Qawaid e Moseeqi Par Quran Pak Ki Tilawat Seekhna

قواعد موسیقی پر قرآن پاک کی تلاوت سیکھنا

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

فتوی نمبر: WAT-1491

تاریخ اجراء: 21شعبان المعظم1444 ھ/14مارچ2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    قرآن کریم کی تلاوت اچھے انداز  میں سیکھنے کے لئے فن سرو قواعد موسیقی کا سہارا لیا جانے لگا  ہے ، اس بارے میں کیا حکم شرع ہے، کیا قرآن کی تلاوت اوزان موسیقی پر کر سکتے ہیں ؟ اور ایسی تلاوت سن کر داد دینا کیسا؟ نیز ہم جیسے بھی خوش الحانی سے تلاوت کریں وہ کسی نا کسی سر ووزن سے تو ضرور ٹکرائے گی اس کاکیا حکم ہے ؟نیز قرآن کو اپنی آواز سے زینت دینے کا حکم ہے وہ کیسے ہوگا اس کی کسی حد تک اجازت ہوگی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن عظیم کی تلاوت بالقصد قواعد موسیقی پر کرناکہ قاعدے و وزن کی رعایت میں بے جگہ مدیا حرکت یا غنہ  یا کوئی حرف وغیرہا بڑھانا، یا  گھٹانا، غرض کسی طرح بھی ہیئت نظم قرآنی کو بدلنا  ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام  ہے، اور ایسی تلاوت سن کر  اس کی تحسین کرنا ، دادا دینا ، سبحان اللہ ، ماشاء اللہ وغیرہ کہنا اور زیادہ سخت حرام ہے ۔

   البتہ! کسی کی قرائت اگر  بلا قصد اوزان موسیقی  میں سے کسی وزن کے موافق نکلے تو اصلاحرج والزام نہیں ۔

   رہا قرآن عظیم کو  آواز سے زینت دینا اور خوش الحانی سے پڑھنا جس میں لہجہ خوشنما دلکش پسندیدہ، دل آویز، غافل دلوں پر اثر ڈالنے والا ہو، اوراس کے علاوہ کوئی اور خرابی بھی نہ ہو  ، غرض  طرز ادا میں تبدیل وتحریف  کی کوئی صورت پیدا   نہ ہوتی ہو  تو ایسی خوش الحانی بیشک جائز ومرغوب بلکہ شرعا محبوب ومندوب بلکہ  شدید تاکید کے ساتھ مطلوب ، زمانہ صحابہ وتابعین وائمہ دین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے آج تک اس کے جواز واستحسان پر اجماع علماء ہے۔

   اما م اہل سنت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اس مسئلہ کی  تحقیق فرماتے ہوئے فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :" قرآن عظیم خوش الحانی سے پڑھنا جس میں لہجہ خوشنما دلکش پسندیدہ، دل آویز، غافل دلوں پر اثر ڈالنے والا ہو، اور معاذاللہ رعایت اوزان موسیقی کے لئے ہیئت نظم قرآنی کو بدلا نہ جائے، ممدود کا مقصور، مقصور کا ممدود نہ بنایا جائے ، حروف مد کو کثیر فاحش کشش جسے اصطلاح موسیقیان میں تان کہتے ہیں نہ دی جائے زمزمہ پیدا کرنے کے لئے بے محل غنہ ونون نہ بڑھا جائے ،غرض طرز ادا میں تبدیل وتحریف راہ نہ پائے بیشک جائز ومرغوب بلکہ شرعا محبوب ومندوب بلکہ بتاکید اکید مطلوب اعلٰی درجہ کی زمانہ صحابہ وتابعین وائمہ دین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے آج تک اس کے جواز واستحسان پر اجماع علماء ہے۔صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : مااذن ﷲ لشیئ مااذن لنبی حسن الصوت یتغنی بالقراٰن یجھربہ، رواہ الائمۃ احمد والبخاری ومسلم وابوداؤد والنسائی وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ۔اللہ تبارک وتعالٰی کس چیز کو ایسی توجہ ورضا کے ساتھ نہیں سنتا جیسا کسی خوش آواز نبی کے پڑھنے کو جو خوش الحانی سے کلام الٰہی کی تلاوت بآواز کرتاہے۔ (ائمہ کرام مثلا امام احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے  اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   پھر اس کے ساتھ اگر اس کی قراءت بلا قصد اوزان موسیقی سے کسی وزن کے موافق نکلے تو اصلاحرج والزام نہیں حتی کہ نماز میں بھی ایسی تلاوت جائز وحسن ومستحسن ہے۔

   علامہ خیر الملۃ والدین رملی ستاذ صاحب درمختار کے فتاوٰی خیریہ لنفع البریۃ میں ہے :"سئل فی امام یقرأ فی الجھریات بصوت حسن علی القواعد المقررۃ عند اھل العلم بحیث لا یخل بحکم من احکام القراء ۃ لکن یصادف ان یخرج قراء تہ علی طبق نغم من الانغام المقررۃ فی الموسیقی من غیر لحن وتطریب ھل یجوز ذٰلک؟ واذا قلتم بالجواز ھل یکرہ ام لا؟اجاب: نعم یجوز ذٰلک ولا یکرہ، اذتحسین الصوت بالقرأۃ مطلوب کما صرح بہ المحقق ابن الھمام فی فتح القدیر وقال فی البحر نقلا عن الخلاصۃ وتحسین الصوت لا باس بہ من غیر تغن وفی التبیان فی آداب حملۃ القراٰن اجمع العلماء رضی ﷲ تعالٰی عنہم من السلف والخلف من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم من علماء الامصار، ائمۃ المسلمین علی استحسان تحسین الصوت بالقراٰن واقوالھم وافعالھم مشہورۃ نھایۃ الشھرۃ فنحن مستغنون عن نقل شیئ من افرادھا دلائل ھذا من حدیث رسول ﷲ صلی ا  للہ تعالٰی علیہ وسلم مستفیضۃ عندا لخاصۃ والعامۃ کحدیث زینوا القراٰن باصواتکم وحدیث ابوموسٰی الاشعری رضی ﷲ تعالٰی عنہ ان رسول ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال لہ لقد اوتیت مزمارامن مزامیر داؤد راوہ البخاری ومسلم وفی روایۃ المسلم ان رسولﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال لہ لورأیتنی وانا اسمع لقرأتک البارحۃ رواہ مسلم ایضا من روایۃ بریدۃ بن الحصیب ۔۔۔وحدیث ابی امامۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ ان النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال من لم یتغن بالقراٰن فلیس منا رواہ ابوداؤد باسناد جید قال جمھور العلماء معنی لم یتغن لم یحسن صوتہ  الخ۔(اس امام کے متعلق پوچھا گیا جو جہری نمازوں میں اچھی آواز کے ساتھ اہل علم کے ہاں ثابت شدہ قواعد کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت کرتاہے اور ایسا طریقہ اپناتا ہے کہ قرأت کے کسی حکم میں خلل پیدا نہیں ہوتا لیکن اس کے باجود وہ اس  خوف کے پیش نظر کتراتا اور اعرض کرتاہے کہ کہیں اس کی قرأت موسیقی کے نغموں یا گانے کی سروں سے مشابہ نہ ہو، کیا اس کا ایسا پڑھنا جائز ہے ؟اور بصورت جواز کیا یہ مکروہ بھی نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں یہ جائز ہے اور مکروہ بھی نہیں کیونکہ خوبصورت آواز میں قرآن مجید پڑھنا شرعا مطلوب ہے جیسا کہ محقق ابن الہمام نے فتح القدیر میں  اس کی تصریح فرمائی۔ بحرالرائق میں خلاصہ سے نقل کیا گیا کہ خوبصورت آوازبنانے میں کوئی حرج نہیں جبکہ بغیر گانے کے ہو۔ اور"التبیان فی آداب حملۃ القرآن'' میں ہے :سلف، خلف، صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد شہروں میں  جتنے علماء کرام اور مسلمانوں کے امام ہوئے ہیں، ان سب کا اچھی اور خوبصور ت آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کے مستحسن ہونے پر اتفاق ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کے اقوال وافعال بہت مشہور ہیں ،پس ہم ان کے کسی حصہ کو نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کے دلائل حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث سے عام اور خاص سب لوگوں میں مشہور ہیں جیسا کہ حدیث" زینوا القراٰن باصواتکم "یعنی اپنی آوازوں سے قرآن مجید کو زینت بخشو (مراد یہ کہ خوبصورت لہجے کے ساتھ قرآن مجید پرھو) اور حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ  والی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ :تجھے حضرت داود علیہ الصلٰوۃ والسلام جیسی خوش الحانی عطا ہوئی ہے۔ اس کو امام بخاری اورامام مسلم  نے روایت کیا ہے اور مسلم شریف کی ایک  روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے  ان سے ارشاد فرمایا :کاش تو مجھے دیکھتا جب میں گزشتہ رات تیری قرأت سن رہا تھا۔ نیز امام مسلم نے اس کو حضرت بریدہ بن حصیب سے بھی روایت کیا ہے۔اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو کوئی خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید نہ پڑھے وہ ہمارے طریقے پر نہیں۔ امام ابوداؤد نے جید سند کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے جمہور علماء کرام کہتے ہیں کہ:" لم یتغن "کا مفہوم ہے کہ" لم یحسن صوتہ" یعنی اچھی اور خوبصورت آواز کے ساتھ نہ پڑھا ۔( فتاوٰی خیریہ    ،کتاب الکراھیۃ والاستحسان،ج4،ص176،177،  دارالمعرفۃ بیروت)

   ہاں معاذاللہ بالقصد راگنی پر قرآن عظیم ٹھیک کرنا اس کی درستی کو بے جگہ مدیا حرکت یا غنہ وغیرہا بڑھانا گھٹانا تانیں لینا یہ ضرور حرام اور اس کی تحسین اس پر سبحانہ اللہ وافریں اس سے زیادہ حرام تر ومجمع آثام ہے والعیاذ باللہ تعالٰی( اللہ تعالٰی کی پناہ۔ )

   حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :" اقرؤا القراٰن بلحون لعرب واصواتھا ویاکم ولحون اھل الکتابین واھل الفسق فانہ سیجیئ بعدی قوم یرجعون بالقراٰن ترجیع الغناء والرھبانیۃ والنوح لایجاوز حناجرھم مفتونۃ قلوبھم وقلوب من یعجبھم شانھم رواہ الطبرانی فی الاوسط والبیھقی فی الشعب عن حذیفۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ ۔ " ترجمہ : قرآن مجید عرب کے لحنوں  اوران کی آوازوں میں پڑھو اور یہود ونصارٰی  اوراہل فسق کے لحنوں سے بچو کہ میرے بعد کچھ لوگ آنے والے ہیں جو قرآن آ آ کرکے پڑھیں گے جیسے گانے کی تانیں اور راہبوں اور مرثیہ خوانوں کی اتار چڑھاؤ، قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا ، فنتے میں ہوں گے ان کے دل اور جنھیں ان کی یہ حرکت پسند آئے گی ان کے دل، (طبرانی نے الاوسط میں اور بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کو روایت کیا ہے۔

   تیسیر شرح جامع الصغیر میں ہے :  "(واھل الفسق) من المسلمین الذین یخرجون القراٰن عن موضوعہ بالتمطیط بحیث یزید اوینقص حرفا فانہ حرام اجماعا ۔"اورفاسق قسم کے مسلمان،جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے آوازکواس طرح کھینچتے اورسنوارتے ہیں کہ اس سے حروف میں کمی بیشی ہوتی ہےتویہ بالاتفاق حرام ہے۔ "(ملتقطا از فتاوی رضویہ، ج23،ص655تا361، رضا فاونڈیشن لاہور)

   مزید اسی میں ہے :" جب سامع ومسموع ومُسمَع ومِسمع ومَسمع وسماع واسماع سب مفاسد سے پاک ہوں توسننا سناناسب جائزہے اگرچہ بالقصد برعایت قوانین موسیقی ہو، خواہ فارسی یااردو یاہندی جوکچھ بھی ہو باستثناء قرآن عظیم۔۔۔رہا علم موسیقی، اس کے تعلم میں وقت ضائع کرنا صالحین کاکام نہیں بلکہ کم ازکم عبث ہے اور ہرعبث میں تضییع وقت ممنوع۔۔۔یوہیں بعد تعلم اس کے قوانین کی اپنے الحان میں رعایت اہل شرف وصلاح کے لئے عیب ہے کہ وہ ذلیلوں رذیلوں کافن ہے او ربالخصوص فاسقین وفاسقات کے ساتھ مشہورہے، ایسی تخصیص شرعاً شَے کو ممنوع کردیتی ہے اگرچہ فی نفسہٖ اس میں کوئی حرج نہ ہو جیسے جوان یابوڑھے مرد کو ٹوپی انگرکھے یاپاجامے میں چارانگل یا اس سے کم لچکا گوٹا پٹھا لگانا بلاشبہہ بدوضعی ومعیوب ہے کہ فاسقوں اور فحشوں کی وضع ہے اگرچہ فی نفسہ چارانگل تک کی اجازت ہے ۔

   اور منع رعایت موسیقی پرسائل کاوہ شبہہ کہ اس تقدیر پرتعلم موسیقی سب پرواجب ہوگا ،محض بے اصل وبے معنی ہے آخر اتنا تو مسلّم ہے کہ قرآن عظیم میں اس کی رعایت حرام ہے تو بے تعلم موسیقی اگر اس سے بچنا ناممکن تھا توخواہی نخواہی اس کاسیکھنا ہرمسلمان پرفرض عین ہوتا تو یہ وہ فرض ہے کہ صحابہ وتابعین وائمہ وعلماء سب اس سے محروم رہے، بات یہ نہیں بلکہ اس کا عکس ہے ۔

   ممنوع ومعیوب رعایت ہے اوررعایت فعل اختیاری ہے اور فعل اختیاری کوقصد لازم اور قصد بے علم ناممکن تورعایت جبھی کرسکے گاکہ جانتاہو نہ جاننے والا کہ نہ اس سے آگاہ نہ اس کا قصد کرتا ہے اگراتفاقاً اس کاپڑھنا کسی شعبہ موسیقی سے موافق ہوجائے تونہ اس پرالزام نہ یہ شرعاً ممنوع حتی کہ خود قرآن عظیم میں کما نص علیہ فی الفتاوی الخیریۃ وغیرہا (جیسا کہ فتاوٰی خیریہ وغیرہ میں اس کی تصریح کردی گئی ہے۔ت) بلکہ حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من لم یتغن بالقراٰن فلیس منّاجو خوش الحانی سے قرآن نہ پڑھے وہ ہمارے گروہ سے نہیں۔

   اور خوش الحانی میں کسی شعبہ سے اتفاقیہ موافقت نادرنہیں بلکہ غالب بلکہ اس فن والوں کے نزدیک لازم ہے الحان میں اگرچہ تان گٹکری نہ ہو مگرتال سم سے خالی نہیں ہوسکتا توناواقف اپنی سادگی کے ساتھ قصد مفسدہ سے بچاہوا نکل جائے گا اور واقف احتیاط کرے گا توقصداً بگاڑے گا اور بنانا چاہے گا تورعایت کی طرف جائے گا لہٰذا اور بھی ضرور ہواکہ اس فن سے ناواقف رہیں۔(فتاوی رضویہ،ج24،ص127رضا فاونڈیشن لاہور(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم