Paison Ko Kiraye Par Dene Ka Hukum

پیسوں کو کرایہ پر دینا

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2450

تاریخ اجراء: 28رجب ا لمرجب1445 ھ/09فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   2لاکھ رقم میرے پاس ہے ،میرا ایک رشتہ دار کہتاہے کہ مجھے یہ رقم دے دو اس کے بدلے میں ماہانہ مجھ سے 6200روپے کرایہ کے طورپرلیتے رہو،میں یہ رقم سود سمجھ کر نہیں لوں  گا ،برائے مہربانی آپ مجھے اس کا فتوی عطا  فرمادیں کہ یہ سود ہے یا نہیں تاکہ میں اپنے اس رشتہ دار کو مطمئن کر سکوں؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پیسوں کو کرائے پر دینا   جائز نہیں  ، کیونکہ کرائے  پر اس چیز کو دیا جاسکتا ہے جسے بعینہ باقی رکھ کر اس سے نفع حاصل کیا جائے، اور پیسہ  ایسی عددی چیز ہے،  جسے بعینہ باقی رکھ کر اس سے نفع نہیں اٹھایا جاتا، لہذاپیسوں  کو کرائے  پر دینا درست نہیں، اور اگر کوئی کرائے کے نام پر پیسے دے دے  تو وہ قرض ہی شمارہوگا  ، اور اس پر نفع لینا کھلا سود ناجائز و حرام ہوگا ، اور یہ رقم واپسی لیتے وقت بھی کسی قسم کی مشروط زیادتی ، اضافی رقم وغیرہ لینا   سود ہوگا   ،  سودی قرض کی قرآن و حدیث میں  کثرت کے ساتھ مذمت بیان کی گئی ہے ، اور اسے بدترین کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ۔

   سود کی  مذمت میں ارشادِ باری تعالی ہے   : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹)    ترجمہ کنزلایمان:  اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو ، پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا   اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ   نہ تمہیں نقصان ہو  ۔ ( القرآن الکریم ، پارہ 2، سورہ بقرہ ، آیت 275)

   اس ا ٓیت کریمہ  کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے  :” اس آیت میں سود کی حرمت اور سود خواروں کی شامت کا بیان ہے سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں بعض ان میں سے یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ معاوضہ مالیہ میں ایک مقدار مال کا بغیر بدل و عوض کے لینا ہے یہ صریح ناانصافی ہے دوم سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خوار کو بے محنت مال کا حاصل ہونا تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر  پہنچاتی ہے۔ سوم سود کے رواج سے باہمی مودت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہوتو وہ کسی کو قرض حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا چہار م سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خوار اپنے مدیون کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی ممانعت عین حکمت ہے مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود خوار اور اس کے کار پرداز اور سودی دستاویز کے کاتب اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(  تفسیر خزائن العرفان ، تحت سورہ بقرہ آیت 275، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی   )  

   صحیح مسلم میں ہے:’’ عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اٰکلَ الربا و موکلَہ و کاتبَہ و شاھدیہ ۔“یعنی  : سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔      ( الصحیح لمسلم ، کتاب البیوع ، باب الربا، جلد 2 ، صفحہ 27 ، مطبوعہ کراچی)

   امامِ  اہلسنت سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ سودی قرض کے متعلق فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں :”  اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تو   بے شک سود و حرام قطعی اور گناہ کبیرہ ہے ، ایسا قرض دینے والا ملعون ، اور لینے والا بھی اسی کی مثل ملعون ہے ۔“ ( فتاوی رضویہ ، جلد 17، صفحہ 278، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )

    امام   برہان الدین  ابوالحسن  علی بن ابوبکر المرغینانی رحمہ اللہ اجارے   کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں     :’’الاجارۃ عقد یرد علی المنافع بعوض۔“یعنی :کسی عوض کے ساتھ  منافع پر وارد ہونے والے عقد کو اجارہ کہتے ہیں۔    (الھدایۃ، جلد3،صفحہ295،مطبوعہ لاہور)

   عددی چیز عاریت کے نام سے دینا حقیقتا قرض دینا ہوتا ہے، اس حوالے سے ہدایہ میں ہے:’’وعاریۃ الدراھم والدنانیر والمعدود قرض، لان الاعارۃ تملیک المنافع، ولایمکن الانتفاع بھا الا باستھلاک عینھا، فاقتضی تملیک العین ضرورۃ ، وذلک بالھبۃ او القرض، والقرض ادناھما فیثبت۔‘‘یعنی :دراہم و دنانیر اور عددی چیزوں کو عاریت پر دینا قرض ہے،اس لیے کہ عاریت پر کسی چیز کو دینا منافع کا مالک کرنا ہوتا ہے، اور دراہم و دنانیر کو خرچ کیے بغیر ان سے انتفاع ممکن نہیں ہوتا، پس یہ ضروری طورپر تملیک عین کا تقاضہ کرتا ہے، اور تملیک عین ہبہ یا قرض کے ذریعہ ہوتا ہے، اور ہبہ و قرض میں سے قرض ادنی ہے، لہذا یہ ثابت ہوگا۔   (الھدایۃ، جلد3، صفحہ283،مطبوعہ لاہور)

   جو چیز بعینہ خرچ کی جائے اس کو کرایہ پر دینے کے ناجائز ہونے کے بارے میں صدر الشریعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہے:’’ جو اجارہ استہلاک عین پر ہوکہ مستاجر عین شے لے لے وہ اجارہ نا جائز ہے۔‘‘(بہارشریعت،جلد3، صفحہ153، مطبوعہ مکتبۃ  المدینۃ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم