Kafir Ka Maal Zime Par Baqi Ho Aur Wo Mar Jaye Tu Kya Karein ?

کافر کا مال ذمہ پر باقی ہو اور وہ مر جائے تو کیا کریں ؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1131

تاریخ اجراء: 20جمادی الاول1445 ھ/05دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی کافر کا مال دبایا ہو اور وہ مر گیا اب مال واپس کرنا ہے،تلاش کے باوجوداس کے ورثا بھی نہیں ملے، تو کیا کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی کافر کا مال دھوکے سے دبالینا،  ناجائز و گناہ ہے ، اس  گناہ  سے سچی توبہ کرتے ہوئے اس کا مال اس کے ورثاء کو دیا جائے۔ اگر مکمل چھان بین کے باوجود اس کے ورثاء نہ ملیں تو اس کا مال فقراء کو دے دیا جائے ، اس نیت سے نہیں کہ اس صدقے کا ثواب کافر کو پہنچے کیونکہ کافر ثواب کا مستحق ہی نہیں بلکہ اس لئے کہ کافر کے مرنے کے بعد اس کی ملکیت زائل ہو گئی تو بیت المال کے حقدار ہونے کی وجہ سے شرعی فقیروں کو دے کر برئ الذمہ ہو جائے ۔

   یہاں یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ورثا کی تلاش میں واقعی کماحقہ کوشش کی جائے ، صرف جان چھڑانے کے لیے دو چار جگہ پوچھ لینا کافی نہیں ۔

   سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کافر کے ایسے مال سے متعلق فرماتے ہیں:”وہ مال فقراء کو دے دے نہ اس نیت سے کہ اس صدقہ کاثواب اس کافرکوپہنچے کہ کافراصلاً اہل ثواب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ خبیث مرگیا اورموت مزیلِ ملک ہے تو اب وہ اس کامالک نہ رہا بلکہ حقِ بیت المال ہوا، توفقراء کو بذریعہ استحقاق مذکوردیاجاتاہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 54، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم