مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری
فتوی نمبر: WAT-1564
تاریخ اجراء: 16رمضان المبارک1444 ھ/07اپریل2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اللہ تعالیٰ نے
عام فرشتوں کو قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی قدرت نہیں
دی، البتہ بعض کو دی ہے، جیسے جبریل امین
علیہ الصلوۃ و السلام کہ وہ وحی لے کرآتے تھے اور حدیث
شریف میں یہ بھی آیاہے کہ حضور صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم ہرسال رمضان میں ان کے ساتھ
قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے
تھے۔
صحیح بخاری میں ہے” عن أبي هريرة، قال: كان يعرض
على النبي صلى الله عليه وسلم القرآن كل عام مرة، فعرض عليه مرتين في العام الذي
قبض فيه، وكان يعتكف كل عام عشرا، فاعتكف عشرين في العام الذي قبض فيه“ترجمہ:حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل
علیہ السلام ،حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ ہر سال ایک
مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ علیہ الصلاۃ
والسلام کا وصال ظاہری ہوا اس سال دو مرتبہ دور کیا ،اور آپ علیہ
الصلاۃ والسلام ہر سال دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور جس سال آپ
علیہ الصلاۃ والسلام کا وصالِ ظاہری ہوا اس سال آپ نے بیس
دن کا اعتکاف فرمایا۔(صحیح البخاری،کتاب فضائل القرآن،ج
6،ص 186،دار طوق النجاة)
بخاری شریف میں ہے” عن ابن عباس رضي الله عنهما،
قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير، وأجود ما يكون في شهر
رمضان، لأن جبريل كان يلقاه في كل ليلة في شهر رمضان، حتى ينسلخ يعرض عليه رسول
الله صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح
المرسلة“ترجمہ:حضرت
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم خیرات کرنے میں سب
سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت زیادہ
سخاوت فرمایا کرتے ،کیونکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان
المبارک کی ہر رات آخر ماہ تک آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی
بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے اور رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ قرآن کریم
کا دور فرمایا کرتے تھے ، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس
حاضر ہوتے تو آپ صدقہ و خیرات کرنے میں تیز چلنے والی ہوا
سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔
مذکورہ حدیث پاک کے
تحت علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی
852ھ)فتح الباری میں فرماتے ہیں:” قوله يعرض عليه رسول الله
صلى الله عليه وسلم القرآن هذا عكس ما وقع في الترجمة لأن فيها أن جبريل كان يعرض
على النبي صلى الله عليه وسلم وفي هذا أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعرض على
جبريل وتقدم في بدء الوحي بلفظ وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن
فيحمل على أن كلا منهما كان يعرض على الآخر“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی
عنھما کا قول کہ :"رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ
وسلم حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے"یہ
اس کے برعکس ہے جو ترجمۃ الباب میں ذکر ہوا کیونکہ وہاں یہ
ذکر ہے کہ:" حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام ،نبی کریم صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا
کرتے تھے"اور اس حدیث میں یہ ہے کہ :"نبی کریم
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ،حضرت جبرئیل علیہ
الصلوۃ و السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے "اور
کتاب الوحی کے شروع میں ان الفاظ کے ساتھ حدیث گزر چکی کہ
:"حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ و السلام رمضان المبارک کی
ہر رات آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوتے
اور قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ۔"تو ان روایت کا
محمل یہ ہوگا کہ:" حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور حضرت جبرئیل
علیہ الصلوۃ و السلام دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قرآن مجید
کا دور کیا کرتے تھے۔"(فتح الباری،ج 9،ص 43،44، دار المعرفة ،
بيروت)
ابو یحییٰ زکریا
بن محمد انصاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی
926ھ)اسنی المطالب فی شرح روض الطالب میں ذکر کرتے ہیں:” وقد ورد أن الملائكة لم
يعطوا فضيلة قراءة القرآن، وهي حريصة لذلك على استماعه من الإنس“ترجمہ:
روایت میں آیا ہے کہ (عام) فرشتوں کو تلاوت قرآن کی
فضیلت نہیں دی گئی ،اسی لئے وہ انسانوں سے قرآن
مجید سننے پر حریص ہوتے ہیں۔(اسنی المطالب
فی شرح روض الطالب ،ج 1،ص 67، دار الكتاب الإسلامي)
زین الدین علامہ عبد الرؤوف بن تاج
العارفین مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی
1031ھ) فیض القدیر میں فرماتے ہیں:” (إذا قام أحدكم يصلي من
الليل۔۔۔فليستك) أي يستعمل السواك (فإن أحدكم إذا قرأ في صلاته
وضع ملك فاه على فيه) يحتمل أن المراد به كاتب الحسنات ويحتمل غيره (فلا يخرج من
فيه) أي القارىء (شيء) من القرآن (إلا دخل فم الملك) لأن الملائكة لم يعطوا فضيلة
التلاوة كما في خبر آخر وأنهم حريصون على استماع القرآن من البشر“ترجمہ:جب
تم میں سے کوئی رات کو نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو مسواک کرلے کہ جب
تم میں سے کوئی اپنی نماز میں تلاوتِ قرآن کرتا ہے تو
فرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے ،اس میں یہ احتمال ہے
کہ اس فرشتے سے مراد نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہو اور یہ بھی
احتمال ہے کہ کوئی اور فرشتہ ہو،تو اس قرآن پڑھنے والے کے منہ سے جتنی
بھی قراءت نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں داخل ہوتی ہے کیونکہ(عام)
فرشتوں کو تلاوت قرآن کی فضیلت نہیں دی گئی ،جیسا کہ دوسری روایت میں آیا
ہے ،اس لئے انسان سے قرآن مجید سننے پر حریص ہوتے ہیں۔(فیض القدیر،ج
1،ص 412، المكتبة التجارية الكبرى ، مصر)
امام اہلسنت سیدی اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ:’’ فرشتوں کو قرآنِ عظیم کا بہت شوق ہے اور عام ملائکہ
کو تلاوت کی قدرت نہ دی گئی۔ جب مسلمان قرآن شریف
پڑھتا ہے،فرشتہ اس کے منہ پر منہ رکھ کر تلاوت کی لذت لیتا ہے۔
اس وقت اگر منہ میں کھانے کی کسی چیز کا لگاؤ ہوتا ہے،
فرشتہ کو ایذا ہوتی ہے۔ (احکامِ شریعت، صفحہ 134 تا 135، مطبوعہ ممتاز
اکیڈمی، لاہور، پاکستان)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟