Customer Dukan Par Saman Rakhwa Kar Bhool Jaye, To Hukum?

کسٹمردکان پر سامان رکھوا کر بھول جائے ،تو حکم؟

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7581

تاریخ اجراء:04ربیع الثانی1443 ھ10نومبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ جب گاہک دکان پر آتے ہیں،تو بسااوقات ان میں سے کسی کے ہاتھ میں سامان ہوتا ہے،جودکان پر بھول کر چلے جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے اورنہ ہی  گاہک کا معلوم ہوتا ہےکہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھایا کچھ لوگ بھول کر نہیں جاتے ،بلکہ اپنے ساتھ لایا ہوا سامان  ہمارے پاس بطورِ حفاظت رکھوا جاتے ہیں یا اشارے سے حفاظت کا کہہ جاتے ہیں،لیکن وہ واپس نہیں آتے،بھول جاتے ہیں اور بسااوقات گاہک بالکل اجنبی ہوتا ہے،اس کاکوئی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے،کہاں سے آیا ہے اور بسااوقات سامان پھل سبزیوں وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے اور جلد خراب ہونے والا ہوتا ہے اور بسااوقات جلد خراب ہونے والا سامان نہیں ہوتا،اب ان تمام صورتوں میں ہمارے لیے کیا حکمِ شرع ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو گاہک اپنے ساتھ لایا ہوا سامان کسی کی حفاظت میں دیئے بغیر دکان پر بھول کر چلا جائےاور اس شخص کے بارے میں کوئی معلومات بھی  نہ ہو،تو اس سامان کی شرعی حیثیت لقطہ کی ہے،کیونکہ لقطہ اس مال کوکہتے ہیں،جوکہیں پڑاہوامل جائے اوراس کاحکم یہ ہے کہ جس شخص نے سامان  اٹھایا، اس پراتنی مدت تشہیرکرنالازم ہے کہ اسے غالب گمان ہوجائے کہ اب مالک تلاش نہیں کرتا ہوگااور اگر چیز جلد خراب ہونے والی ہو، جیسے پھل،سبزی وغیرہ توان کا اعلان فقط اتنی مدت تک کرنا لازم ہے کہ خراب نہ ہوں،مذکورہ دونوں صورتوں میں مدت پوری ہونے کے بعداسے اختیارہے کہ وہ لقطہ(اٹھائے ہوئے سامان) کی حفاظت کرے یاکسی مسکین پرصدقہ کردے یاکسی مصرفِ خیرمیں صرف کردے، مسکین کودینے یامصرفِ خیرمیں صرف کرنے کے بعداگرمالک آگیا،تو مالک کو اختیارہے کہ صدقہ جائزکردے یا نہ کرے اگرجائزکردے،تو ثواب پائے گااورجائز نہ کیا اور وہ چیزموجودہے، تو اپنی چیزلے لے اوراگر باقی نہ رہی ہو ، توتاوان  لے گا ، یہ اختیار ہے کہ ملتقط (لقطہ اٹھانے والے)سے تاوان لے یا مسکین سے( جبکہ مسکین کو دیا ہو) ،جس سے بھی لے گا،وہ دوسرے سے رجوع نہیں کرسکتا۔

   اور جو گاہک اپنا سامان بول کر یا اشارے سے دکاندار  کی حفاظت میں دے جائے ،تو اس سامان کی شرعی حیثیت ودیعت کی ہے۔ودیعت کہتے ہیں:’’اپنامال کسی دوسرے کوحفاظت کرنے کے لیے دینا‘‘اس کے دورکن ہیں:(1) ایجاب(2)قبول،یہ کبھی صراحتاً پائے جاتے ہیں، جیسے زبان سے کہامیں نے اپنامال تمہاری حفاظت میں دیااوردوسراکہے میں نے قبول کیااورکبھی دلالۃً،  جیسے مالک اپناسامان کسی کے سامنے حفاظت کےلیے رکھ کرچلاجائے،اورسامنے والادیکھ کرخاموش رہے یامالک نے اشارے سے حفاظت کرنے کا کہہ دیاہواورسامنے والے نے دیکھ کرخاموشی اختیارکرلی ہو،توان تمام صورتوں میں وہ چیزودیعت کہلائے گی،ہاں اگرمودَع(جس کی حفاظت میں چیزدی گئی)کہہ دیتاہے کہ میں ودیعت کوقبول نہیں کرتایا میں اس کی حفاظت نہیں کروں گا،تویہ ودیعت نہیں کہلائے گی۔

   اورودیعت کاحکم یہ ہے کہ وہ چیزمودَع(جس کی حفاظت میں دی گئی)کے پاس امانت ہوتی ہے اوراس کی حفاظت واجب اورمالک کے طلب کرنے پردینا واجب،ہاں اگرمالک نہ ملے اورنہ ہی اس کے بارے میں معلوم ہوکہ کہاں سے آیاہے اورزندہ بھی ہے کہ فوت ہوچکاہے، تواس چیزکی ہمیشہ حفاظت کرنی ہوگی کہ اسے صدقہ بھی نہیں کرسکتے،البتہ اگروہ چیزجلدخراب ہونے والی ہے، تواسے فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے پاس محفوظ رکھی جاسکتی ہے اور اگرمالک آجائے ،تواسے یااس کے فوت ہونے کاعلم ہوجائے، تواس کے ورثاءکووہ دے دی جائے۔

   مذکورہ بالا تمہید کے بالترتیب جزئیات:

   مالِ لقطہ کے حکم کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے :’’یعرف الملتقط اللقطۃ فی الأسواق والشوارع مدۃ یغلب علی ظنہ أن صاحبھا لا یطلبھا بعد ذلک.....ثم بعد تعریف المدۃ المذکورۃ الملتقط مخیر بین أن یحفظھا حسبۃ وبین أن یتصدق بھافإن جاء صاحبھا فأمضی الصدقۃ یکون لہ ثوابھا وإن لم یمضھا ضمن الملتقط أو المسکین إن شاء لو ھلکت فی یدہ فإن ضمن الملتقط لا یرجع علی الفقیر وإن ضمن الفقیر لا یرجع علی الملتقط وإن کانت اللقطۃ فی ید الملتقط أو المسکین قائمۃ أخذھا منہ‘‘یعنی:جس کو کوئی گری ہوئی چیز ملے وہ بازاروں اور راستوں میں اتنی مدت تک اس کا اعلان کرے کہ غالب گمان ہوجائے کہ اب مالک اس چیز کو تلاش نہیں کرے گا،پھر اتنی مدت تشہیر کرنے کے بعداٹھانے والے کواختیار ہے کہ ثواب کی نیت سے لقطہ کی حفاظت کرے یااسے صدقہ کردے، پھر اگر مالک آگیا اور اس نے صدقہ کو جائز کر دیا ، تو اسے ثواب ملے گا اور اگرمالک صدقہ کرنا ،جائز قرار نہ دے اور وہ چیز بھی ہلاک ہو چکی ہو ،تو اسے یہ اختیار ہے کہ ملتقط(چیز اٹھانے والے ) سے تاوان لے یا مسکین سے ،اگر ملتقط سے تاوان لیا ، تو ملتقط مسکین سے رجوع نہیں کر سکتا اور اگر مسکین سے لیا  ، تو مسکین ملتقط سے رجوع نہیں کر سکتااور اگر وہ گمی ہوئی چیزملتقط یا مسکین کے پاس موجود ہے ،تووہ اپنی چیز اس سے لے لے گا۔  (فتاوی ھندیہ،کتاب اللقطہ ،ج2،ص289،مطبوعہ کوئٹہ)

   لقطہ مساجد،مدارس اورقبرستان وغیرہاامورِخیرمیں صرف کرنے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:’’ان المسجداذاخرب والعیاذباللہ واستغنی عنہ یعودعندمحمدالی ملک البانی کمافی التنویروغیرہ فاذالم یعرف بانیہ صارلقطۃ،وقدقال الامام محمدح صرفہ الی مسجدآخرفعلم ان التصدق الماموربہ فی اللقطۃ ھوبھذاالمعنی الرابع الداخل فیہ الصرف الی المقابروالحیاض والمساجد‘‘ترجمہ:مسجدجب ویران ہوجائے والعیاذباللہ اورلوگ اس سے مستغنی ہوجائیں،توامام محمدکے نزدیک یہ مسجدبانی کی ملک میں آجائے گی، جیساکہ تنویرالابصاروغیرہ کتب میں ہے اورجب بانی معلوم نہ ہوکہ کس نے مسجدبنائی ہے،تویہ سامان لقطہ کہلائے گااورامام محمدنے فرمایا:اس وقت اس مسجدکا سامان دوسری مسجدکودے سکتے ہیں،لہذا اس مسئلہ سے معلوم ہواکہ لقطہ میں جس صدقہ کاحکم دیاگیاہے وہ اس چوتھے معنی(جس میں نہ تملیک ہے نہ اباحت،یہ ایک قسم کاتصرفِ مالی ہے جس سے مسلمانوں کونفع پہنچانامقصود ہوتاہے) کے ساتھ ہے جس میں لقطہ قبرستان،حوض اورمساجدپرصرف کیاجاسکتاہے۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ،ج20،ص552،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   لقطہ جلدخراب ہونے والی چیزہو،تواس کے حکم کے بارے میں بدائع الصنائع،فتاوی عالمگیری اوردرمختارمیں ہے:واللفظ للدر’’عرف الی ان علم ان صاحبھا لا یطلبھا او انھا تفسد ان بقیت کالاطعمۃ کانت امانۃ فینتفع بھا لو فقیر ا والا تصدق بھاعلی الفقیر ولو علی اصلہ وفرعہ وعرسہ الا اذا عرف انھا لذمی فانھا تو ضع فی بیت المال‘‘ یعنی :لقطہ اٹھانے والا اس کی تشہیر کرے گا ،یہاں تک کہ وہ جان لے کہ اب اس چیز کواس کامالک تلاش نہیں کرتا ہوگا یاچیز کھانوں وغیرہ میں سے ایسی ہے کہ جو جلد خراب ہونے والی ہے تو یہ چیز اس لقطہ اٹھانے والے کے ہاتھ میں امانت ہوگی اور اگر یہ فقیر ہے، تو اس کے لیے اس سے نفع اٹھانا بھی جائز ہے، وگرنہ یہ کسی فقیر کو صدقہ کردے ،چاہے وہ فقیر اس کی اصل (باپ دادا)میں سے ہو یا فرع(بیٹے پوتے) میں سے یا اس کی بیوی ہو، ہر طرح جائز ہے، ہاں اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ چیز کسی ذمی کی ہے ،تو اس کو بیت المال کے سپر د کردیا جائے گا ۔(در مختارمع ردالمحتار،کتاب اللقطۃ، ج 06،ص424،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’جوچیزیں خراب ہوجانے والی ہیں،جیسے پھل اورکھانے ان کااعلان صرف اتنے وقت تک کرنالازم ہے کہ خراب نہ ہوں اورخراب ہونے کااندیشہ ہو،تومسکین کودیدے۔‘‘ (بھارشریعت،ج02،ص476،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   ودیعت کی تعریف اوراس کے ارکان بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں: ’’تسلیط الغیر علی حفظ مالہ صریحا أو دلالۃ....(ورکنھا الإیجاب صریحا)کأودعتک ....(أو فعلا) کما لو وضع ثوبہ بین یدی رجل ولم یقل شیئا فھو إیداع (والقبول من المودع صریحا) کقبلت (أو دلالۃ) کما لو سکت عند وضعہ فإنہ قبول دلالۃ کوضع ثیابہ فی حمام بمرأی من الثیابی‘‘ ملتقطاً۔ترجمہ:کسی کو صراحتا یا دلالۃً اپنے مال کی حفاظت پر مسلط کرناودیعت کہلاتا ہے۔ اس کا رکن ایجاب ہے ،خواہ وہ صراحتاہو،جیسے یوں کہاکہ میں نے تمہیں ودیعت دی یاعمل سے ہو،جیسے کسی نے اپناکپڑادوسرے کے سامنے رکھ دیااورکچھ نہ کہا،تویہ ودیعت رکھناہے اورودیعت کادوسرارکن مودع(جس کی حفاظت میں چیزدی گئی)کی طرف سے قبول کرناہے،خواہ قبول کرناصراحتاً ہو،جیسے میں نے قبول کیایادلالۃً ہو،جیسے کسی نے اس کے سامنے چیزرکھی اوریہ خاموش رہا،تویہ خاموش رہنادلالۃً  قبول ہے، جیسے حمام میں جامہ دار (لباس کے منتظم )کے سامنے کپڑے رکھنا۔(درمختار مع ردالمحتار، کتاب الایداع، ج08، ص526، مطبوعہ  کوئٹہ)

   بحر الرائق میں ہے: ’’رکنھا  الایجاب   قولا   أو   فعلا   و    القبول صریحا    أو    دلالۃ....وانماقلنافی الایجاب فعلالیشمل مالووضع ثوبہ بین یدی رجل ولم یقل شیئافھوایداع وانماقلنافی القبول دلالۃ لیشمل سکوتہ عندوضعہ بین یدیہ فانہ قبول دلالۃ،ملتقطا‘‘ترجمہ:ودیعت کاایک رکن ایجاب ہے خواہ وہ بول کرہویاعمل سے اوردوسرارکن قبول ہے ،خواہ وہ صراحتاہویادلالۃاورہم نے عمل کی صورت میں ایجاب پائے جانے کے بارے میں کہاتاکہ یہ اس صورت کوشامل ہوجائے کہ اگرکسی نے اپناکپڑادوسرے شخص کے سامنے رکھااورمنہ سے کپڑے کی حفاظت کرنے کے متعلق کچھ نہ بولا ، توبھی یہ ودیعت ہوگی اورہم نے دلالۃ یعنی منہ سے کچھ بولے بغیرقبول کرنے کے بارے میں کہاتاکہ یہ شامل ہوجائے اس صورت کوکہ جب کسی نے اس کے سامنے چیزرکھی تویہ خاموش رہا،یہ دلالۃ قبول ہے۔(بحرالرائق،کتاب الودیعۃ،ج07،ص464،مطبوعہ کوئٹہ)

   مجلۃ میں ہے: ’’وکذلک اذا وضع رجل مالہ فی دکان فرآہ صاحب الدکان و سکت ثم ترک الرجل ذلک المال و انصرف صار ذلک المال عند صاحب الدکان ودیعۃ‘‘ترجمہ:اور اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنا مال کسی کی دکان میں رکھا اور دکان کا مالک اسے دیکھ رہا تھا، لیکن وہ خاموش رہاپھروہ آدمی مالکِ دکان کے سامنے اپنا مال چھوڑکرچلا گیا،تو وہ مال مالک ِ دکان کے پاس ودیعت ہوگا ۔

   مذکورہ بالاعبارت کے تحت شرح المجلہ میں ہے: ’’ مثلہ ما اذا لم یضعہ فی الدکان بل وضعہ بین یدی رجل فسکت،کما فی الدر‘‘ترجمہ:اس کی مثل یہ مسئلہ بھی ہے کہ جب اس نے دکان میں نہ رکھاہو،بلکہ اس نے کسی دوسرے آدمی کے سامنے رکھ دیااوروہ آدمی جس کے سامنے رکھاگیا،خاموش رہا(تویہ بھی ودیعت ہے)جیساکہ درمیں ہے۔ (شرح المجلۃ،الکتاب السادس فی الامانات، الباب الثانی، ج03، ص236،مطبوعہ کوئٹہ)

   ودیعت قبول کرنے سے انکار کردینے کے سبب   چیز ودیعت کے حکم میں داخل  نہ ہونے کے بارے میں جامع الفصولین اورشرح المجلہ ہے: ’’ولو قال لا اقبل الودیعۃ و المسئلۃ بحالھا یبرأ اذ القبول عرفا لم یثبت عند الرد صریحا‘‘ترجمہ: اوراگرحفاظت کرنے والے نے کہاتھا کہ میں ودیعت قبول نہیں کرتا اور باقی صورت وہی ہو،  تو دوسرا شخص ضمان سے بری ہوگا،  کیونکہ صراحتاًردکردینے کے ساتھ عرفاًقبول ثابت نہیں ہوتا۔(شرح المجلۃ،الکتاب السادس فی الامانات، الباب الثانی، جلد3، صفحہ237، مطبوعہ کوئٹہ)

   بحرالرائق میں ہے:’’لوقال لاأقبل لایکون مودعا، لأن الدلالۃ لم توجد‘‘ترجمہ:اگردوسرے نے کہاکہ میں ودیعت کوقبول نہیں کرتا،تووہ ودیعت نہیں کہلائے گی،کیونکہ دلالۃ قبول نہیں پایاگیا۔ (بحرالرائق،کتاب الودیعۃ،ج07،ص464،مطبوعہ کوئٹہ)

   ودیعت کاحکم بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’ودیعت کاحکم یہ ہے کہ وہ چیزمودع کے پاس امانت ہوتی ہے، اس کی حفاظت مودع پرواجب ہوتی ہے اورمالک کے طلب کرنے پردیناواجب ہوتاہے۔ودیعت کاقبول کرنامستحب ہے۔ودیعت ہلاک ہوجائے ،تواس کاضمان واجب نہیں۔‘‘(بھارشریعت،ج03،ص32،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   مالک نہ ملنے کی صورت میں مالِ ودیعت کے بارے میں فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’غاب المودع ولا یدری حیاتہ ولا مماتہ یحفظھا ابدا حتی یعلم بموتہ وورثتہ،کذا فی الوجیز للکردری ولا یتصدق بھا بخلاف اللقطۃ،کذا فی الفتاوی العتابیۃ‘‘ترجمہ:ودیعت رکھنے والا غائب ہوگیا، معلوم نہیں زندہ ہے یا مر گیا، تو ودیعت کو ہمیشہ محفوظ ہی رکھنا ہوگا،یہاں تک کہ اس کی موت اورورثاء کا علم ہوجائے، جیساکہ الوجیز للکردری میں ہے ۔ودیعت کو صدقہ نہیں کرسکتا ، بخلاف لقطہ کے ۔ (فتاوی ھندیہ ،کتاب الودیعۃ،الباب السابع فی ردالودیعۃ،ج4،ص354،مطبوعہ کوئٹہ )

   اورجلدخراب ہونے والی چیزکے بارے میں فتاوی سراجیہ اورمحیط برہانی میں ہے: ’’إذا کانت الودیعۃ شیئا یخاف علیہ الفساد، وصاحب الودیعۃ غائب، فإن رفع الأمر إلی القاضی حتی یبیعہ جاز وھو الأولی، وإن لم یرفع حتی فسدت لا ضمان علیہ؛ لأنہ حفظ الودیعۃ علی ما أمر بہ‘‘ترجمہ: اگر ودیعت ایسی چیز ہے کہ جس کے رکھنے سے اس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور مالکِ ودیعت غائب (موجود نہیں) ہے ، تو پھر اگر اس کو بیچنے کے لیے قاضی تک معاملہ پہنچا یا جائے ، تو یہ جائز ہے اور یہی اولیٰ ہےاور اگر ایسا نہ کیا گیا یہاں تک کہ وہ چیز خراب ہوگئی، تو تاوان لازم نہیں آئے گا،  کیونکہ اس نے ودیعت کی حفاظت کی ہے ،جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔(فتاوی سراجیہ،کتاب الودیعۃ،صفحہ361،مطبوعہ مکتبہ زم زم)(محیط برھانی ،کتاب الودیعۃ،ج08،ص296، مکتبہ ادارۃ القرآن)

   اورقاضی نہ ہونے کی صورت میں خودہی فروخت کرکے رقم محفوظ کرنے کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے:’’وإن لم یکن فی البلد قاض باعھا وحفظ ثمنھا لصاحبھا، کذا فی السراج الوھاج‘‘ ترجمہ: اور اگر کسی شہر میں قاضی نہ ہو ،تو وہ خود اس کو بیچ کر اس کی قیمت مالک کے لیے محفوظ رکھے ،جیسا کہ سراج وہاج میں ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب الودیعۃ،الباب الرابع،ج04،ص344،مطبوعہ کوئٹہ) 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم