مجیب:مولانا فرحان احمد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1601
تاریخ اجراء:08رمضان المبارک1445 ھ/19مارچ2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میں نے کسی
روایت میں پڑھا تھا کہ قیامت سے چالیس سال پہلے ولادت بند
ہو جائے گی۔ اگر یہ بات درست ہے، تو پھر اس آیت :” یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ
عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا “کا کیا مطلب ہوگا جس میں
حمل والی کے حمل ساقط ہونے کا بیان ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مذکورہ آیت سے یا توقیامت
کا دن مراد ہے یاپھر قیامت سے پہلے مغرب سے سورج نکلنے کا وقت ۔
اگر قیامت کادن مرادلیاجائے ،تو اس سے مرادیہ ہے کہ قیامت ایسی دہشت والی
شے ہے کہ اگر اس وقت کوئی حاملہ عورت ہوتی،تو قیامت کی
دہشت کی وجہ سے حمل ساقط کردیتی،اور اگر کوئی دودھ پلانے
والی عورت ہوتی، تو اس کی دہشت کے باعث اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجاتی۔ اوراگر اس سے
مرادقیامت سے پہلے والازلزلہ مرادہو،توکسی قسم کی تاویل کی
حاجت نہیں۔
اس آیت کی
تفسیر بیان کرتے ہوئے مفسر شہیر،حکیم الامت،حضرت علامہ
مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ فرماتے ہیں: ’’یعنی
قیامت کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ اگر اس وقت حاملہ یا
مرضعہ عورتیں ہوتیں، تو ان کے حمل گر جاتے،اوربچوں کو بھول جاتیں
ورنہ اس دن نہ کسی کو حمل ہوگا نہ کوئی بچہ شیر
خوارہوگا۔کیونکہ قیامت سے چالیس سال پہلے ولادت بند ہوچکی
ہوگی۔اگر قیامت سے پہلے مغرب سے آفتاب نکلنے کے وقت کا
زلزلہ مراد ہےتو کسی تاویل کی ضرورت نہیں۔“(نورالعرفان،صفحہ529،مطبوعہ پیر
بھائی کمپنی لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟