Durood Pak Likhne Ki Fazilat Par Aik Hadees e Pak Ki Wazahat

درود پاک لکھنے کی فضیلت پر ایک حدیث پاک کی وضاحت

مجیب:محمدعرفان مدنی

مصدق:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Grw-686

تاریخ اجراء:11جمادی الآخری1444 ھ/04جنوری 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ درودپاک کے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ :’’جو شخص کسی کتاب میں میرا نام لکھتے وقت دُرود بھی لکھے،تو فرشتے اس وقت تک لکھنے والےکے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں،جب تک میرا نام اس کتاب میں رہےگا۔‘‘

   زیدکاکہناہے کہ یہ روایت موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہے ،تواس پررہنمائی فرمائیے کہ کیاواقعی یہ روایت گھڑی ہوئی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مذکورہ بالاروایت متعددطُرُق واَسانیدسے مروی ہے ۔اس وجہ سے اس کوموضوع قراردینے کی محدثین عظام علیہم الرحمۃ نےتردیدفرمائی ہے ۔اب اس کی سندپرکیاحکم لگے گا،تواس حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ :

   عظیم محدث،حضرت علامہ مولانا  ابوالحسن نورالدین علی بن سلطان محمد،المعروف ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ  (متوفی ھ1014)نے توامام طبرانی علیہ الرحمۃ کی سندکوسندحسن قراردیاہے ۔

   اور حضرت علامہ جلال الدین سیوطی ،علامہ عراقی،علامہ کنانی ، علامہ ابن امیرحاج  حنفی،علامہ خفاجی علیہم الرحمۃ وغیرہ  محدثین نے اس روایت کو صرف ضعیف قراردیاہے اورعلامہ خفاجی علیہ الرحمۃ نے ساتھ  میں یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ فضائل اعمال میں اس جیسی روایت پرعمل کیاجاتاہے ۔اسی طرح علامہ ابن امیرحاج علیہ الرحمۃ نے بھی فضائل میں واردہونے کی وجہ سے اس  کےقابل قبول  ہونے کاذکرفرمایاہے۔

   یہاں تک کہ عظیم محدث امام سفیان ثوری علیہ الرحمۃ نے محدثین کے فضائل میں فرمایاہے کہ اگرصرف یہی ایک فضیلت ہوتی، توان کے لیے کافی تھی کہ یہ حدیث لکھتے وقت جب نام اقدس کے ساتھ درودپاک لکھتے ہیں، توجب تک نام مبارک وہاں لکھارہے گا،توفرشتے ان کے لیے استغفارکرتے رہیں گے ۔

   شرف اصحاب الحدیث میں ہے:”أخبرنا محمد بن علي بن الفتح، قال: حدثنا عمر بن إبراهيم المقرئ، قال: حدثنا أبو بكر عمر بن أحمد بن أبي معمر الصفار، قال: حدثنا أبو جعفر محمد بن يحيى الحلواني، كذا كان في كتاب ابن الفتح، والصواب: أحمد بن يحيى، قال: سمعت أحمد بن يونس، يقول: سمعت سفيان الثوري، يقول: «لو لم يكن لصاحب الحديث فائدة إلا الصلاة على رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، فإنه يصلي عليه ما دام في الكتاب» (شرف اصحاب الحدیث،ص 36، دار إحياء السنة النبوية ، أنقرہ)

   اس روایت کی اسنادی حیثیت:

    شفا شریف میں ہے :’’(وقال علیہ الصلاۃ والسلام  من صلى علي في كتاب لم تزل الملائكة تستغفر اللہ له ما دام اسمي في ذلك الكتاب)‘‘

   ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ اپنی شرح شفامیں اس پرتحریرفرماتے ہیں:’’رواه الطبراني في الأوسط بسند حسن والخطيب في ’’شرف أصحاب الحديث‘‘ وأبو الشيخ في ’’الثواب ‘‘وغيرهم‘‘ ترجمہ:اس کوطبرانی نے ’’اوسط ‘‘میں سندحسن کے ساتھ روایت کیاہے اورخطیب نے ’’شرف اصحاب الحدیث ‘‘میں اورابوشیخ نے” الثواب‘‘ میں روایت کیاہے  اوران کے علاوہ محدثین نے بھی اسے روایت کیاہے ۔ (شرح الشفاء لعلی القاری علی ھامش نسیم الریاض،ج03،ص467،مطبوعہ ملتان)

    حضرت علامہ ابوالفضل زین الدین عبدالرحیم بن الحسین عراقی علیہ الرحمۃ(متوفی806ھ) اپنی کتاب’’ المغنی عن حمل  الاسفار فی الاسفار ، فی  تخریج مافی الاحیاء من الاخبار‘‘میں تحریرفرماتے ہیں :’’حديث «من صلى علي في كتاب لم تزل الملائكة تستغفر له ما دام اسمي في ذلك الكتاب»الطبراني في الأوسط وأبو الشيخ في الثواب والمستغفري في الدعوات من حديث أبي هريرة بسند ضعيف‘‘ترجمہ:اسے طبرانی نے اوسط میں اورابوشیخ نے ’’الثواب‘‘میں اور المستغفری  نے’’ الدعوات‘‘میں  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سندضعیف کے ساتھ روایت کیاہے ۔(المغنی عن حمل الاسفار،کتاب الاذکاروالدعوات،الباب الثانی،ص 265 ، 266 ، دار طبریہ،ریاض)

   التقریر والتحبیر علی  تحریرالکمال بن الہمام  میں  ابوعبداللہ شمس الدین محمدبن محمدبن محمدالمعروف ابن امیرحاج حنفی علیہ الرحمۃ(متوفی 879ھ) تحریرفرماتے ہیں :’’على أن الطبراني في الأوسط، وأبا الشيخ في الثواب وغيرهما رووا بسند فيه ضعف أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال «من صلى علي في كتاب لم تزل الملائكة يستغفرون له ما دام اسمي في ذلك الكتاب» ، وفي لفظ لبعضهم من كتب في كتابه صلى اللہ عليه وسلم  لم تزل الملائكة تستغفر له ما دام في كتابه، ومثل هذا مما يغتنم ولا يمنع منه الضعف المذكور لكونه من أحاديث الفضائل ولم يضعف بالوضع‘‘ ترجمہ:مزید یہ کہ طبرانی نے اوسط میں اور ابو شیخ نے ثواب میں اور ان کے علاوہ دوسرے محدثین نے اس روایت کو ایسی  سندسے ذکر کیا ہے جس میں کمزوری ہے کہ’’ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی کتاب میں مجھ پر درود بھیجا، تو جب تک اس کتاب میں میرا نام رہے گا، فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے‘‘ اور بعض محدثین نے یوں لکھا ہے کہ:’’ جس نے اپنی کتاب میں صلی اللہ علیہ وسلم ،لکھا تو جب تک  وہ اس کتاب میں رہے گا، فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔

    اور اس طرح کی جو روایت ہوتی ہے یہ غنیمت سمجھی جاتی ہے اور مذکورہ ضعف اس سے مانع نہیں ہے،کیونکہ یہ فضائل کی احادیث میں سے ہے اور وضع کی وجہ سے اسے ضعیف نہیں کہا گیا۔   (التقریر والتحبیر،ج01،ص17،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   تدریب الراوی میں علامہ  عبدالرحمٰن بن ابی بکر جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ(متوفی 911ھ) تحریرفرماتے ہیں :’’وقد أوردوا في ذلك حديث: «من صلى علي في كتاب لم تزل الملائكة تستغفر له ما دام اسمي في ذلك الكتاب» ، وهذا الحديث وإن كان ضعيفا فهو مما يحسن إيراده في هذا المعنى، ولا يلتفت إلى ذكر ابن الجوزي له في الموضوعات، فإن له طرقا تخرجه عن الوضع، وتقتضي أن له أصلا في الجملة، فأخرجه الطبراني من حديث أبي هريرة وأبو الشيخ الأصبهاني والديلمي من طريق أخرى عنه، وابن عدي من حديث أبي بكر الصديق، والأصبهاني في ترغيبه من حديث ابن عباس وأبو نعيم في’’ تاريخ أصبهان ‘‘ من حديث عائشة‘‘ترجمہ:علما نے اس کے متعلق یہ  حدیث ذکر کی کہ ’’جس نے کتاب میں مجھ پر درود بھیجا، تو جب تک میرا نام اس کتاب میں رہے گا، فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔‘‘یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اسے اس معنی میں ذکر کرنا اچھا ہے اور ابن جوزی نے جو اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کیا ،اس کی طرف توجہ نہیں  کی جائےگی، کیونکہ اس حدیث کے اور بھی طرق ہیں، جو اسے موضوع ہونے سے خارج کرتے اور تقاضا کرتے ہیں کہ فی الجملہ اس کی اصل ہے ۔پس امام طبرانی نے اس حدیث کو بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ذکر کیا اور ابو الشیخ اصبہانی اور دیلمی نے ایک دوسرے طریق سے انہیں سے اس کوذکر کیاہےاور ابن عدی نے بروایت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس روایت کو ذکر کیاہے  اور اصبہانی نے اپنی ترغیب میں بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اسے ذکر کیا ہے اور ابو نعیم نے تاریخ اصبہان میں بروایت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اسے ذکر کیاہے۔(تدریب الراوی،النوع الخامس والعشرون ،ص319،المکتبۃ العصریہ،بیروت)

   تخریج احادیث احیاء علوم الدین میں ہے:’’(قال صلی اللہ عليه وسلم  من صلّى عليّ في كتاب لم تزل الملائكة يستغفرون له ما دام اسمي في ذلك الكتاب)قال العراقي: رواه الطبراني في الأوسط وأبو الشيخ في الثواب والمستغفري في الدعوات من حديث أبي هريرة بسند ضعيف اهـ‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے کتاب میں مجھ پر درود  لکھا ،تو جب تک میرا نام اس کتاب میں رہے گا، فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔‘‘علامہ عراقی نے فرمایا:اس حدیث کو امام طبرانی نے’’الاوسط‘‘ میں اور ابو الشیخ نے ’’الثواب‘‘میں اور المستغفری نے ’’الدعوات‘‘میں بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سندِ ضعیف کے ساتھ روایت  کیا ہے۔ (تخریج احادیث احیاء علوم الدین،کتاب الاذکارو الدعوات، ج02،ص763،دارالعاصمۃ،الریاض)

   نسیم الریاض میں علامہ احمدشہاب الدین خفاجی علیہ الرحمۃ(متوفی1069ھ) اس روایت کے تحت فرماتے ہیں :’’وقال العراقی فی تخریج احادیث الاحیاء:رووہ بسندفیہ ضعف ‘‘ومثلہ یعمل بہ فی فضائل الاعمال‘‘ترجمہ:اورعلامہ عراقی علیہ الرحمۃ نے تخریج احادیث الاحیاء میں  فرمایا:محدثین نے اسے ایسی سندسے روایت کیاہے ،جس میں کمزوری ہے اوراس جیسی روایت  پرفضائل اعمال میں عمل کیا جاتا ہے ۔(نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض،ج03،ص490،مطبوعہ ملتان)

   موضوع قراردینے والوں کارد:

   اورمحدثین کرام نے اس کوموضوع کہنے والوں کاجواب بھی دیاہے ۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے کہ :

   جنہوں نے اس روایت کوموضوع قراردیاہے ،جیسے علامہ ابن جوزی علیہ الرحمۃ ہیں، توانہوں نے اس  روایت کی   سندمیں   موجود درج ذیل تین راویوں کوکذاب قراردے کراس روایت کوموضوع قراردیاہے:

    (1) اسحاق بن وھب العلاف(2) یزیدبن عیاض (3) بشربن عبیدالفارسی

    (1)اسحاق بن وھب العلاف کے متعلق فرمایاکہ یہ ثقہ راوی ہے ،بلکہ یہ توامام بخاری علیہ  الرحمۃ کے  استاذاوران کی صحیح بخاری کے رجال میں سے ہیں اورجنہوں نے ان کوکذاب قراردیاہے،ان کواشتباہ ہواہے کہ اصل میں اسحاق بن وھب الطھرمسی کومحدثین نے کذاب قراردیاہے،راوی کااوروالدکانام ایک ہے ،لیکن نسبت میں اختلاف ہے ،تونام ایک ہونے کی وجہ سے ایک راوی کی جرح دوسرے کے متعلق ذکرکردی گئی ۔’’الھدایۃ والارشاد معرفۃ اھل الثقۃ والسداد‘‘ میں احمدبن محمدبن حسین ابونصربخاری کلاباذی علیہ الرحمۃ(متوفی398ھ) تحریرفرماتے ہیں : ’’ إسحاق بن وهب العلاف الواسطي سمع عمر بن يونس اليمامي روى عنه البخاري في البيوع‘‘ترجمہ:اسحاق بن وھب علاف واسطی نے عمربن یونس  یمامی سے سماع کیاہے اوران سے امام بخاری نے کتاب البیوع میں روایت لی ہے ۔ (الھدایۃ والارشاد فی معرفۃ اھل الثقۃ والسداد،ج01،ص79،دارالمعرفہ ،بیروت)

   میزان الاعتدال میں ہے:’’ إسحاق بن وهب العلاف  فواسطي ثقة‘‘ ترجمہ:اسحاق بن وھب علاف واسطی ثقہ ہیں ۔ (میزان الاعتدال ،ج01،ص 359،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   (2)یزیدبن عیاض،ضعیف راوی ہے، لیکن اس کی متابعت محمدبن عبدالرحمن ثقفی نے کررکھی ہے ،جسے محمدبن  عبداللہ بن قارب ثقفی بھی کہاجاتاہے ۔ان کوعلامہ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکرفرمایاہے ۔اورامام بخاری علیہ الرحمۃ نے التاریخ الکبیرمیں ان کوذکرفرمایاہے، لیکن ان پرکوئی جرح نہیں فرمائی۔ اسی طرح امام ابن ابی حاتم نے کتاب الجرح والتعدیل میں ان کاذکرفرمایاہے، لیکن ان پرکوئی جرح نہیں فرمائی ۔

   التاریخ الکبیرللبخاری میں ہے:’’ محمد بن عبد الرحمن بن قارب، أبو العنبس، الثقفي، ويقال: محمد بن عبد اللہ بن قارب‘‘(التاریخ الکبیر،ج01،ص148،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   امام بخاری علیہ الرحمۃ نے ان پرکوئی تنقیدنہیں فرمائی۔

   الثقات لابن حبان میں ہے :’’ أبو العنبس اسمه محمد بن عبد الرحمن بن قارب الثقفي وقد قيل محمد بن عبد اللہ بن قارب يروي عن عبد اللہ بن عمرو روى عنه عبد الملك بن عمير وقد قيل أبو العبيدين‘‘(الثقات لابن حبان،ج05،ص372،حیدرآباد،دکن)

    (3)اوربشربن عبید۔ان کوعلامہ ابن حبان نے ثقات میں ذکرفرمایاہے۔(الثقات لابن حبان ،ج08،ص141،مطبوعہ حیدرآباد،دکن)

    اورعلامہ قاسم بن قطلوبغاحنفی(879ھ) علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ’’ الثقات  ممن لم یقع فی الکتب الستۃ‘‘میں  تحریرفرمایاہے ۔( الثقات  ممن لم یقع فی الکتب الستۃ،ج03،ص35،مطبوعہ یمن)

   اورپھریہ بھی ہے کہ ان کی متابعت عبداللہ بن محمدبن سنان نے کررکھی ہے ۔

   موضوع ہونے کی تردیدپرجزئیات:

   ’’اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘‘ میں علامہ  عبدالرحمن بن ابی بکر جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ(متوفی 911ھ) تحریرفرماتے ہیں:’’( الطبراني) في الأوسط حدثنا إسحاق بن وهب العلاف حدثنا بشر بن عبيد الفارسي حدثنا خازم بن بكر بن يزيد بن عياض عن الأعرج عن أبي هريرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صلى علي في كتاب لم تزل الملائكة تستغفر له ما دام اسمي في ذلك الكتاب، موضوع: إسحاق كذاب وكذا يزيد (قلت) معاذ الله إسحاق بن وهب العلاف ما هو بكذاب ولا ضعيف بل ثقة كما ذكره الذهبي في الميزان وإنما الكذاب إسحاق بن وهب الطهرمسي فالتبس على المؤلف ويزيد بن عياض روى له الترمذي وابن ماجه وهو ضعيف.وقد أورد الذهبي الحديث في ترجمة بشر بن عبيد وقال هذا بشر كذبه الأزدي وقال ابن عدي منكر الحديث عن الأئمة وقال في اللسان: ذكره ابن حبان في الثقات وقد توبع إسحاق ويزيد وبشر‘‘  ترجمہ:طبرانی نے ’’الاوسط‘‘میں روایت کیا کہ ہم سے اسحاق بن وہب العلاف نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہم سے بشر بن عبید الفارسی نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہم سے خازم بن بکر نے یزید بن عیاض کے حوالے سےبیان کیا،انہوں نے اعرج کے حوالے سے بیان کیا،وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے کتاب میں مجھ پر درود بھیجا،تو جب تک میرا نام اس کتاب میں رہے گا،فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے‘‘یہ حدیث موضوع ہے کہ اسحاق کذاب ہے ،یونہی یزید بھی کذاب ہے ۔(علامہ سیوطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:)میں کہتا ہوں : معاذ اللہ !اسحاق بن وہب العلاف کذاب و ضعیف نہیں ،بلکہ وہ تو ثقہ ہیں،جیسا کہ ذہبی نے میزان میں ان کے متعلق ذکر کیا،اور کذاب تو بس اسحاق بن وہب طہرمسی ہے ،پس مؤلف پر معاملہ مشتبہ ہو گیااور یزید بن عیاض سے امام ترمذی و ابن ماجہ  نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے اورامام ذہبی نے بشر بن عبید کے تعارف  میں ایک حدیث ذکر کی  اور فرمایا:اس بشر کی ازدی نے تکذیب کی ہے ،اور ابن عدی نے فرمایا:ائمہ سے منکر الحدیث ہے اور لسان میں فرمایا:ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیاہےاور اسحاق ،یزید اور بشر کی متابعت کی گئی ہے ۔( اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ،کتاب العلم،ج01،ص 185 ، 186 ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   ’’تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ  الموضوعۃ‘‘میں  علامہ نورالدین ،علی بن محمدبن علی بن عبدالرحمن ابن عراقی الکنانی علیہ الرحمۃ ( متوفی 963ھ) تحریرفرماتے ہیں،(33) [حديث] :’’من صلى علي في كتاب لم تزل الملائكة تستغفر له ما دام اسمي في ذاك الكتاب ’’ (طب) في الأوسط من حديث أبي هريرة وفيه إسحق بن وهب العلاف ويزيد بن عياض. (تعقب) بأنه التبس عليه اسحق بن وهب العلاف باسحق بن وهب الطهرمسي والكذاب هو الطهرمسي لا العلاف، فإنه ثقة ليس بكذاب ولا ضعيف ويزيد  ابن عياض أخرج له الترمذي وابن ماجه وهو ضعيف، والذهبي إنما أعلى الحديث ببشر ابن عبيد وقال: كذبه الأزدي. وقال ابن عدي: منكر الحديث، لكن قال الحافظ ابن حجر في اللسان: ذكره ابن حبان في الثقات، وقد تابع يزيد محمد بن عبد الرحمن الثقفي، أخرجه أبو الشيخ والديلمي، وتابع بشرا عبد اللہ بن محمد بن سنان، أخرجه النميري في الإعلام وابن سمعان فى تاريخه، وتابع إسحق محمد بن عبد اللہ بن حميد البصري، أخرجه الخطيب في شرف أصحاب الحديث، فالحديث ضعيف لا موضوع (قلت) وعلى تضعيفه اقتصر الحافظ العراقي الشافعي في تخريج الإحياء واللہ أعلم‘‘ ترجمہ:(حدیث) جس نے کتاب میں مجھ پر درود  لکھا، تو جب تک میرا نام اس کتاب میں رہے گا ،فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔‘‘طبرانی نے اوسط میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اسے روایت کیا۔اس کی سند میں اسحاق بن وہب العلاف اور یزید بن عیاض ہیں۔( تعاقب کیا گیا ہے) کہ مؤلف پر اسحاق بن وہب العلاف کامعاملہ اسحاق بن وہب طہرمسی  کی وجہ سے مشتبہ ہوگیا،اور کذاب طہرمسی ہے، نہ کہ علاف کہ وہ تو ثقہ ہیں ،کذاب و ضعیف نہیں ۔اور یزید ابن عیاض سے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور وہ ضعیف ہے اورذہبی نے صرف بشر ابن عبید کی وجہ سے اس  روایت کومعلل قراردیاہے اور فرمایا:ازدی نے اس کی تکذیب کی ہے اور ابن عدی نے فرمایا کہ یہ منکر الحدیث ہے ،لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی نے لسان میں فرمایا:ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ۔اوریزید کی متابعت محمد بن عبد الرحمن ثقفی نے کی ہے ،اس روایت کوابو الشیخ اور دیلمی نے ذکرکیاہے۔اور بشرکی متابعت عبد اللہ بن محمد بن سنان نے کی ہے ،اس روایت کونمیری نے الاعلام میں اور ابن سمعان نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا۔ اور اسحاق کی متابعت محمد بن عبد اللہ بن حمید البصری نے کی  ہے ،اس روایت کوخطیب نے شرف اصحاب الحدیث میں ذکر کیاہے۔پس حدیث ضیف ہے، موضوع نہیں ہے ۔میں کہتا ہوں:اس حدیث کو ضعیف  قرار دینے پر ہی حافظ عراقی شافعی نے الاحیاء کی تخریج میں اکتفاء کیا ہے۔اوراللہ تعالی زیادہ بہترجانتاہے ۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ  الموضوعۃ،کتاب العلم،الفصل الثانی ،ج01،ص260،261،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم