قرض کا مطالبہ ذمہ لینے والے سے ہوگا یا مقروض سے؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1870

تاریخ اجراء:26ذوالحجۃ الحرام1441ھ/17اگست2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید پر میرا 15لاکھ کا قرض ہے ، زید نے بکر سے میری بات کروا دی کہ مجھے قرض کی رقم بکر ادا کرے گا اور بکر نے اسے قبول کر لیا ، بکر اب تک قرض کی آدھی رقم مجھے دے چکا ہے اور بقیہ کے متعلق کہتا ہے کہ میرے پاس فی الحال رقم کی گنجائش نہیں ہے ، جب ہو گی تب ادا کروں گا ۔ یہ معاہدہ کیے ہوئے تقریبا پانچ سال ہو چکے ہیں ، تو کیا میں اپنی بقیہ رقم کا مطالبہ زید سے کر سکتا ہوں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صورتِ مسئولہ میں آپ اپنے قرض کا مطالبہ بکر ہی سے کریں گے ، زید سے نہیں کر سکتے ۔

     اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرعا مقروض کا اپنے اوپر لازم آنے والے دَین مثلا قرض کو اپنے ذمہ سے دوسرے شخص کے ذمہ کی طرف منتقل کرنا حوالہ کہلاتا ہے ، مقروض یعنی حوالہ کرنے والے کو مُحیل اور دائن یعنی قرض خواہ کو مُحتال اور جس پر حوالہ کیا گیا ، اسے مُحتال علیہ یا مُحال علیہ کہتے ہیں ۔ جب مقروض اپنے قرض کا دوسرے شخص پر حوالہ کر دے اور قرض خواہ اسے قبول کر لے ، تو مقروض برئ الذمہ ہوجاتا ہے اور اب قرض خواہ اس سے قرض کا مطالبہ نہیں کرسکتا ، سوائے اس کے کہ درج ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے ۔

(1)     محتال علیہ یعنی جس پر قرض کا حوالہ کیا گیا تھا ، وہ حوالہ کیے جانے سے انکار کردے اور مقروض و قرض خواہ کے پاس کوئی گواہ نہ ہو اور محتال علیہ حوالے سے انکار پر قسم کھا لے ۔ (2)محتال علیہ مفلسی کی حالت میں فوت ہوجائے اور اس نے کوئی نقد مال یا دَین یا کفیل یعنی ضامن نہ چھوڑا ہو کہ جس سے یہ اپنا قرض لے سکے ، ان دو صورتوں میں قرض خواہ اپنے مقروض سے دوبارہ مطالبہ کر سکتا ہے ، ان کے علاوہ نہیں کر سکتا ۔

حوالہ کی تعریف کے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”ھی نقل الدین من ذمۃ المُحیل الی ذمۃ المُحتال علیہ “ ترجمہ : یہ (یعنی حوالہ) دَین (یعنی قرض) کو مُحیل (یعنی مقروض) کے ذمے سے محتال علیہ (یعنی جس پر حوالہ کیا گیا ، اس) کے ذمہ کی طرف منتقل کر نا ہے ۔

(تنویر الابصار و الدر المختار مع رد المحتار ، ج8 ، ص5۔7 ، مطبوعہ کوئٹہ)

     صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”دَین کو اپنے ذمہ سے دوسرے کے ذمہ کی طرف منتقل کر دینے کو حوالہ کہتے ہیں ، مدیون (مقروض) کو محیل کہتے ہیں اور دائن (قرض خواہ) کو محتال اور محتال لہ اور محال اور محال لہ اور حویل کہتے ہیں اور جس پر حوالہ کیا گیا ، اُس کو محتال علیہ اور محال علیہ کہتے ہیں اور مال کو محال بہ کہتے ہیں ۔“

 (بھارِ شریعت ، حصہ12 ، ج2 ، ص874 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

     حوالہ کے حکم کے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”و برئ المحیل من الدین و المطالبۃ جمیعا (بالقبول) من المحتال للحوالۃ (و لا یرجع المحتال علی المحیل الا بالتوی و ھو) باحد امرین ( ان یجحد) المحال علیہ (الحوالۃ  و یحلف و لا بینۃ لہ) ای : لمحتال و محیل (او یموت) المحال علیہ (مفلسا) بغیر عین و دین و کفیل“ ترجمہ : اور محتال (قرض خواہ) کے حوالہ کو قبول کر لینے سے محیل دَین اور مطالبے دونوں سے آزاد ہو جائے گا اور محتال ہلاکت کی صورت کے علاوہ محیل پر رجوع نہیں کرے گا اور ہلاکت دو  صورتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوتی ہے ، یہ کہ محال علیہ حوالہ سے انکار کر دے اور قسم کھا لے اور اس یعنی محتال اور محیل کے پاس گواہ نہ ہوں ، یا محال علیہ کسی نقد مال یا دَین یا کفیل (ضامن) کو چھوڑے بغیر محتاجی کی حالت میں فوت ہو جائے ۔

(تنویر الابصار و الدر المختار مع رد المحتار ، ج8 ، ص12۔ 14 ، مطبوعہ کوئٹہ)

     سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حوالہ کے بعد دائن کو اصلاً اختیار نہیں رہتا کہ اصل مدیون سے  اپنے دَین کا مطالبہ کرے ، ہاں اگر محتال علیہ حوالہ ہونے سے مکر جائے اور قسم کھا لے اور محیل و محتال کسی کے پاس گواہ نہ ہوں ، یا محتال علیہ مفلس مر جائے کہ جائداد یا مالِ نقد یا قرض نہ چھوڑے ، نہ کوئی اس کی طرف سے ضامن ہو ، تو صرف اس صورت میں حوالہ باطل ہو کر دَین پھر اصل مدیون پر عود کرتا ہے ۔ “                                                                                 

(فتاوٰی رضویہ ،ج17 ،ص710 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم