Amanat Rakhwane Wale Ka Intiqal Ho Jaye Tu Us Amanat Ka Kya Karen ?

امانت رکھوانے والے کا انتقال ہوجائے تو اس امانت کا کیا کیا جائے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12560

تاریخ اجراء:        28 ربیع الثانی 1444 ھ/24 نومبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری ایک خاتون رشتے دار نےہمارے پاس تین ہزار روپے بطورِ امانت رکھوائے تھے، لیکن یہ رقم واپس لینے سے پہلے اس خاتون کا انتقال ہوگیا  اور وہ رقم ہمارے پاس ویسے ہی موجود ہے،معلوم یہ کرنا ہے  کہ کیا ہم اس رقم کو صدقہ کر سکتے ہیں یا وہ رقم ان کے گھر والوں کو دینی ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جب آپ کی رشتے دار خاتون کا انتقال ہوچکا اور ان کی امانت رکھوائی ہوئی رقم آپ کے پاس موجود ہے ، تو وہ رقم ان کے ورثاء کے حوالے کردی جائے ،اس رقم کو صدقہ نہیں کیا جا سکتا ۔

   دررالحکام میں ہے:”تعطی الودیعۃ عند وفاۃ المودع لوارثہ او لوصیہ وللوارث ان یطلب الودیعۃ من المستودع وان یدعی بھا لان الوارث قائم مقام المورث“یعنی امانت رکھوانے والے کی وفات کے بعد امانت اس کے وراث یا اس کے وصی کو دی جائے گی اور وارث کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کے پاس امانت رکھی ہو اس سے امانت کا مطالبہ کرے  اور اس کا دعوی کرے ، کیونکہ وارث مورث کے قائم مقام ہے۔(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، جلد 2،صفحہ 330،درالجیل، بیروت)

   فتاوی ھندیہ میں ہے:”غاب المودع ولا یدری حیاتہ ولا مماتہ یحفظھا ابدا حتی یعلم بموتہ وورثتہ کذا فی الوجیز للکردری ولا یتصدق بھا۔۔۔۔فان مات ولم یکن علیہ دین مستغرق یرد علی الورثۃ “یعنی امانت رکھوانے والاغائب ہوگیا،اس کی زندگی و موت کا معلوم نہیں ،تو امانت کی حفاظت کرے گا حتی کہ اس کی موت اور وارثوں کی موت کا علم ہو جائے ،ایسا ہی وجیزِ کردری میں ہے اور امانت کو صدقہ نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔ پھر اگر امانت رکھوانے والا وفات پاجائے اور اس پر دَینِ مستغرق نہ ہو، تو امانت اس کے ورثا کے حوالے کردے۔(فتاوی ھندیہ، جلد4، صفحہ 354، مطبوعہ:مصر)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جب موت کا علم ہوجائے اور ورثہ بھی معلوم ہیں ، ورثہ کو دے دے ، معلوم نہ ہونے کی صورت میں ودیعت کو صدقہ نہیں کرسکتا“(بھارِ شریعت، جلد3،حصہ 14، صفحہ 38، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم