Committee Jama Karne Wale Se Committee Ki Raqam Chori Ho Jaye To Hukum

 

کمیٹی (B.C)جمع کرنے والے سے کمیٹی کی رقم چوری ہوجائے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:ابوالفیضان عرفان احمدمدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-8807

تاریخ اجراء: 26 شعبان المعظم 1445ھ /08مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ کمیٹی جمع کرنے والے سے اگرکمیٹی کی رقم چوری ہوجائے،توکیا حکم ہوگا،کیادیگرممبران،ایڈمن یعنی کمیٹی جمع کرنے والے سے اپنی رقم کامطالبہ کرسکتے ہیں یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفسِ مسئلہ جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے  کہ کمیٹی ایڈمن یعنی کمیٹی جمع کرنے والے کے پاس کمیٹی کی جمع شدہ رقم کی حیثیت یاتوامانت ہوگی یا قرض۔اگرکمیٹی ممبران کی طرف سے کمیٹی ایڈمن کوصراحتا ًیادلالتاًکمیٹی کی رقم استعمال کرنے کی اجازت ہو،تووہ قرض کہلائے گی اوراگریہ صراحت ہوکہ کمیٹی ممبران جو رقم جمع کروا رہے ہیں،وہ بعینہٖ محفوظ رکھی جائے گی،منتظم  اپنے استعمال میں نہیں لائےگا،تویہ رقم  امانت کہلائے گی اور اگر کسی بھی چیز کی صراحت نہیں کی گئی ، جس سے رقم کے امانت یا قرض ہونے کا معلوم ہو،تووہاں کا عرف دیکھا جائے گا کہ یہاں لوگ استعمال کرنے کی اجازت کے ساتھ  رقم جمع کرواتے ہیں،توقرض سمجھاجائے گا،جیساکہ  ہمارے ہاں  عموماً مارکیٹوں میں چلنے والی کمیٹیوں  میں استعما ل کی اجازت ہوتی ہے  اورجہاں لوگ بطورِ امانت  دیتے ہوں،جیساکہ بعض جگہوں پرگھروں میں  ڈالی جانےو الی بعض کمیٹیوں میں جمع کی ہوئی رقم خرچ نہیں کی جاتی،بلکہ بعینہٖ جمع شدہ رقم ہی آگے ممبرکومنتقل کردی جاتی  ہے،تووہاں بعینہ رقم کومحفوظ رکھنا ضروری ہوگا۔

   تمہیدی گفتگو سمجھنے کے بعد نفسِ مسئلہ کاجواب یہ ہے کہ اگر  منتظم کے پاس کمیٹی کی جمع شدہ رقم کی حیثیت قرض کی تھی یاوہاں کاعرف یہ ہوکہ لوگ استعمال کی اجازت کے ساتھ جمع کرواتے ہوں، توایسی صورت میں رقم چوری ہونے کے بعداس کی  ذمہ داری جمع کرنے والے پرہوگی،کیونکہ   مقروض کے پاس سے قرض کی رقم اگرچوری ہوجائے، تو اس سے قرض پرکوئی اثرنہیں پڑتا،بلکہ قرض خواہ اس سے مطالبہ کا پوراحق رکھتاہے  اورقرض   میں مطالبہ کے  وقت مثلی چیز کواداکرنالازم ہوتاہے،لہٰذاممبران  کے مطالبہ کی صورت میں ایڈمن پراتنی رقم واپس  کرنالازم  ہوگا۔

   اوراگرایڈمن کے پاس کمیٹی کی رقم  بطورِ امانت تھی یا وہاں کاعرف یہ ہوکہ لوگ بعینہٖ وہی رقم محفوظ رکھنے کے لیےجمع کرواتے ہوں،جیساکہ بعض گھروں میں ڈالی جانے والی کمیٹیوں میں ایساہوتا ہے،توچوری ہونے کی صورت میں رقم کاتاوان لازم ہونے یا نہ ہونے  کے حوالے سے اُصول یہ ہے کہ جس کے پاس رقم امانت رکھوائی گئی اوراس سے وہ ہلاک (ضائع  ،چھین یا  چوری) ہو گئی ، تودیکھا جائے گا کہ اس میں امین کی طرف سے تعدی یعنی غفلت اورکوتاہی کارفرما ہے یانہیں؟اگرامین کی غفلت اورکوتاہی کی وجہ سے امانت ہلاک ہوئی،تواس کاذمہ دار امین ہی ہوگا،اگرچہ وہ  غفلت اورکوتاہی خطأًیانسیاناً (غلطی یا بھولے سے )ہی  کیوں نہ واقع ہوئی ہو،البتہ اگرامین  نے امانت کی حفاظت میں کسی طرح کی غفلت کامظاہرہ نہ کیا،بلکہ اس کوسنبھال کررکھا،پھربھی امانت ہلاک ہوگئی،تواس صورت میں امین ذمہ دارنہ  ہوگا،لہٰذاکمیٹی کی رقم،جمع کرنے والے کے پاس  سے اگراس کی غفلت اورکوتاہی   کی وجہ سےچوری ہوجائے،توجمع کرنے والے پرکمیٹی کی رقم کاتاوان  لازم ہوگا،البتہ اگرایڈمن نے کمیٹی کی رقم  کوبحفاظت رکھااور چوری سے بچانے  کے لیے  عام طورپرجواقدامات کیے جاتے ہیں،ان کو بروئے کارلایا،مگرپھربھی کمیٹی کی رقم چوری ہو گئی،توجمع کرنے والے پرکمیٹی کی رقم کا تاوان  لازم نہیں ہوگا۔

     قرض کی تعریف کے متعلق تنویرالابصار، درمختاراورردالمحتارمیں ہے:”ماتعطیہ من مثلی لتتقاضاہ(کان علیہ أن یقول لتتقاضی مثلہ)خرج نحو ودیعۃ وھبۃ أی خرج ودیعۃ وھبۃ(ونحو ھماکعاریۃ وصدقۃ، لأنہ یجب ردعین الودیعۃ والعاریۃ ولایجب ردشیء فی الھبۃ والصدقۃ)‘‘یعنی شرعاًقرض یہ ہے کہ آپ کسی کومثلی مال(رقم،غلہ،وغیرہ)اس طورپردیں کہ بعدمیں آپ اسی کی مثل واپس لیں گے،اس تعریف سے ودیعت (امانت)،ہبہ(گفٹ)،عاریت اورصدقہ نکل گئے،کیونکہ ودیعت اورعاریت میں توبعینہٖ چیزکولوٹاناواجب ہوتا ہے اورہبہ وصدقہ میں کچھ بھی لوٹانا واجب نہیں ہوتا۔(رد المحتار علی الدرمختار،کتاب البیوع ،فصل فی القرض ،جلد7، صفحہ406-407،مطبوعہ کوئٹہ)

   امانت کی حفاظت میں عُرف کااعتبارہے یعنی عُرف میں جس طرح اُس چیز کی حفاظت کی جاتی ہے،ویسےحفاظت کرناضروری ہے،ورنہ ضائع ہونے کی صورت میں تاوان لازم ہوگا،جیساکہ فتاوی عالمگیری  میں ہے:”اذاربط دابۃ الودیعۃ على باب داره ترکھا و دخل الدار فضاعت ان کان بحیث یراھا فلا ضمان وان کان بحیث لایراھافان کان فی المصر فھو ضامن وان کان فی القری فلا ضمان وان کان ربطھافی الکرم وذھب قیل ان غابت عن بصرہ فھو ضامن و قیل یعتبر العرف فی ھذا و اجناسہ ھکذا فی الظھیریۃ“ ترجمہ : جب امین نے امانت کے جانورکواپنے گھرکے دروازے کے پاس باندھ کرچھوڑدیااورگھرمیں چلاگیااوروہ امانت ضائع ہو گئی،تو اگروہ   ایسی جگہ تھی کہ  گھر  میں رہتے ہوئے،اس  کودیکھ سکتا تھا،توکوئی ضمان نہیں اوراگروہ ایسی جگہ پرتھاکہ وہ اسے نہیں دیکھ سکتاتھا،تودیکھا جائے گا کہ وہ شہرمیں تھایاگاؤں میں،اگرشہرمیں  تھا  تووہ ضامن ہے اوراگربستی میں تھا،توتاوان نہیں اوراگراس نے اسے باغ میں باندھااوروہ بھاگ گیاتوکہا گیاہے کہ اگر وہ نظروں سے غائب تھاتووہ ضامن ہے اورایک قول یہ ہے کہ  اس طرح کے مسائل(حفاظت کے معاملے)میں عرف کااعتبارکیاجائے گا،جیساکہ ظہیریہ میں ہے۔(الفتاوی الھندیہ،کتاب الودیعہ،جلد 4،صفحہ 344،مطبوعہ کوئٹہ)

   اورامانت کاتاوان لازم ہونے کے لیے تعدی یابے احتیاطی کاقصداًپایاجاناضروری نہیں،خطأًیا نسیاناً تعدی پائی گئی،تب بھی تاوان لازم ہے،جیساکہ اسی عالمگیری میں ہے:”ان ظن أنہ جعلھا فی جیبہ فاذا ھی لم تدخل فی الجیب فعلیہ الضمان کذا فی المحیط“ترجمہ:اگرامین  نے گمان کیاکہ اس نے امانت کے دراہم  کو جیب میں ڈال لیا ہے،جبکہ وہ اس وقت جیب میں نہیں گئے تھے،تواس پرضمان ہے۔(اس صورت میں خطأًتعدی پائی جا رہی ہے کہ وہ تو جیب میں ڈالنا چاہ رہاتھا،لیکن غلطی سے باہرگرگئے،لیکن پھربھی تاوان لازم ہے)۔(الفتاوی الھندیہ،کتاب الودیعہ،جلد 4،صفحہ 345،مطبوعہ کوئٹہ)

   نسیاناًتعدی پائی جانے کے باوجودتاوان لازم  ہوتاہے،جیساکہ اسی فتاوی ہندیہ میں ہے:”لو قال المودع وضعت الودیعۃ بین یدي قمت و نسیتھا فضاعت ضمن و بہ یفتی“ترجمہ:اگرمودع نے کہا میں نے امانت اپنے سامنے رکھی تھی، پھر میں کھڑا ہو گیا اور اسے بھول گیا ،تو وہ ضائع ہوگی،(اس صورت میں)وہ ضامن ہو گا اور اسی پر فتویٰ ہے۔(الفتاوی الھندیہ،کتاب الودیعہ،جلد 4،صفحہ 342،مطبوعہ کوئٹہ)

   اورامانت امین کی تعدی سے ہلاک ہوجائے،تووہ غاصب ہےاوراس پرتاوان لازم ہوجاتاہے، جیساکہ  فتاوی رضویہ میں ہے:” اگر دعوٰی استہلاک کاتھا یعنی اتنا زیور اسے عاریۃً دیاتھا،اس نے تلف کردیا تو اب یہ بعینہٖ دعوٰی غصب ہے اوراس کاحکم وہ ہے جواوپرمذکور ہوا:’’وذٰلک لان الامانات تنقلب مضمونات بالتعدی والامین یعود بہ غاصبا‘‘یعنی یہ تاوان اس لئے ہےکہ امانتیں تعدی کی وجہ سے مضمون ہوجاتی ہیں اورامین اس تعدی کی وجہ سے  غاصب ہوجاتاہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد18،صفحہ411،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم