Sajda Tilawat Wajib Hone Ki Kya Hikmat Hai?

سجدہ تلاوت واجب ہونے کی کیا حکمت ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13178

تاریخ اجراء:28جمادی الاولیٰ1445ھ/13دسمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ آیاتِ سجدہ پر سجدہ تلاوت کرنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کی حکمت کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان پر لازم ہے کہ اللہ عزوجل کے ہرحکم کو دل و جان سے قبول کرے، کیونکہ اسلام کا معنی ہی سر تسلیم خم کرنا  اور بتائے گئے احکام پر عمل کرنا ہے۔نیز اللہ عزوجل کے احکام  میں ہزار ہا حکمتیں ہیں، ہر حکم  کی حکمت کوہم اپنی  ناقص عقل و  علم کے ذریعے سمجھ جائیں ، یہ  ضروری نہیں ،لہٰذا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے ،بہر حال اللہ عزوجل کے ہر حکم کو دل و جان سے قبول کرنے میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

   البتہ جہاں تک آیاتِ سجدہ پر سجدہ تلاوت واجب ہونے کی بات ہے تو علمائے کرام نےاس کی چند حکمتیں بیان فرمائی ہیں:

   پہلی حکمت: بعض آیاتِ سجدہ میں صراحتاً سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا اس حکم کی تعمیل میں اُن آیات پر  سجدہ تلاوت کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ النجم کی سب سے آخری آیتِ مبارکہ : ﴿فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا۠(۶۲)ترجمہ کنز الایمان: ”تو اللہ کے لیے سجدہ اور اس کی بندگی کرو۔ “ (القرآن الکریم،پارہ27،سورۃ النجم،آیت:62)

   دوسری  حکمت: آیاتِ سجدہ کے  بعض مقامات پر کفار کے سجدے سے اعراض اور  روگردانی کو بیان کیا گیا ہے جبکہ کفار کی مخالفت کرنا ہم پر لازم ہے،  اسی وجہ سے اُن آیات پر  سجدہ تلاوت کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الفرقان میں ہے: ﴿اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ ۗ-اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا۠(۶۰)ترجمہ کنز الایمان: ” اور جب اُن سے کہا جائے رحمٰن کو سجدہ کرو۔  کہتے ہیں رحمٰن کیا ہے؟  کیا ہم سجدہ کرلیں جسے تم کہو اور اس حکم نے انہیں اور بدکنا بڑھایا۔“(القرآن الکریم،پارہ19،سورۃ الفرقان،آیت:60)

    تیسری حکمت:  آیاتِ سجدہ کے  بعض مقامات پر انبیائے کرام علیہم السلام، فرشتوں اور نیک اور  مقرب بندوں کے سجدہ کرنے کو بیان کیا گیا ہے جبکہ ان پاکیزہ ہستیوں کی اقتداء کرنا ہم پر لازم ہے، اسی وجہ سے اُن آیات پر  سجدہ تلاوت کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ ص میں ہے: ﴿وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَ خَرَّ رَاكِعًا وَّ اَنَابَ (۲۴)ترجمہ کنز الایمان: ”اب داود سمجھا کہ ہم نے یہ اس کی جانچ کی تھی تو اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑا ۔“ (القرآن الکریم،پارہ23،سورۃ ص،آیت:24)

   تفصیلی جزئیات درج ذیل ہیں:

   احکامِ الہی عزوجل کی حکمتیں جاننے سے متعلق ایک مسلمان کیسا طرزِ عمل اختیار کرے؟  اس سے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” احکامِ الہی میں چون و چرا نہیں کرتے ، الاسلام گردن نہادن نہ زبان بجرأت کشادن (اسلام ، سر تسلیم خم کرنا ہے ، نہ کہ دلیری کے ساتھ لب کشائی  کرنا ) بہت احکام الہیہ تعبدی  ہوتے ہیں اور جو معقول المعنی ہیں ، ان کی حکمتیں بھی من و تو کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔۔۔۔غرض ایسے بیہودہ سوالوں کا دروازہ کھولنا علوم و برکات کا دروازہ بند کرنا ہے ، مسلمان کی شان یہ ہے: ﴿سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الْمَصِیۡرُترجمہ کنز الایمان:ہم نے سنا اور مانا ،تیری معافی ہو، اے رب ہمارے ! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔(فتاوٰی رضویہ، ج 13، ص 297، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور، ملتقطاً)

   آیاتِ سجدہ پر سجدہ تلاوت واجب ہونے کی حکمت سے متعلق تفسیر روح المعانی  میں ہے:وقد جاء الأمر بالسجدة لآیة أمر فیہا بالسجود امتثالاً للأمر، أو حکیٰ فیہا استنکاف الکفرة عنہ مخالفة لہم، أو حکی فیہا سجود نحو الأنبیاء علیہم الصلاة والسلام تأسیاً بہم۔یعنی جن آیات پر سجدہ کرنے کا حکم آیا ہے تو ان میں سے بعض آیات وہ ہیں  جن میں صراحتاً سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس حکم کی پیروی کرتے ہوئے ان آیات پر سجدہ تلاوت کیا جاتا ہے، یا بعض آیات میں کافروں کے سجدے سے روگردانی کا ذکر ہے تو ان کفار کی مخالفت میں سجدہ کیا جاتا ہے ، یا  بعض آیات میں انبیائے  کرام علیہم السلام کے سجدوں کی حکایت کی گئی ہے تو ان ہستیوں کی پیروی میں  سجدہ تلاوت کیا جاتا ہے۔(تفسیر روح المعاني، ج 5، ص 144، دار الکتب العلمیہ)

   بدائع الصنائع میں ہے:لأن مواضع السجود في القرآن منقسمة منها ما هو أمر بالسجود وإلزام للوجوب كما في آخر سورة القلم، ومنها ما هو إخبار عن استكبار الكفرة عن السجود فيجب علينا مخالفتهم بتحصيله، ومنها ما هو إخبار عن خشوع المطيعين فيجب علينا متابعتهم لقوله تعالى }فبهداهم اقتده]{ الأنعام: 90]ترجمہ: ”کیونکہ قرآن میں موجود مواضع سجود تقسیم شدہ ہیں، ان میں سے بعض مقامات وہ ہیں  جہاں سجدہ کرنے  کا حکم دے کر اسے لازم کیا گیا ہے جیسا کہ سورۃ القلم کی آخری آیت، اور بعض مقامات وہ ہیں جہاں کفار کے سجدہ کرنے سے اعراض کرنے کو بیان کیا گیا ہے تو ہم پر سجدہ کرکے ان کی مخالفت کرنا لازم ہے، اور بعض مقامات وہ ہیں جہاں نیک فرمانبردار بندوں کے خشوع کو بیان کیا گیا ہے تو ہم پر اللہ عزوجل کے اس فرمان کے سبب }فبهداهم اقتده]{ الأنعام: 90] (یعنی تو تم انہیں کی راہ چلو)اُن ہستیوں کی اقتداء لازم ہے۔“(بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃج 01، ص 180 ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

   مراقی الفلاح میں ہے:وھو ای سجودالتلاوة واجب لانہ اما امر صریح بہ او تضمن استنکاف الکفار عنہ او امتثال الانبیاء وکل منہاواجب۔“یعنی تلاوت کے سجدے واجب ہیں یا تو اس بنا پر کہ وہاں صراحتاً سجدے کا حکم موجود ہے یا وہ آیت کفار کےاعراض کو متضمن ہے یا وہاں سجدہ کرنے میں  انبیائےکرام علیہم السلام کی پیروی ہے، اور ان میں سے ہر چیز لازم ہے۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی ، ص 489 ،دار الکتب العلمیۃ )

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:لان آیات السجود علی ثلثۃ اقسام قسم فیہ الامرالصریح ، وقسم تضمن فیہ استنکاف الکفرة حیث امروا بہ ، وقسم فیہ حکایۃ امتثال الانبیاء بہ وکل من الامتثال والاقتداء ومخالفۃ الکفرة واجب الا ان یدل دلیل علی عدم لزومہ لکن دلالتہافیہ ظنیۃ فکان الثابت الوجوب لاالفرض ۔“یعنی آیات سجود تین قسم پرہیں ، وہ آیات جن میں سجدہ کاصریح حکم ہے ، اور وہ آیات جو اعراض کفار کو متضمن ہےجب کہ انہیں حکم دیاگیا اور وہ آیات جن میں انبیائےکرام علیہم السلام کےنقش قدم پرچلناہے ، اور امتثال و اقتدا و مخالفت کفار تینوں واجب ہیں مگرجبکہ عدم لزوم پرکوئی دلیل موجودہو ، اوریہاں لزوم پر دلیل چونکہ ظنی ہے لہذا یہاں سجدہ کرنا واجب ہے فرض نہیں ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص 489، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم