Makeup Wale Stickers Lage Hon Tu Wazu Ghusl Ka Hukum ?

میک اَپ والے اسٹیکرز لگے ہوں تو وضو غسل کا حکم

مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر: 88

تاریخ  اجراء: 16 ربیع الاول1434ھ/29جنوری 2013ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل ایسی مہندی مارکیٹ میں بیچی جارہی ہے جسے ہاتھ وغیرہ پر لگانے سے ہاتھ پر ایسی ہی ایک باریک جِرم دار تہہ چڑھ جاتی ہے ، جیسے نیل پالش لگانے سے چڑھتی ہے۔ ایسی مہندی لگی ہوئی ہونے کی صورت میں وضو و غسل ہوجائے گا یا نہیں؟ نیز نیل پالش لگی ہو تو وضو و غسل ہوجائے گا یا نہیں؟ نیز ایسے میک اَپ کے چہرے یا بدن پر ہونے سے وضو و غسل ہوجائے گا یا نہیں ، جو اسٹیکرز کی صورت میں ہوتا ہے اوراسے باقاعدہ چہرے پر چپکایا جاتا ہے اور وہ اسٹیکرز پانی کے جِلد تک پہنچنے سے مانع ہوتے ہیں؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   سوال میں مذکورہ مہندی ، نیل پالش اور اسٹیکرز والے میک اپ کے لگے ہونے کی حالت میں وضو اور غسل نہیں ہو گا، اس لیے کہ مذکورہ تینوں چیزیں پانی کے جلد تک پہنچنے سے مانع ہیں،اوریہ کسی شرعی ضرورت یا حاجت کے لیے بھی نہیں ہیں، قاعدہ یہ ہے کہ جو چیزیں پانی کو جسم تک پہنچنے سے مانع ہوں ان کے جسم پر چپکے ہونے کی حالت میں وضو اور غسل نہیں ہوتا، کیونکہ وضو میں سر کے علاوہ باقی تینوں اعضائے وضو اور غسل میں پورے جسم کے ہر ہر بال اور ہر ہر رونگٹے پر پانی بہ جانا فرض ہے۔

   قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:﴿و ان کنتم جنبا فاطھرواترجمہ کنز الایمان:اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہو لو۔(پارہ 6 ، سورۃ المآئدہ5  ، آیت6)

   حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من  ترک شعرۃ من جسدہ من جنابۃ لم یغسلھا فعل بہ کذا و کذا من النار قال علی فمن ثم عادیت و کان یجزہ‘‘ جس نے غسل جنابت میں ایک بال کی جگہ بے دھوئے چھوڑ دی اس کے ساتھ آگ سے ایسا ایسا کیا جائے گا(یعنی عذاب دیا جائے گا) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اسی وجہ سے میں نے اپنے سر کے ساتھ دشمنی کر لی،راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سر کے بال منڈائے رکھتے تھے۔(سنن ابن ماجہ ، صفحہ 44 ، مطبوعہ کراچی)

   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:’’قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم إن تحت کل شعرۃ جنابۃ فاغسلوا الشعرۃ و انقوا البشرۃ‘‘رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بال کے نیچے جنابت ہے تو بال دھوؤ اور جلد کو صاف کرو۔(سنن ابن ماجہ ، ص 44 ، مطبوعہ کراچی)

   علامہ ابن ہمام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’و لو لزق بأصل ظفرہ طین یابس و نحوہ أو بقی قدر رأس الإبرۃ من موضع الغسل لم یجز۔اگر اس کے ناخن کے اوپر خشک مٹی یا اس کی مثل کوئی اور چیز چپک گئی یا دھونے والی جگہ پر سوئی کے ناکے کے برابر باقی رہ گئی تو جائز نہیں ہے یعنی غسل اور وضو نہیں ہو گا۔(فتح القدیر مع الھدایہ ، جلد1 ، ص13 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری جلد1 ص 16مطبوعہ کراچی،منیۃ المصلی ص 17مطبوعہ ملتان اوراس کی شرح غنیۃ المتملی المعروف حلبی کبیر میں ہے:و اللفظ من الغنیۃ:’’  (و ذکر فی المحیط إذا کان علی ظاھر بدنہ جلد سمک أو خبز ممضوغ قد جف و اغتسل أو توضأ و لم یصل الماء إلیٰ ما تحتہ لم یجز)و کذا الدرن الیابس فی الأنف لوجوب تعمیم الغسل للبدن جمیعہ و ھٰذہ الأشیاء تمنع لصلابتھا‘‘محیط میں ذکر کیا ہے کہ اگر کسی آدمی کے جسم پر مچھلی کی جلد یا چبائی ہوئی روٹی لگی ہے اور خشک ہو چکی ہے اس حالت میں اس نے غسل یا وضو کیا اور پانی اس کے نیچے جسم تک نہیں پہنچا تو غسل اور وضو نہیں ہو گا، اور اسی طرح ناک کی خشک رینٹھ کا حکم ہے، اس لیے کہ غسل میں پورے بدن کو دھونا واجب ہے اور یہ اشیاء اپنی سختی کی وجہ سے پانی کے جسم تک پہنچنے سے مانع ہیں۔(غنیۃ المتملی مع منیۃ المصلی ، ص49 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ إن بقی من موضع الوضوء قدر رأس إبرۃ أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز۔اگر وضو والی کسی جگہ پر سوئی کے ناکے کے برابر کوئی چیز باقی ہو یا ناخن کے اوپر خشک یا تر مٹی چپک جائے تو جائز نہیں یعنی وضو و غسل نہیں ہو گا۔

   اسی میں ہے:’’و الخضاب إذا تجسد و یبس یمنع تمام الوضوء و الغسل کذا فی السراج الوھاج ناقلاً عن الوجیز‘‘ خضاب جب جرم دار ہو اور خشک ہو جائے تو وضو اور غسل کی تمامیت سے مانع ہے یعنی اس کی وجہ سے وضو اور غسل تام نہیں ہو گا، السراج الوھاج میں وجیز کے حوالے سے اسی طرح ہے۔(فتاوی عالمگیری ، جلد 1 ، ص 6 ، مطبوعہ کراچی)

    اسی میں ایک اور مقام پر ہے:’’و لو ألزقت المرأۃ رأسھا بطیب بحیث لا یصل الماء إلٰی أصول الشعر وجب علیھا إزالتھا لیصل الماء إلٰی أصولہ کذا فی السراج الوھاج‘‘اگر عورت نے اپنے سر پر کوئی خوشبو اس طرح لگائی کہ اس کی وجہ سے بالوں کی جڑوں تک پانی نہیں پہنچتا تو اس پر اس خوشبو کو زائل کرنا واجب ہے تا کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، السراج الوھاج میں اسی طرح ہے۔(فتاوی عالمگیری ، جلد1 ، ص16 ، مطبوعہ کراچی)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: مچھلی کا سنا اعضائے وضو پر چپکا رہ گیا وضو نہ ہو گا کہ پانی اس کے نیچے نہ بہے گا۔(بہار شریعت ، جلد1 ، حصہ2 ، ص292 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فقہائے کرام نے مہندی کے جِرم کے باوجود وضو ہوجانے کی تصریح کی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فقہائے کرام کا یہ حکم اُس معمولی سے جِرم کے بارے میں ہے جو مہندی لگانے کے بعد اچھی طرح دھو نے کے بعد بھی لگارہ جاتا ہے جس کی دیکھ بھال میں حرج ہے جیسے آٹا گوندھنے کے بعد معمولی سا آٹا ناخن وغیرہ پر لگارہ جاتاہے ، یہ نہیں کہ پورے ہاتھ پاؤں پر پلاسٹک کی طرح مہندی کا جِرم چڑھالیں، بازووں پر بھی ایسی ہی مہندی کا اچھا خاصا حصہ چڑھالیں، پورا چہرہ اسٹیکرز والے میک اَپ سے چھپالیں اور پھر بھی وضو و غسل ہوتا رہے۔ ایسی اجازت ہر گز ہرگز کسی فقیہ نے نہیں دی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم