Bank Mein Committee Dalna Kaisa?

بینک میں کمیٹی ڈالناکیسا ؟

مجیب:مولانا کفیل صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:aqs:1335

تاریخ اجراء:18رمضان المبارک1439ھ/3جون2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بینکوں کی جانب سے مختلف اسکیمیں سامنے آتی رہتی ہیں، فی الحال ایک بینک کی جانب سے ایک اسکیم،کمیٹی کے نام کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے ،کہ بینک کے ساتھ کمیٹی ڈالئے،نہ کمیٹی ڈوبنےکی فکراور دیگر پریشانیوں سے بھی نجات ۔ 12یا18 یا 24 ماہ کی بینک کے ساتھ کمیٹی ڈالی جاسکتی ہے  ،جس میں منتخب شدہ مدت کے مکمل ہونے اور تمام اقساط کی ادائیگی پرکسٹمر کو  Bank Contribution بھی حاصل ہوگا، جبکہ مکمل منتخب شدہ مدت مکمل ہونے سے قبل اگرکسٹمر اپنی جمع شدہ رقم لینا چاہے تو بغیر کسی Penaltyکے لے سکتاہے،البتہ ایسی صورت میں Bank Contributionنہیں ملےگا۔بینک،Bank  Contribution کے نام پر 24 لاکھ کی کمیٹی پر 1 لاکھ ،18 لاکھ کی کمیٹی پر 50 ہزار اور 12لاکھ کی کمیٹی پر 25 ہزار دے رہا ہے ۔

     مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ معلوم کرنا ہے کہ بینک  کے ساتھ اس طرح کی کمیٹی ڈالنا  جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سوال میں بیان کردہ کمیٹی ڈالنا ناجائز ،حرام اور کبیرہ گناہ ہے ،بلکہ سود ہونے کی وجہ سے اللہ عزوجل ورسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلانِ جنگ کے مترادف ہے ۔کیونکہ بینکContribution كے نام پر جو اضافی رقم دے رہا ہے ،درحقیقت وہ سود ہی ہے، کیونکہ بینک میں جمع شدہ رقم کی حیثیت شرعا قرض کی ہے اور قرض پر مشروط نفع بحکمِ حدیث سود ہے ۔

     چنانچہ حدیث مبارک میں ہے: کل قرض جرمنفعۃ فھو ربواترجمہ: قرض کےذریعےجونفع حاصل کیا جائے وہ سودہے۔ (کنز العمال جلد 6، صفحہ 238، بیروت)

     اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں سود کی حرمت ارشاد فرماتا ہے: (1) اَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ترجمہ کنزالعرفان: اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا اورسود کو حرام کیا (2)یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ترجمہ کنز العرفان: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔(3)یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ﴿۲۷۸فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ۔ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تواللہ سے ڈرو اور جو سودباقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو۔(سورۃ البقرۃ : آیات: 278275.276.279.)

     نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے پر لعنت فرمائی، اور سب کو گناہ میں برابر قرار دیا، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:’’لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ، وقال ھم سواء‘‘ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، اسے لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی، اور فرمایا: یہ سب (گناہ میں ) برابر ہیں‘‘۔(صحیح مسلم جلد 2، صفحہ 27، مطبوعہ: کراچی)

     ہوسکتا ہے کسی کےذہن میں یہ خیال آئے کہ یہ کمیٹی ڈال لیتے ہیں اور مقررہ مدت سے پہلے بینک سے اپنی جمع شدہ رقم واپس لے لیں گے ،یوں ہمیں سود نہیں ملے گا تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس نیت سے بھی کمیٹی ڈالنے کی اجازت نہیں، کیونکہ بہرحال اس کمیٹی کا عقد (agreement)سود پر مشتمل ہے اور سودی عقد(agreement) کرنا بھی ناجائز وگناہ ہے ،لہذا کسی بھی صورت میں اس طرح کی کمیٹی ڈالنا جائز نہیں،اگر خدانخواستہ کسی نے یہ کمیٹی ڈال لی ہے تو اس پر لازم ہے کہ فورا اسے ختم کروائے، اپنی جمع شدہ رقم واپس لے لے اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں سچی توبہ بھی کرے۔

     ایسی کمیٹیاں شروع کرنےوالے اداروں پر بھی افسوس ہے کہ نجانے ،کیوں قسم کھاکے بیٹھے ہیں ،کہ لوگوں کو سود کھلانا ہی کھلانا ہے۔ کبھی کسی نام پر ، کبھی کسی طریقے سے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم