Masjid Se Kisi Aur Ke Chappal Pehen Kar Ghar Aa Gaya Tu Ab Kya Hukum Hai ?

مسجد سے کسی اور کے جوتے پہن کر گھر آگیا ، تو اب کیا حکم ہے ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8142

تاریخ اجراء: 13 جمادی الاولی1444ھ/08 دسمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ دو افراد کہ جن کی عمر میں کچھ فرق تھا۔ وہ دونوں  نماز پڑھنے مسجد گئے۔  اِتفاقاً  دونوں کی سلیپر (Slipper)‏ ایک جیسی تھی ، لیکن عمر میں فرق کی وجہ سے ایک چھوٹی اور دوسری اُس سے کچھ بڑی تھی۔  نماز ‏پڑھنے کے بعد ایک شخص بے توجہی میں دوسرے کی چپل لے کر چلا  گیا۔ جب دوسرا شخص چپل  پہن کر گھر ‏جانے لگا، تو اُسے وہ سلیپر کچھ چھوٹی محسوس ہوئی۔ گھر پہنچنے پر اُسے سمجھ آگئی کہ یہ دوسرے کی ‏چپل ہے۔ اُس کے گھر والوں نے اسے کہا کہ آپ اگلی نماز میں یہ چپل لے کر چلے جانا،  وہ دوسرا شخص آئے گا، تو اُسے ‏اس کی چپل دے کر اپنی لے لینا۔ کافی دن گزر گئے،  لیکن کوئی سلیپر چینج (Change)کرنےنہیں آیا اور اب لگتا ‏بھی نہیں کہ وہ آئے گا، لہذا  اب اس سلیپر کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب بے توجہی سے چپل تبدیل ہو کر گھر آ جائے، تو وہ  شرعی اعتبار سے ”لقطہ“ہے، جس کا بنیادی حکم یہ ہے کہ اُس کی تشہیر کی جائے  اور مالِک تک پہنچانے کے حتی المقدور ذرائع اختیار کیے جائیں، چنانچہ اگر مالِک تک رسائی ہو جائے، تو  اُسے واپس کر دے اور اگر رسائی نہ ہو سکے، تو اپنے پاس بغرضِ حفاظت محفوظ کر لیا جائے یا فقیرِ شرعی پر صدقہ کر دیا جائے، لہذا مسئولہ صورت  میں جو چپل  غلطی سے گھر آ گئی اور  وہ شخص  بغرضِ تشہیر  اور مالک کی تلاش میں کافی دن تک مسجد لے جاتا رہا، تا کہ اصل مالک ملے اور اُسے چپل واپس کر دے، مگر دوسرا شخص دوبارہ نہیں ملا، نیز اب اِتنا عرصہ بھی ہو چکا ہے کہ گمانِ غالب ہے کہ وہ اپنی چپل لینے نہیں آ ئے گا، تو شرعاً اِس قدر تشہیر کافی ہے۔ اب اسے اختیار ہے کہ اگر چاہے، تو چپل سنبھال لے، تاکہ جب کبھی مالک لینے آئے ،تو واپس کر دیں یا اُس چپل کو یا بیچ کر قیمت  کو فقیرِ شرعی پر صدقہ کردیں، لیکن یاد رکھیں کہ اگر صدقہ کردینے کے بعد  مالک‏اپنی چپل لینے آجائے اور علامات وقرائن سے ثابت ہو کہ اِسی کی چپل تھی، تو اُس چپل کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔

   جب کسی جگہ پر چپل تبدیل ہوجائے،اور ایک شخص کسی اور کی چپل لے کر اپنی چھوڑ جائے،تووہ ‏شخص کہ جس کی چپل پہلا شخص لے گیا،اس کی چپل بغیر تشہیر  وتصدق  کے استعمال کر سکتا ہے یا ‏نہیں ؟ اِس کے متعلق زین الدین علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’كذلك الجواب في ‌المكعب إذا سرق انتھیٰ وقيده بعضهم بأن يكون ‌المكعب الثاني مثل الأول أو أجود أما إذا كان الثاني دون الأول فله أن ينتفع به من غير هذا التكلف لأن أخذ الأجود وترك الأدون دليل الرضا بالانتفاع بالأدون كذا في الظهيرية وفيه مخالفة اللقطة من جهة جواز التصدق بها قبل التعريف وكأنه للضرورة ‘‘ترجمہ:یہی جواب چوری ہوئی چپل ‏کےبارے میں بھی  ہے ۔ بعض فقہاء نے اس مسئلہ کو اُس صورت کے ساتھ مقید کیا کہ جب ‏دوسری چپل (جو وہ چھوڑگیا ہے)پہلی چپل کی مثل یا اس  سےعمدہ ہواور اگر یہ دوسری چپل پہلی ‏چپل سے کم درجے کی ہے،تو اِس تکلُّفِ تشہیر  کے بغیر اُس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، کیونکہ عمدہ چپل لے کر ‏کم درجے کی چھوڑ جانا، یہ چھوڑی ہوئی چپل سے فائدہ اٹھانے پر رضا مندی  کی  دلیل ہے،اسی ‏طرح ”ظہیریۃ“میں ہے، لیکن اس میں لقطہ کی مخالفت ہے کہ تشہیر سے پہلے صدقہ کا جواز بیان کیا جا رہا ہے۔ممکن ہے کہ یہ ضرورت کی وجہ سے ہو۔(بحر الرائق، جلد5،صفحہ265،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   تشہیر کے بغیر تصدُّق یا ذاتی استعمال کا  حکم اُس صورت میں ہے کہ جب یہ یقین ہو کہ جوتا چوری ہی کیا گیا ہے۔ اگر یقین نہ ہو،  بلکہ کسی بھی اور وجہ مثلاً :تاریکی، غفلت، عدم توجہ، مشابہت یا  غلطی سے کوئی فرد پہن گیا اور قرائن یہی بتاتے ہوں، تو چھوڑے گئے جوتے کے متعلق اصل لقطہ والا حکم ہو گا کہ اَوَّلاً تشہیر کی جائے اور پھر اگلے مَراحل اختیار کیے جائیں، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’قلت : ما ذكر من التفصيل بين الأدون وغيره إنما يظهر في المكعب ‏المسروق ، وعليه لا يحتاج إلى تعريف ، لأن صاحب الأدون معرض عنه قصدا ۔۔۔أما لو أخذ مكعب غيره وترك مكعبه غلطا لظلمة أو نحوها ويعلم ذلك بالقرائن فهو في حكم اللقطة لا بد من السؤال عن صاحبه بلا فرق بين أجود وأدون وكذا لو اشتبه كونه غلطا أو عمدا لعدم دليل الإعراض، هذا ما ظهر لي فتأمله‘‘ ترجمہ:میں یہ کہتا ہوں: جو عمدہ وادنیٰ کی تفصیل بیان کی گئی، تو یہ صرف  چوری ہوئے جوتے کے متعلق ہی ظاہر ہو گی، اِس صورت میں تعریف کی ضرورت درپیش نہ ہو گی، کیونکہ گھٹیا جوتا چھوڑ جانے والا، قصداً اُس سے اِعراض کرنے والا ہے۔ ہاں اگر کسی نے غلطی سے مثلاً: اندھیرے یا کسی بھی وجہ سے دوسرے کا جوتا پہن لیا اور اپنا  چھوڑ گیا  اور یہ چیز قرائن سے معلوم ہو کہ غلطی سے ایسا ہوا ہے ،تو یہ جوتا لقطے کے حکم میں ہے، چنانچہ جوتے کے ادنیٰ یا اعلیٰ ہونے کے فرق کے بغیر  اِس جوتے کے مالک کے متعلق تفتیش کرنا ضروری ہے۔ یونہی اگر معاملہ مشتبہ ہو کہ  اٹھانے والے نے غلطی سے جوتا اٹھایا ہے یا جان بوجھ کر تو اِس صورت میں بھی لقطہ کا ہی حکم ہے، کیونکہ چھوڑنے والے کی طرف سے اِعراض کی کوئی دلیل نہیں پائی جا رہی۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد6،مطلب:سرق مکعبہ ووجد مثلہ او دونہ،   صفحہ438، مطبوعہ کوئٹہ)

   جب جوتا لقطہ کے حکم میں ہے  ،  تو لقطہ کے استعمال کے متعلق علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:956ھ/1049ء) لکھتےہیں:’’للملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لوفقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء‘‘ ترجمہ:لقطہ اٹھانے والے کو  اپنی ذات کے لیے بھی حق حاصل ہے کہ وہ اچھی طرح تشہیر وغیرہ کرکے اپنی ذات پر ہی خرچ کر لے، بشرطیکہ وہ خود فقیرِ شرعی ہو، اگر خود غنی ہے، تو اُسے کسی اور پر صدقہ کرے، خواہ ماں باپ پر، بیٹے پر، بیوی پر، بشرطیکہ یہ سب فقرائے شرعیہ ہوں۔(ملتقی الابحر مع مجمع الانھر، جلد2، کتاب اللقطۃ، صفحہ529، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت )

   اوپر ”بحر الرائق“ کے جزئیہ میں گھٹیا جوتا چھوڑ جانے اور عمدہ لے جانے کو چوری اور گھٹیا کے استعمال کرنے کی اجازت پر  دلیل الرضا“ کہا گیا، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”جد الممتار“ میں یہ کلام فرمایا کہ ہم کسی مسلمان کے بارے میں یہ بدگمانی کیسے کر سکتے ہیں کہ  ادنیٰ چھوڑ کر اعلیٰ  جوتا چوری کے ارادے سے ہی لے کر گیا ہے، نیز اُس کا یہ فعل اَدنیٰ کے استعمال کی اجازت ہے، کیونکہ بعض  دفعہ جوتے ملتے جُلتے ہوتے ہیں اور پہننے والا  بے توجہی میں غلطی سے جوتا پہنتا اور گھر چلا جاتا ہے اور وہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جوتا غلطی سے لے آیا ہوں، لہذا فقط اَدنیٰ چھوڑ جانے  اور دوسرا پہن جانے کو ”چوری“ کی وجہ سے ہی نہیں کہا جا سکتا۔

   امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ قوله:دليل الرضا: أقول: في الدلالة ضعف ظاهر، فلربما يلتبس على الإنسان فيلبس ويذهب ثم يطلع وهو لا يعلم لمن هذه؟ فيعجزه عن الإيصال، نعم من الجهلة من يتعمد ذلك وكيف يساء الظن بالمسلم ما لم يعلم! بل يحمل على ما ذكرنا من الالتباس، فأين الدلالة؟ ثم لما تجاوز النظر إلى ما أفاد المولى الشامي رأيته نحا نحو ما نحوت، فلله الحمد‘‘ ترجمہ:”صاحبِ بحر“ کے”دلیل الرضا“ کہنے کے متعلق میں یہ  کہتا ہوں کہ گھٹیا جوتا چھوڑ جانے کو رضا مندی کی دلیل قرار دینا نہایت کمزور بات ہے، کیونکہ بسا اوقات انسان پر معاملہ مشتبہ ہوجاتا  ہے اور وہ دوسرے کے جوتے پہن کر چلا جاتا ہے،  پھر  بعد میں اِس  اَمر پر مطلع ہوتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ یہ جوتے کس کے ہیں، چنانچہ عدمِ علم اُسے  اصل مالک تک پہنچانے سے عاجِز  کر دیتا ہے، (لہذا وہ لقطہ بن جاتا ہے۔) ہاں یہ ضرور ہے کہ بہت سارے جاہل قصداً یہ حرکت کرتے ہیں، لیکن کسی مسلمان کے متعلق بغیر یقینی معلومات کے یہ برا گمان نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اِس کو اُسی پر محمول کیا جائے گا، جو ہم نے مشتبہ ہونے والی بات ذکر کی، لہذارضامندی پردلالت کہاں ہوگی؟پھرجب میری نظرعلامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بیان کردہ افادہ پرپڑی،  تومیں نے دیکھا کہ وہ تقریباً میری جیسی رائے کی طرف ہی متوجہ ہوئے ہیں ۔ اس پراللہ تعالی کی  ہی حمدہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم