3 Masjidon Ke Ilawa Kisi Ki Taraf Safar Na Kiya Jaye Hadees Ki Wazahat

حدیث " تین مسجدوں کے علاوہ کسی  کی طرف سفر نہ کیا جائے"کی وضاحت

مجیب:مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-2858

تاریخ اجراء: 02محرم الحرام1446 ھ/09جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ثواب کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کرنا جائز ہے ،اس مفہوم والی حدیث کی وضاحت فرمائیں ،نیز  کیا اس حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر اولیاء کے مزارات پر زیارت کی نیت سے سفر کرنا  حرام ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سائل نے جس حدیث پاک کی طرف اشارہ کیا وہ حدیث صحاح ستہ اور اس کے علاوہ کئی کتب احادیث میں موجود ہے۔اس حدیث پاک میں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مطلقاً ہر طرح کے سفر سے منع نہیں فرمایا بلکہ ایک مخصوص قسم کے سفر سے منع کیا ہے اور اس مخصوص سفر سے مراد یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے ایک مسجد کو چھوڑ کر دوسری مسجد کی طرف فقط یہ سمجھ کرجانا کہ دوسری مسجد میں ثواب زیادہ ملے گا، یہ ممنوع ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ تین مساجد کے علاوہ بقیہ مساجد میں نمازوں کا ثواب فی نفسہ برابر ہے لہٰذا وہاں ثواب کی زیادتی کی نیت سے سفر کرنا محض لغو و فضول ہوگا۔حدیث کے اس معنی کی تائید مسند احمد والی روایت سے ہوتی ہے کہ اس میں اس چیز کو واضح طور پر  بیان کیا گیا ہے کہ سفر سے مراد دوسری مسجد کی طرف نماز پڑھنے کے لئے کیا جانے والا سفر ہے۔

   نیز حدیث پاک سے اگر مذکورہ بالا مخصوص سفر مراد نہ لیا جائے بلکہ مطلقاً ہر طرح کا سفر مراد لیاجائے توپھر سفرِ جہاد،سفرِ حج، سفر بغرض طلبِ علم دین، سفرِتجارت، سفر بغرض صلہ رحمی وغیرہ بھی ناجائز ہو جائیں حالانکہ ان امور کے لئے سفر کرنا نہ صرف جائز بلکہ کبھی واجب اور کبھی فرض بھی ہوتا ہے جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ہر مسلمان کو معلوم ہے۔اوراگر ان سب قسم کے سفروں کو ناجائز مان لیا جائے تو دین و دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائیگا۔

   جب عقلی و نقلی اعتبار سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہاں کسی مسجد کی طرف بغرض نماز کیا جانے والا سفر ہی مراد ہے تو پھر اس حدیث کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کی زیارت کے لئے سفر کرنے کو یا اولیاء و صالحین کے مزارات پر حاضری دینے کے لئے سفر کرنے کو ناجائز کہنا، سراسر جہالت و باطل ہے جیسا کہ محدثین کرام وشارحینِ حدیث نے اس بات کو بالکل واضح طور پربیان کیا ہے۔

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد: مسجدی ھذا ومسجد الحرام ومسجد الأقصی“ ترجمہ: کجاوے نہ باندھے جائیں (یعنی سفر نہ کیا جائے) مگرتین مساجد کی طرف، میری اس مسجد کی طرف، مسجد حرام کی طرف اور مسجد اقصی کی طرف۔(صحیح مسلم،کتاب الحج، باب لا تشد الرحال، جلد 2، صفحہ1014، دار احیاء التراث العربی)

   امام احمد بن حنبل (متوفی241ھ؁)رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا ینبغی للمطی ان تشد رحالہ الٰی مسجد تبتغی فیہ الصلٰوۃ غیر المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی ھذا“ ترجمہ: اونٹنی کوسزا وار نہیں کہ اس کے کجاوے کسی مسجد کی طرف بغرض نماز کسے جائیں سوائے مسجد حرام ومسجد اقصٰی اور میری اس مسجد کے۔(مسند احمد بن حنبل ، جلد18، صفحہ152، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

   ابو الفضل امام احمد بن علی المعروف بابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”قال بعض المحققین قولہ إلا إلی ثلاثۃ مساجد المستثنی منہ محذوف فإما أن یقدر عاما فیصیر لا تشد الرحال إلی مکان فی أی أمر کان إلا إلی الثلاثۃ أو أخص من ذلک لا سبیل إلی الأول لإفضاۂ إلی سد باب السفر للتجارۃ وصلۃ الرحم وطلب العلم وغیرھا فتعین الثانی والأولی أن یقدر ما ھو أکثر مناسبۃ وھو لا تشد الرحال إلی مسجد للصلاۃ فیہ إلا إلی الثلاثۃ فیبطل بذلک قول من منع شد الرحال إلی زیارۃ القبر الشریف وغیرہ من قبور الصالحین واللہ أعلم“ترجمہ: بعض محققین نے فرمایا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان إلا إلی ثلاثۃ مساجد  میں مستثنیٰ منہ محذوف ہے۔ یا تومقدر مستثنی منہ عام ہوگااور اس صورت میں معنی یہ بنے گا کہ تین جگہوں کے علاوہ کسی جگہ کی طرف کسی بھی غرض سے سفر نہ کیا جائے یا مستثنیٰ منہ کوئی خاص ہو گا۔ پہلی صورت اختیار کرنے کی طرف تو کوئی راہ ہی نہیں کہ اس سے تو تجارت، صلہ رحمی وطلب علم وغیرہ کے لئے سفر کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا لہٰذا دوسری صورت ہی معین ہے اور یہاں وہ مستثنی منہ مقدر نکالنا بہتر ہے کہ جس کی مناسبت زیادہ بنتی ہو اور وہ یہ ہے کہ کسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے کجاوے نہ کسے جائیں سوائے تین مساجد کے۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر مبارک اور دیگر صالحین کی قبور کی زیارت کے لئے کجاوے باندھنے (سفر کرنے) سے منع کرنے والے کا قول باطل ہے۔(فتح الباری لابن حجر، باب فضل الصلوۃ فی مسجدالخ، جلد3، صفحہ66، دار المعرفۃ،بیروت)

   امام ابو حامد محمد بن محمدغزالی (متوفی505ھ؁)رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ احیاء علوم الدین میں اور پھر ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ مرقاۃ شرح مشکوۃ ج 2، ص589، میں لکھتے ہیں: واللفظ للاول  ”وقد ذھب بعض العلماء إلی الاستدلال بھذا الحدیث فی المنع من الرحلۃ لزیارۃ المشاھد وقبور العلماء والصلحاء وما تبین لی أن الأمر کذلک بل الزیارۃ مأمور بھا قال صلی اللہ علیہ وسلم کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا ولا تقولوا ھجرا والحدیث إنما ورد فی المساجد ولیس فی معناھا المشاھد لأن المساجد بعد المساجد الثلاثۃ متماثلۃ ولا بلد إلا وفیہ مسجد فلا معنی للرحلۃ إلی مسجد آخر وأما المشاھد فلا تتساوی بل برکۃ زیارتھا علی قدر درجاتھم عند اللہ عز وجل نعم لو کان فی موضع لا مسجد فیہ فلہ أن یشد الرحال إلی موضع فیہ مسجد وینتقل إلیہ بالکلیۃ إن شاء ثم لیت شعری ھل یمنع ھذا القائل من شد الرحال إلی قبور الأنبیاء علیہم السلام مثل إبراھیم وموسی ویحیی وغیرھم علیھم السلام فالمنع من ذلک فی غایۃ الإحالۃ فإذا جوز ھذا فقبور الأولیاء والعلماء والصلحاء فی معناھا فلا یبعد أن یکون ذلک من أغراض الرحلۃ کما أن زیارۃ العلماء فی الحیاۃ من المقاصد“ ترجمہ: بعض علماء اس حدیث سے متبرک مقامات اور علماء و صالحین کی قبور کی زیارت کے لئے سفر کے ممنوع ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ میرے لئے واضح نہ ہو سکا کہ معاملہ اسی طرح ہے، بلکہ(ان مقامات کی) زیارت کاتو حکم دیا گیا ہے چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا پس اب تم ان کی زیارت کرو اور نامناسب گفتگو نہ کرو“اور سفر سے ممانعت والی حدیث وہ مساجد کے بارے میں ہے اور متبرک مقامات اس میں داخل نہیں ہیں کیونکہ تین مساجد کے علاوہ باقی مساجد ایک جیسی ہیں اور ہر شہر میں مسجد ضرور ہوتی ہے اس لئے دوسری مسجد کی طرف سفر کرنے کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا بہر حال متبرک مقامات آپس میں مساوی و ہم مثل نہیں بلکہ ان کی زیارت کی برکت ان کے اللہ عزوجل کے ہاں ثابت شدہ درجات کے مطابق ہوگی۔ہاں اگر کسی جگہ مسجد نہیں ہے تو اس کو کسی دوسری جگہ جہاں مسجد ہو وہاں جانے کا اختیار ہو گا اور اگر چاہے تو وہ وہیں مستقل طور پر منتقل ہوجائے۔ کاش میں جان لیتا کہ کیا یہ شخص انبیاء کرام علیھم السلام مثل ابراہیم، موسی و یحیی وغیرہم علیہم السلام کے مزارات و قبور کی طرف سفر کرنے سے منع کرے گا؟ اس کا ممنوع ہونا تو اعلی درجے کا محال ہے۔ پس جب یہ جائز ہے تو اولیاء، علماء اور صلحاء کی قبور بھی اسی حکم میں ہے۔ لہٰذا سفر کی اغراض میں سے اس کا ہونا کوئی بعید نہیں ہے جس طرح کہ علماء کی حیات میں ان کی زیارت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ (احیاء علوم الدین،کتاب اسرار الحج، الباب الاول، الفصل الاول، جلد1، صفحہ 244،دار المعرفۃ،بیروت)

                                                سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں ”رہی حدیث "لا تشد الرحا ل" آئمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ وہاں ان تینوں مسجدوں کے سوا اور مسجد کے لیے بالقصد سفر کرنے سے ممانعت ہے ورنہ زنہار الفاظِ حدیث طلبِ علم واصلاحِ مسلمین وجہادواعدا و نشرِ دین وتجارتِ حلال وملاقات ِصالحین وغیرہا مقاصد کے لیے سفر سے مانع نہیں۔“(فتاوی رضویہ، ج 10، ص 800، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

                                                مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”سواء ان مسجدوں کے کسی اور مسجد کی طرف اس لیے سفر کرکے جانا کہ وہاں نماز کا ثواب زیادہ ہے ممنوع ہے جیسے بعض لوگ جمعہ پڑھنے بدایوں سے دہلی جاتے تھے تاکہ وہاں کی جامع مسجد میں ثواب زیادہ ملے یہ غلط ہے ہر جگہ کی مسجدیں ثواب میں برابر ہیں۔“(مراۃ المناجیح، جلد1، صفحہ431، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   اس سب سے قطع نظر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے روضہ اطہرکی زیارت کرنے والے کے لئے خود شفاعت کی بشارت سنائی ہے، چنانچہ سنن دار قطنی، شعب الایمان( جلد6، صفحہ51) مجمع الزوائد(جلد4، صفحہ2) الترغیب و الترھیب( جلد2، صفحہ27)نوادر الاصول( جلد2، صفحہ67)میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ  وسلم نے ارشاد فرمایامن زار قبری وجبت لہ شفاعتی“ترجمہ: جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری  شفاعت واجب ہوگئی۔(سنن دار قطنی،کتاب الحج، باب المواقیت، جلد3، صفحہ334، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

   تو جس بات کی خود سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ  وسلم ترغیب دلائیں، اس کی نیت کر کے جانا کس طرح ناجائز ہو سکتا ہے؟

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم