40 Musalman Kisi Ke Haq Mein Dua Kare, To Kya Dua Qabool Hoti Hai?

چالیس مسلمان کسی کے حق میں دعا کریں تو کیا وہ قبول ہوتی ہے ؟

مجیب:ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

مصدق:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-2616

تاریخ اجراء:21ربیع الاول1444ھ/18اکتوبر  2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے سنا ہے کہ اگرچالیس مسلمان کسی کے حق میں دعا کریں تو اللہ دعا قبول فرماتا ہے ،کیا یہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! سوال میں مذکورمضمون ، حدیث سے ثابت ہے۔البتہ یہ ذہن میں رہے کہ یہاں مسلمانوں سے مراد متقی مسلمان ہیں ،فاسق وفاجر مراد نہیں ہیں ۔علماءنے اس فرمان مبارک میں چالیس کے عدد کو خاص کرنے کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ جہاں چالیس متقی مسلمان جمع ہوں،وہاں ایک اللہ کا ولی ضرور ہوتا ہے،جس کی وجہ سے اللہ تعالی دعا قبول فرماتا ہے۔نیز خود چالیس کے  عددمیں بھی ایک خاص تاثیررکھی گئی ہے، جس سے مقصود کے حصول میں آسانی ہوتی ہے۔

   صحیح مسلم اورسنن ابی داؤد میں ہے:”والنظم للاول: عن كريب مولى ابن عباس، عن عبد اللہ بن عباس، أنه مات ابن له بقديد  أو بعسفان  فقال: يا كريب، انظر ما اجتمع له من الناس، قال: فخرجت فاذا ناس قد اجتمعوا له، فأخبرته، فقال: تقول هم أربعون؟ قال: نعم، قال: أخرجوه، فانی سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، يقول: ما من رجل مسلم يموت، فيقوم على جنازته أربعون رجلا، لا يشركون بالله شيئا، الا شفعهم اللہ فيه “ ترجمہ:حضرت کریب رحمہ اللہ جو  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں،وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا ایک بیٹا ،قدید یا عسفان کے مقام پر انتقال کرگیا ۔انہوں نے مجھ سے فرمایا:کریب دیکھو کتنے لوگ جمع ہوگئے ہیں؟ حضرت کریب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں گیا تو وہاں کافی لوگ جمع تھے ۔میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبردی تو انہوں نے فرمایا:تمہارےخیال میں وہ چالیس ہوں گے ؟میں نے عرض کی:جی ہاں۔فرمایا اب میت کو لے چلیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے  سنا:جب کسی مسلمان کے انتقال کے بعد اس کے جنازے پرچالیس ایسے لوگ کھڑے ہوں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ،تو اللہ ان کی شفاعت کو قبول کرتا ہے۔(مسلم شریف ،جلد2،صفحہ655،دار احیاء التراث العربی)

   اس حدیث کے تحت مراۃ المناجیح میں فرمایا:”مرقاۃ میں ہےکہ جہاں چالیس مسلمان جمع ہوں ان میں کوئی ولی ضرور ہوتا ہے جس کی دعا قبول ہوتی ہے،اس کی برکت سے دوسروں کی بھی۔۔۔۔مسلمانوں سے مراد متقی مسلمان ہیں،ورنہ سینماؤں اور تماشہ گاہوں میں سینکڑوں فساق ہوتے ہیں۔“ (مراۃ المناجیح، جلد2،صفحہ478،مطبوعہ گجرات)

   اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”جماعت میں برکت ہےاوردعائے مجمع مسلمین اقرب بقبول،علماء فرماتے ہیں:جہاں چالیس مسلمان صالح جمع ہوتے ہیں، ان میں ایک ولی اللہ ضرورہوتا ہے۔حدیث میں ہے:”اذا شھدت أمۃ من الامم وھم أربعون فصاعدا،أجاز اللہ تعالٰی شھادتھم۔رواہ الطبرانی فی الکبیر “ یعنی جہاں کوئی جماعت حاضرہو اور وہ چالیس یا اس سے زیادہ ہوں،تو اللہ پاک ان کی گواہی قبول فرمائے گا۔اسے امام طبرانی نے معجم الکبیر میں ذکرکیا۔“تیسیر شرح جامع صغیر میں فرمایا:”قیل وحکمۃ الأربعین أنہ لم یجتمع ھذا العدد الا وفیھم ولی“ یعنی چالیس کے عدد کی حکمت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اتنی تعداد صالح مسلمانوں کی جب جمع ہوتی ہے ،تو ان میں ایک اللہ کا ولی ہوتا ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد24،صفحہ 184،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   چالیس کے عدد میں بھی ایک خاص تاثیر ہے۔چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اوپرمذکورمسلم شریف کی حدیث اوردیگرچند احادیث ذکرکرنے کے لیے  جو باب باندھا اس کے الفاظ یہ ہیں:” باب ما يستدل به على أن عدد الأربعين له تأثير فيما يقصد به الجماعة یعنی یہ باب اس استدلال کے بارے میں ہے کہ جہاں جماعت مقصود ہو، وہاں چالیس کے عدد میں تاثیر ہے ۔(السنن الکبری للامام البیھقی، جلد3،صفحہ256،مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم