Maqrooz Faut Ho Jaye To Qarz Ka Mutalba Zamin Se Hoga Ya Wurasa Se?

مقروض فوت ہو جائے تو قرض کا مطالبہ ضامن سے ہوگا یا ورثاء سے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Gul-2360

تاریخ اجراء:17ربیع الثانی 1443ھ/23نومبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے شرعی طریقہ کار کے مطابق بکر سے ادھار پر ایک  موبائل خریدا، اور طے یہ پایا کہ ایک  سال بعد زید ، بکر کو موبائل کی قیمت ادا کرے گا۔ لیکن بکر کو اس کےلیے ایک تیسرے شخص کی ضمانت چاہیے تھی، جو اس بات کی گارنٹی دے کہ اگر زید نے قرض ادا نہ کیا، تو اس کی جگہ وہ تیسرا شخص رقم اد اکرے گا،بکر کے مطالبے پر،زید نے خالد کو راضی کیا اور خالد نے اس بات کی  ضمانت دے دی کہ اگر زید  نےقیمت ادا نہ کی ، تو وہ موبائل کی قیمت ادا کرے گا۔ہوا کچھ یوں کہ ابھی کچھ ماہ ہی گزرے تھے کہ زید کا انتقال ہو گیا اور اس کا ترکہ بھی موجود ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ بکر اب خالد سے قرض وصول کر سکتا ہے یا نہیں؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورت مسئولہ کا تعلق چونکہ کفالت کے ساتھ ہے،  اس لیے  جواب سے پہلے کچھ اہم باتیں ہیں، جن کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

   پہلی بات تو یہ ہے کہ  شرعی اعتبار سے ایک شخص کا ذمہ اپنے اوپر لینے کو کفالت کہا جاتا ہے۔ کفالت کی ایک قسم کفالت بالمال ہے اور کفالت بالمال  کسی فریق کے مرنے سے باطل نہیں ہوتی،البتہ اتنا حکم ضرور تبدیل ہوتا ہے کہ کفالت بالمال میں اصیل  کے مرنے سے، اصیل کے حق میں  قرض کی ادائیگی  کی جو مدت مقرر کی ہوتی ہے، مثلا: اتنے سال بعد قرض ادا کرنا ہے، وہ مدت  ختم ہو جاتی ہے۔مرنے والے کا ترکہ موجود ہونے کی صورت میں مرحوم کے ترکے میں سے دین کی ادائیگی کی جائے گی، اوراگر ترکہ موجود نہ ہو، تو قرض خواہ کفیل (یعنی ضامن) سے قرض کا مطالبہ کر سکتاہے،لیکن کب مطالبہ کرے گا ؟اس کی تفصیل نیچے بیان ہوگی۔

   دوسری بات یہ ہے کہ کسی شخص کے انتقال کی صورت میں اس کا وہ مال جو قرض میں مشغول ہو، مال وراثت  میں ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہوتا ، بلکہ وراثت  میں وہی مال تقسیم ہوتا ہے جو تجہیز و تکفین، قرضوں کی ادائیگی اورجائز وصیت ہونے کی صورت میں اس پر عمل کرنے کے بعد بچ جائے ۔

   اس ساری تفصیل کو سمجھنے کے بعد صورتِ مسئولہ کے مطابق شرعی اعتبار سے حکم یہ ہے کہ ترکہ موجود ہونے کی صورت میں ، بکرچاہے تو  میت کے ورثاء سے اپنا قرض وصول کر سکتا ہے،اور ورثاء پر لازم ہے کہ وہ میت کا قرض ادا کریں ،اور اگربکر، خالد سے وصول کرنا چاہتا ہے،میت کے ورثاء سے وصول  کرنا اختیار نہیں کرتا،تو اس  کے لیے یہ ضروری ہے کہ بکر  اس مدت پر ہی خالد  سے  قرض کا مطالبہ کر ے گا ،جو مدت سودے کے وقت طے ہوئی تھی ،لہذا پوچھی گئی صورت میں  سودے کے بعد سے ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ، بکر ، خالد سے  مطالبہ نہیں کر سکتا۔

   کفالت کی تعریف  کے متعلق  تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:”(ھی ضم ذمۃ) الکفیل (الی ذمۃ )الاصیل (فی المطالبۃ مطلقا) بنفس او بدین او عین “ ترجمہ: کفیل کے ذمہ  کو اصیل کے ذمے کے ساتھ مطلق مطالبے میں ملا دینا(کفالت ہے)، خواہ وہ نفس کا مطالبہ ہویا دَین کا یا عین  کا ۔(تنویر الابصار مع الدر المختار و رد المحتار، جلد5، صفحہ 281، دار الفکر)

   میت کا قرض  ادا کرنے کے متعلق امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”ادائے دُیُون تقسیم ترکہ پر مقدم ہے، پس جب تک مہر اور دیگر دیون بھی اگر ہوں، ادا نہ ہو لیں،تقسیم نہ کرنا چاہیے۔“(فتاوی رضویہ، جلد26، صفحہ 119، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اَصِیْل مر جائے ، تو اس کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”لو کان الدین علی الاصیل مؤجلا الی سنۃ فکفل بہ موجلا الی سنۃ او مطلقا ثم مات الاصیل قبل تمام السنۃ یحل الدین فی مالہ و ھو علی الکفیل الی اجلہ و کذا لو مات الکفیل دون الاصیل یحل الدین فی مال الکفیل و ھو علی الاصیل الی اجلہ “ترجمہ: اگراصیل پر  ایک سال کی مدت پر دَین  ادا کرنا طے ہو ، پھر دوسرے شخص نے ایک سال یا مطلقا ہی دین کی ادائیگی کی کفالت لے لی، پھر سال مکمل ہونے سے پہلے، اصیل کا انتقال ہو گیا ،تو دَین اصیل کے مال میں فوری واجب  الادا ہو گیا اور کفیل کے حق میں مدت باقی ہے۔ یونہی اگر کفیل فوت ہو گیا ، اصیل باقی ہے تو کفیل کے حق میں ادائیگی فورا لازم ہو گئی اور اصیل کے حق میں مقرر مدت باقی ہے ۔(بدائع الصنائع، جلد6، صفحہ3، دار الکتب العلمیہ)

   قرض خواہ اصیل کے انتقال پر مقررہ مدت پر ہی کفیل سے مطالبہ کا حق رکھتا ہے، اس سے پہلے نہیں،  جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:”ان مات الاصیل حل الدین فی حقہ و یبقی موجلا فی حق الکفیل حتی لو اختار المکفول لہ متابعۃ الکفیل دون ورثۃ الاصیل ینتظر حتی یحل الاجل کذا فی السراج الوھاج ترجمہ:اگر اصیل مر جائے، تو دین  اصیل کے حق میں معجل ہو گیا اور کفیل کے حق میں ادائیگی کی  مدت باقی رہے گی، یہاں تک کہ اگر مکفول لہ نے  اصیل کے ورثاءکی بجائے کفیل سے مطالبہ کرنے کو اختیار کیا،تو مکفول لہ انتظار کرے، یہاں تک کے مقرر ہ مدت آجائے، اسی طرح سراج الوھاج میں ہے۔ (فتاوی ھندیہ، جلد3، صفحہ279، دار الفکر)

   بہار شریعت میں ہے:”دَین میعادی تھا اس کی کفالت کی تھی، کفیل مر گیا، توکفیل کے حق میں میعاد باقی نہ رہی اور اصیل کے حق میں میعاد بدستور ہے ،یعنی مکفول لہ کفیل کے ورثہ سے ابھی مطالبہ کر سکتا ہے اور اس کے ورثہ نے دَین ادا کر دیا، تو اصیل سے اُس وقت واپس لینے کے حقدار ہوں گے جب میعاد پوری ہو جائے۔ یوہیں اگر اصیل مر گیا، تو اس کے حق میں میعاد ساقط ہوگئی کہ اس کے ترکہ سے مرنے کے بعد ہی وصول کر سکتا ہے اور کفیل کے حق میں میعاد بدستور باقی ہے کہ اندرون میعاد اس سے مطالبہ نہیں ہو سکتا۔(بھار شریعت، جلد2، حصہ12، صفحہ 862،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم