Qarz Wapis Karne Par Is Ka Fisad Rate Muqarar Karna Kaisa?

قرض واپس کرنے پر اس کا کچھ فیصد ریٹ مقرر کرنا کیسا؟

مجیب:ابو الحسن ذاکر حسین عطّاری مدنی

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں عُلمائےدین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی کی جانب سے کم اور متوسط آمدنی والے افراد کو گھر فراہم کرنے کے لئے ایک ہاؤسنگ فنانس اسکیم کا آغاز کیا گیا ، جس میں مکان ، فلیٹ کی تعمیر اور خریداری کے لیے تقریباً پینتالیس لاکھ (4500000) تک کا قرضہ دیا جارہا ہےاور واپسی کی مدت بیس سال تک ہے اور اس قرضہ کا بارہ فیصد ریٹ مقرر کیا گیا ہے جو کہ قرضہ لینے والے کو اضافی ادا کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر کسی نے کمپنی سے دس لاکھ روپے لیے ہیں تو اسے ایک لاکھ بیس ہزار (120000) روپے اضافی دینے ہوں گے۔ اس اسکیم کے متعلق شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا ہم اس اسکیم کے تحت قرض لے سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں بیان کردہ اسکیم ، سودی اسکیم ہے کہ کمپنی کی جانب سے مقرر کردہ اضافی بارہ فیصد ، قرض پر مشروط نفع ہے اور بحکم حدیث قرض پر مشروط نفع ، سود ہے اور جس طرح سود لینا حرام ہے یونہی حاجتِ شرعیہ کے بغیر سود ، دینا اور سودی معاہدہ کرنا بھی حرام ہے لہٰذا اس اسکیم کے تحت قرض لینا جائز نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص واقعی محتاج ہو یعنی اس کی وہ حاجت ایسی ہو کہ جسے شریعت بھی حاجت تسلیم کرتی ہو ، اور سودی قرض کے بغیر اس کا حل ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اسے حاجت کے مطابق سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی۔

   رہائش کے لئے ایک ایسا مکان کہ جس میں سردی ، گرمی وغیرہ امور سے حفاظت ہوسکے انسانی حاجات میں سے ہے تو اگر کسی کے پاس رہائشی مکان نہیں ہے اور اس کے پاس دیگر اسباب و ذرائع بھی نہیں کہ جن سےرہائش کے قابل ضروری مکان خرید سکے اور کہیں سے سود کے بغیر قرض بھی نہ مل رہا ہو تو اس صورت میں اسے مجبوراً رہائشی مکان کے لئے سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی ، یونہی مکان موجود ہے مگر اس میں تعمیرات کی حاجت ہے مثلاً چھت نہیں ہے یا کھڑکی ، دروازے کہ جن سے سردی ، گرمی اور چوری وغیرہ سے حفاظت ہوسکے نہیں ہیں تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قرض لینے کی اجازت ہوگی لیکن اگر ضرورت کا مکان موجود ہے ، اور بڑے گھر کی خواہش ہے یا مکان میں رنگ و روغن ، اور ٹائل ماربل وغیرہ کا کام کروانا چاہتا ہے یا اپنے پاس زیور وغیرہ ایسے اسباب موجود ہیں کہ جن کے ذریعے حاجت پوری ہوسکتی ہے یا کہیں سے سود کے بغیر قرض مل رہا ہے تو ان تمام صورتوں میں سودی قرض لینا جائز نہیں ۔

    ضروری تنبیہ : حاجتِ شرعیہ کی پہچان ، عوام کے لئے کم علمی کی وجہ سے آسان نہیں ہے ، اس لئے عافیت اس میں ہے کہ اپنی عقل سے اس کا فیصلہ کرنے کے بجائے کسی معتمد سنی مفتی صاحب سے رابطہ کیا جائے اور انہیں اپنی مکمل صورت حال بیان کرکے حکم معلوم کیا جائے اور پھر ان کے بتائے ہوئے حکم پر عمل کیا جائے ، ورنہ گناہ میں پڑنے کا قوی امکان ہے کہ بہت سی حاجتیں کہ جنہیں عوام حاجت سمجھتی ہے ، حقیقت میں حاجت نہیں ہوتیں اور ان کے لئے سودی قرض لینا حرام ہوتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم