Hazrat Ameer Muawia رضی اللہ تعالی عنہ Par Aitiraz Ka Jawab

حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پراعتراض کاجواب

مجیب: ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1277

تاریخ اجراء:       27ربیع الثانی 1444 ھ/23نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کچھ لوگ کہتےہیں کہ حضورعلیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کےلیےبددعاکی ہے،ایسا حدیث میں موجودہے۔کیایہ بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      جس  حدیث کولےکراعتراض کیاجاتاہے،وہ حدیث یہ ہے۔ " عن أبي حمزة القصاب، عن ابن عباس، قال: كنت ألعب مع الصبيان، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فتواريت خلف باب، قال فجاء فحطأني حطأة، وقال: «اذهب وادع لي معاوية» قال: فجئت فقلت: هو يأكل، قال: ثم قال لي: «اذهب فادع لي معاوية» قال: فجئت فقلت: هو يأكل، فقال: «لا أشبع الله بطنه»" ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نےفرمایا کہ: میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ، کہا : آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی ( مقصود پیار کا اظہار تھا ) اور فرمایا : جاؤ ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے آپ سے آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا : جاؤ ، معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے پھر آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ۔(صحیح مسلم،باب من لعنہ النبی علیہ الصلوۃ والسلام۔۔الخ، ج04،ص2010،حدیث نمبر:2604،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

اس کے جوابات:

      اس سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان پر کوئی اعتراض واقع نہیں ہوتا کہ :

      اولا :اہل عرب میں اس طرح کے کلمات رائج ہیں  مثلاً تیری ناک خاک آلود ہو، تیری ماں تجھ پر روئے  وغیرہ ذلک ان سے مقصود بد دعا نہیں بلکہ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

       ثانیا:بظاہر بددعا نظر آنے والے یہ کلمات حقیقت میں ان کے لئے دعا تھے  کہ احادیث طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی کہاللھم  انما انا بشر فای المسلمین لعنتہ او سببتہ فاجعلہ لہ زکوٰۃ  و اجراً ترجمہ :اے اللہ! میں ایک بشر ہوں، پس میں جس مسلمان پر لعنت کروں یا اسےبرا کہوں(اور وہ اس کا اہل نہ ہو ) تو تو اس کے لئے اسے طہارت اور اجر کا سبب بنادے ۔ (صحیح مسلم ، ج 2 ، ص323 ، مطبوعہ :قدیمی کتب خانہ کراچی )

      اسی طرح کی ایک حدیث پاک صحیح مسلم شریف سے مزیدملاحظہ کیجیے !

"حدثني أنس بن مالك، قال: كانت عند أم سليم يتيمة، وهي أم أنس، فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم اليتيمة، فقال: «آنت هيه؟ لقد كبرت، لا كبر سنك» فرجعت اليتيمة إلى أم سليم تبكي، فقالت أم سليم: ما لك؟ يا بنية قالت الجارية: دعا علي نبي الله صلى الله عليه وسلم، أن لا يكبر سني، فالآن لا يكبر سني أبدا، أو قالت قرني فخرجت أم سليم مستعجلة تلوث خمارها، حتى لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما لك يا أم سليم» فقالت: يا نبي الله أدعوت على يتيمتي قال: «وما ذاك؟ يا أم سليم» قالت: زعمت أنك دعوت أن لا يكبر سنها، ولا يكبر قرنها، قال فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: " يا أم سليم أما تعلمين أن شرطي على ربي، أني اشترطت على ربي فقلت: إنما أنا بشر، أرضى كما يرضى البشر، وأغضب كما يغضب البشر، فأيما أحد دعوت عليه، من أمتي، بدعوة ليس لها بأهل، أن يجعلها له طهورا وزكاة، وقربة يقربه بها منه يوم القيامة “ترجمہ:مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا جوام انس ہیں،ان کے پاس ایک یتیم لڑ کی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا تو تو وہی ہے تو بڑی ہو گئی ہے، تیری عمر بڑی نہ ہو ۔ وہ یتیم لڑکی  روتی ہوئی حضرت ام  سلیم کے پاس گئی ، حضرت ام سلیم نے پوچھا : اے بیٹی ! تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ  وسلم نے میرے لیے دعا ئےضرر کی ہے کہ :میری عمر زیادہ نہ ہو ، اب میری عمر ہر گز  زیادہ نہ ہوگی ، یا کہا اب میرا زمانہ  زیادہ نہیں ہو گا۔ حضرت ام سلیم جلدی سے دوپٹہ اوڑھتی ہوئی  نکلیں، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ  وسلم سے ملیں ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: اے ام سلیم !کیا  بات ہے ؟ حضرت ام سلیم نے عرض کیا : اے اللہ عزوجل کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام! کیا آپ نے میری یتیم  لڑکی کے خلاف دعائے  ضرر کی ہے ؟ آپ نے پوچھا: اس سوال کا کیا سبب ہے ؟حضرت ام سلیم نے عرض کیا: وہ کہتی ہے کہ آپ نے دعا کی ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہ ہو، یا فرمایا اس کا زمانہ   زیادہ نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی  علیہ وآلہ  وسلم ہنس پڑے۔ پھر آپ نے فرمایا: اے ام سلیم !کیاتم کو یہ علم نہیں ہے کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے یہ عہد لیا ہے کہ میں ایک  بشر ہوں، جس طرح بشر راضی ہوتے ہیں ، میں   بھی راضی ہوتا ہوں  اور جس طرح بشر غصہ ہوتے ہیں ،میں بھی غصہ ہوتا ہوں، میں اپنی امت میں سے جس غیر مستحق کے لیے دعائے ضرر کروں ، اس دعا کو اس کے لیے پاکیزگی ، رحمت اور ایسا قرب بنا دے جس کے ساتھ وہ قیامت کے دن اللہ عزوجل  کے قریب ہو۔(صحیح مسلم،باب من لعنہ النبی علیہ الصلوۃ والسلام۔۔الخ،ج04،ص2009،حدیث نمبر:2603،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

      اس واقعہ میں بھی آپ چونکہ بددعا کے اہل نہیں تھے تو یہ بددعا نہیں بلکہ آپ کے لئے دعا تھی جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ آپ پہلے نہایت غریب تھے مگر پھر اللہ عزوجل نے آپ کو مالدار کردیا حتی کہ آپ کے پاس سے حسنین کریمین کے لئے ہدایا یعنی تحائف جایا کرتے۔ لہٰذا اس حدیث سے آپ کی شان و عظمت ظاہر ہوتی ہے ، آپ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تفصیل بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب "امیرمعاویہ پرایک نظر"میں فرماتےہیں:"معترض نےاس حدیث کوسمجھنےمیں غلطی کی، کم ازکم یہ ہی سمجھ لیاہوتا،کہ جو اخلاق مجسم صلی اللہ علیہ وسلم،گالیاں دینے والوں، پتھر مارنےوالوں کوبھی،بددعانہیں دیتے،وہ محبوب رحمۃ اللہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ،اس موقع پرامیرمعاویہ کوبلاقصورکیوں بدعادیتے۔کھانادیرتک کھانانہ شرعی جرم ہے،نہ قانونی،پھرسیدناابن عباس نےامیرمعاویہ سےیہ کہابھی نہیں،کہ آپ کوسرکاربلارہے ہیں۔صرف دیکھ کرخاموش واپس آئے، اور حضور سےواقعہ عرض کردیا۔ پھرامیرمعاویہ کایہ قصورنہ خطا ، اور حضور یہ بددعادیں،یہ ناممکن ہے۔اتناغورکرلینےسےہی اعتراض کرنےکی جراءت نہ ہوئی۔اب اپنےاعتراض کاجواب سنو،محاورہ عرب میں اس قسم کے الفاظ پیارومحبت کے موقع پربولےجاتےہیں۔ان سےبدعامقصودنہیں ہوتی۔اور اگرمان بھی لیاجائے،کہ حضورنےامیرمعاویہ کو بدعادی، توبھی یہ بددعا،امیرمعاویہ کے لیےدعابن کرلگی۔اسی دعاکانتیجہ یہ ہوا،کہ اللہ تعالی نےامیرمعاویہ کواتنا،بھرا،اوراتنامال دیاکہ انہوں نےسینکڑوں کاپیٹ بھردیا۔ایک ایک شخص کوبات بات پرلاکھوں روپیہ انعام دئیے، کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےرب سےعہدلیاتھا،کہ مولی،اگرمیں کسی مسلمان کو بلاوجہ لعنت یابددعاکردوں، تواسےرحمت، اجراورپاکی کاذریعہ بنادینا۔ "(ملخصا،امیرمعاویہ پرایک نظر،ص79تا80،مطبوعہ قادری پبلیشرز)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم