قرض کا ایک اہم مسئلہ

مجیب:   مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ رَجَبُ المُرَجب 1442 ھ / مارچ 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید پر میرا 15لاکھ کا قرض ہے ، زید نے بکر سے میری بات کروا دی کہ مجھے قرض کی رقم بکر ادا کرے گا اور بکر نے اسے قبول کر لیا ، بکر اب تک قرض کی آدھی رقم مجھے دے چکا ہے اور بقیہ کے متعلق کہتا ہے کہ میرے پاس فی الحال رقم کی گنجائش نہیں ہے ، جب ہو گی تب ادا کروں گا۔ یہ معاہدہ کیے ہوئے تقریبا پانچ سال ہو چکے ہیں ، تو کیا میں اپنی بقیہ رقم کا مطالبہ زید سے کر سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      صورتِ مسئولہ میں آپ اپنے قرض کا مطالبہ بکر ہی سے کریں گے ، زید سے نہیں کر سکتے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرعاً مقروض کا اپنے اوپر لازم آنےوالے دَین مثلا ًقرض کو اپنے ذمہ سے دوسرے شخص کے ذمہ کی طرف منتقل کرنا حوالہ کہلاتا ہے ، مقروض یعنی حوالہ کرنے والے کو مُحیل اور دائن یعنی قرض خواہ کو مُحتال اور جس پر حوالہ کیا گیا ، اسے مُحتال علیہ یا مُحال علیہ کہتے ہیں۔ جب مقروض اپنے قرض کا دوسرے شخص پر حوالہ کر دے اور قرض خواہ اسے قبول کر لے ، تو مقروض برئ الذمہ ہوجاتا ہے اور اب قرض خواہ اس سے قرض کا مطالبہ نہیں کرسکتا ، سوائے اس کے کہ درج ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے۔

       (1)محتال علیہ یعنی جس پر قرض کا حوالہ کیا گیا تھا ، وہ حوالہ کیے جانے سے انکار کردے اور مقروض و قرض خواہ کے پاس کوئی گواہ نہ ہو اور محتال علیہ حوالے سے انکار پر قسم کھا لے۔

       (2)محتال علیہ مفلسی کی حالت میں فوت ہوجائے اور اس نے کوئی نقد مال یا دَین یا کفیل یعنی ضامن نہ چھوڑا ہو کہ جس سے یہ اپنا قرض لے سکے ، ان دو صورتوں میں قرض خواہ اپنے مقروض سے دوبارہ مطالبہ کر سکتا ہے ، ان کے علاوہ نہیں کر سکتا ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم