعۃ فھو ربا “ترجمہ : ہر وہ قرض جو نفع لائے سود ہے  ۔

( نصب الرایہ ، جلد 4 ، صفحہ 60 ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان ، بیروت )

    صحیح مسلم میں ہے:’’ عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اٰکلَ الربا و موکلَہ و کاتبَہ و شاھدیہ ‘‘ ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔

 ( الصحیح لمسلم ، کتاب البیوع ، باب الربا، جلد 2 ، صفحہ 27 ، مطبوعہ کراچی )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں قرض پر نفع کے متعلق فرماتے ہیں:”قطعی سود اور یقینی حرام و گناہِ کبیرہ و خبیث و مردار ہے ۔ “

( فتاوی رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 269 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    ایسا قرض لینے ، دینے والے کے متعلق فرماتے ہیں:” اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی ، تو بے شک سود و حرامِ قطعی و گناہِ کبیرہ ہے ۔ ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کے مثل ملعون ہے ۔ “

 ( فتاوی رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 278 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم