اس شرط پر قرض دینا کہ مقروض اسے مارکیٹ سے کم ریٹ پر اشیاء بیچے گا؟

مجیب مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6653

تاریخ اجراء:11جمادی الثانی1442ھ25جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ زید نے عمرو سے کہا کہ مجھے کاروبار کے لیے رقم چاہیے ،اس رقم سے کاروبار کرنے کی وجہ سے مجھے بھی فائدہ ہو گا اور آپ کو بھی فائدہ دوں گا۔عمرو نے کہا کہ مجھے کیا فائدہ ہو گا؟زید نے کہا کہ میں اس رقم سے اپنا کاروبار کروں گا اور آپ کو فائدہ یہ ہو گا کہ میں آپ کو ہر ماہ ایک ہزار تولہ چاندی بیچوں گا اور اس کا ریٹ فی تولہ مارکیٹ سے 80روپے کم ہو گا اور اگر کسی ماہ چاندی نہ بیچ سکا، تو اس سے اگلے ماہ پچھلا وزن بھی پورا کروں گا اور فی تولہ مارکیٹ سے 80روپے کمی کے بجائے 160روپے کمی کے ساتھ بیچوں گا۔یونہی جب تک آپ کو رقم واپس نہیں کردیتا،اس وقت تک اسی طرح مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر چاندی بیچتا رہوں گا۔یاد رہے کہ زید عمرو کی رقم سے   جو کاروبارکرے گا،اس کاروبار کے ساتھ  عمرو کاکوئی تعلق نہیں ہوگا،اس میں نفع ہو یا نقصان ،بہر صورت زید بعد  میں عمرو کو اس کی پوری رقم واپس کرے گا ۔براہِ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ زید اور عمرو کے ما بین طے پانے والا مذکورہ معاہدہ شرعا درست ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں زید کا عمرو کے ساتھ یوں معاہدہ کرنا کہ جب تک وہ عمرو کی رقم واپس نہیں کرے گا،اس وقت تک اسے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر چاندی بیچتا رہے گا،تویہ شرعاً درست نہیں،بلکہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔تفصیل اس کی کچھ اس طرح ہے کہ زید عمر و سے اپنا کاروبار کرنے کے لیے جو رقم لے رہا ہے،اس کی شرعی حیثیت قرض کی ہے،کیونکہ ان دونوں کے درمیان یہ طے  ہےکہ زید جتنی رقم لے رہا ہے،اتنی ہی بعد میں  واپس کرے گا،خواہ اسے اپنے کاروبار میں نفع ہو یا نقصان اور قرض کی حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی کو کوئی چیز اس لیے دی جائے کہ بعد میں وہ اس کی مثل واپس کرے،لہذا زید کے پاس یہ رقم قرض ہےاور قرض پر مشروط نفع کا لین دین سود ہوتا ہے۔اب پوچھی گئی صورت میں بھی عمر و کو یہ نفع مل رہا ہے کہ اسے چاندی مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر مل رہی ہے اورقیمت کم ہونے کی یہ منفعت  اسی قرض کی وجہ سے ہے،لہذا یہ بھی سود ہےاور سود کا لین دین اور اس کا معاہدہ کرنا ،ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔

     قرض کی تعریف کے بارے میں تنویر الابصار میں ہے:’’عقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلی لاٰخر، لیرد مثلہ‘‘ترجمہ:مخصوص عقد جو دوسرےکومثلی مال دینے پر وارد ہو،تاکہ وہ(بعد میں )اس کی مثل واپس کرے۔ )نویر الابصار مع در مختار،جلد7،صفحہ406تا407،مطبوعہ پشاور (

     قرض پرمشروط نفع سود ہوتا ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کل قرض جر منفعۃ فھو ربا‘‘ترجمہ:ہر وہ قرض، جو نفع کھینچے،تو وہ سود ہے ۔ (کنز العمال ،جلد16،صفحہ238،مطبوعہ بیروت)

     اور علامہ ابو الحسن علی بن الحسین  السغدی رحمۃ اللہ علیہ قرض سے نفع اٹھانے کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’والاٰخر ان یجر الی نفسہ منفعۃ بذلک القرض او تجر الیہ وھو ان یبیعہ المستقرض شیئابارخص مما یباع او یؤجرہ او یھبہ ھبۃ او یضیفہ او یتصدق علیہ بصدقۃ او یعمل لہ عملا یعینہ علی امورہ او یعیرہ عاریۃ او یشتری منہ شیئا باغلی مما یشتری او  یستاجر اجارۃ باکثر مما یستاجر ونحوھا ولو لم یکن ذلک (ھذا)القرض لما کان (ذلک )الفعل فان ذلک ربا‘‘ ترجمہ:اور (قرض دے کر اس پرنفع حاصل کرنے کی )دوسری صورت یہ ہے کہ قرض دینے والااس قرض کی وجہ سے خودکوئی  منفعت حاصل کرے یا اسے کوئی منفعت دی جائےاور وہ اس طرح کہ قرض لینے والا قرض دینے والے کو کوئی چیز اُس قیمت سے کم قیمت پر بیچےگا،جتنے کی وہ (عام طورپر)بیچی جاتی ہےیا اسے کوئی چیز(کم اجرت کے بدلےمیں) کرائے پر دے گایا کوئی چیز تحفۃً دے گایا اس کی مہمان نوازی کرے گایا اس پر کوئی چیز صدقہ کرےگا یا اس کے لیے کوئی ایسا کام کرے گا،جو اس کے معاملات میں معاون ثابت ہو یا اسے کوئی چیز عاریۃً دےگا یا اس سےکوئی چیز اس قیمت سے کم قیمت پرخریدے گا، جتنے کی (عام طور) پر خریدی جاتی ہےیا اسے اس تنخواہ سے زیادہ پر ملازم رکھے گا جتنے پر )عام طور پر( ملازم رکھا جاتا ہے اور اس جیسی دیگر مثالیں،حالانکہ اگر اس قرض کا لین دین نہ ہوتا،تو اس طرح کا معاملہ نہ ہوتا،پس بیشک یہ تمام صورتیں سود کی ہیں۔)النتف فی الفتاوی للسغدی،انواع الربا،الربا فی القروض،صفحہ296،دار الکتب العلمیہ،بیروت(

     اورسود کی حرمت کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الْبَیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ترجمہ کنز الایمان:’’وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے،مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیاسود۔)پارہ3،سورۃالبقرہ،آیت275(

     اورحدیثِ پاک میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکل الربو و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال:ھم سواء ‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےسود کھانے والے،کھلانے والے ،اس کی کتابت کرنے والےاور اس پر گواہی دینے والوں  پر لعنت فرمائی اور فرمایایہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں ۔)صحیح مسلم،جلد2،صفحہ27،مطبوعہ کراچی(

     اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سود کا ایک حبہ لینا حرام قطعی کہ سود لینے والے پر اللہ و رسول کی لعنت ہے ،صحیح حدیثوں میں فرمایا:’’الربا ثلثۃ و سبعون حوباً ایسرھن کان یقع الرجل علی امہ ‘‘یعنی سود کھانا تہتر گناہوں کا مجموعہ ہے، جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے ۔ ‘‘(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ391تا392،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     جس طرح سود لینا حرام ہے،اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔چنانچہ الاشباہ والنظائر میں ہے:’’ما حرم اخذہ، حرم اعطاؤہ،کالربا‘‘ ترجمہ: جس کا لینا حرام ہے، اس کا دینا بھی حرام ہے، جیسے سود۔(الاشباہ والنظائر، الفن الاول، القاعدۃ الرابعۃ عشرۃ، صفحہ 155، مطبوعہ کراچی)

     اور سودی معاہدہ کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سودی دستاویز لکھانا سود کا معاہدہ کرنا ہے اور وہ بھی حرام ہے۔۔جب اس کا تمسک موجبِ لعنت اور سود کھانے کے برابر ہے، تو خود اس کا معاہدہ کرنا کس درجہ خبیث و بدتر ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 546،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم