مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-1138
تاریخ اجراء:09ربیع الاول1444ھ/06اکتوبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
یہ جو مشہور ہے کہ جس طرح کی
عوام ہوگی اس کے اوپر اسی طرح کا حکمران مسلط
کیا جائے گا اس کا کوئی
حوالہ ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آپ نےجو بات پوچھی ہے ،اس طرح
کی بات درج ذیل حدیث مبارکہ
اور اس کی تشریح میں، کچھ ان الفاط سے ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے :’’وعن أبي
الدرداء قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله تعالى يقول :
أنا الله لا إله إلا أنا مالك الملوك وملك الملوك، قلوب الملوك في يدي، وإن العباد
إذا أطاعوني حولت قلوب ملوكهم عليهم بالرحمة والرأفة، وإن العباد إذا عصوني حولت
قلوبهم بالسخطة والنقمة، فساموهم سوء العذاب فلا تشغلوا أنفسكم بالدعاء على
الملوك، ولكن اشغلوا أنفسكم بالذكر والتضرع كي أكفيكم ملوككم‘‘۔ ترجمہ: حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد
فرماتا ہے :’’میں اللہ ہوں ،میرے
سوا کوئی معبود نہیں ، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا
بادشاہ ہوں ، باد شاہوں کے دل میرے دستِ قدرت میں ہیں ، جب لوگ
میری اطاعت کریں تو میں ان کے بادشاہوں کے دلوں کو رحمت اور نرمی کرنے کی
طرف پھیر دیتا ہوں اور جب لوگ میری نافرمانی کریں
تو میں اُن کے بادشاہوں کے دلوں کو
سختی اور سزا کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ لوگوں کو سخت ایذائیں
دیتے ہیں ، تو تم اپنے آپ کو بادشاہوں کو بدعا دینے میں
مشغول نہ کرو بلکہ ذکر اور عاجزی میں مصروف رہو تاکہ تمہارے بادشاہوں
کی طرف سے میں کافی ہو جاؤں۔‘‘(مشکاۃ المصابیح
،کتاب الامارۃ والقضاء،الفصل الثالث،حدیث :3721،ج02،ص1097،المکتب
الاسلامی،بیروت)
اس حدیث ِ مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی
علیہ الرحمہ مراۃ المناجیح میں فرماتے ہیں : مطلب یہ
ہے کہ میں بادشاہوں کے ظاہر و باطن کا بادشاہ اور مالک ہوں ، ان کے دل و
زبان و قلم سب میرے قبضہ میں ہیں ، اگر عام لوگ اور اکثر رعایا
میری مطیع (فرمانبردار) ہوجائے تو میں بادشاہوں کے دل میں
رحمت و الفت پیدا کردوں گا خیال رہے کہ رافۃ رحمت سے قوی ہوتی ہے مہربانی
کو رحمت کہتے ہیں اور بہت ہی زیادہ مہربانی کورافۃ ، رب تعالیٰ فرماتا ہے :(بِالْمُؤْمِنِیْنَ
رَؤُ وْفٌ رَّحِیْم ۔) معلوم ہوا کہ بادشاہوں کی
سختی ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اور ظالم بادشاہوں کی معزولی
یا موت کی دعائیں نہ کرو ممکن ہے اس ظالم کے بعد کوئی اور
بڑا ظالم تر تم پرمسلط ہوجائے۔ وجہِ
ظلم کو دور کرو یعنی گناہوں سے توبہ کرو، تم میری اطاعت
کرنے لگو کام تم پر نرم ہوجائیں گے۔ (
ملتقطاً ازمراٰۃ المناجیح
،جلد 5،صفحہ 389،390 ،قادری پبلشرز،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟