کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے میلاد منانا ثابت ہے؟ |
مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی |
فتوی نمبر: 193 |
تاریخ اجراء:01ربیع الاول1441ھ/30اکتوبر2019ء |
دارالافتاء اہلسنت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جشن ولادت نہ تو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منایا نہ ہی خلفائے راشدین میں سے کسی نے منایا ، لہٰذا یہ بدعت ہے اور حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے جس کا انجام جہنّم ہے۔ برائے کرم اس کا تسلّی بخش جواب عنایت فرمائیں ؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
کسی کام کے ناجائز ہونے کا دارومدار
اس بات پر نہیں کہ یہ کام حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم یا صحابہ ٔکرام علیہمُ الرِّضوان نے نہیں کیا ،
بلکہ مدار اس بات پر ہے کہ اس کام سے اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر منع فرمایا ہے ،
تو وہ کام ناجائز ہے اور منع نہیں فرمایا ، تو جائز ہے ، کیونکہ
فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ ’’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘ ترجمہ: تمام چیزوں میں اصل
یہ ہے کہ وہ مباح ہیں۔ یعنی ہر چیز مباح
اورحلال ہے ہاں اگر کسی چیز کو شریعت منع کردے ، تو وہ منع
ہے، یعنی ممانعت سے حرمت ثابت ہوگی نہ کہ نئے ہونے سے۔ یہ
قاعدہ قرآنِ پاک اور احادیثِ صحیحہ و اقوالِ فقہاء سے ثابت
ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّہَا
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسْـَٔلُوۡا
عَنْ اَشْیَآءَ اِنۡ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ۚ وَ
اِنۡ تَسْـََٔلُوۡا عَنْہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ
الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ؕ عَفَا اللہُ عَنْہَا﴾ترجمۂ کنزالایمان:اے
ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی
جائیں توتمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت
پوچھوگے کہ قرآن اُتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی
اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے۔
(پارہ 7، سورۃ المائدہ ، آیت 101) صدر الافاضل حضرت علّامہ مولانا سیّد
محمد نعیمُ الدّین مُرادآبادی علیہ رحمۃ
اللہ الھادی فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس
اَمر کی شَرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے ۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے
جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا ، حرام وہ ہے جس کو اپنی
کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف ہے تو کلفت
میں نہ پڑو۔‘‘
(خزائن العرفان،ص224) حدیثِ پاک میں ہے: ’’الحلال ما احل اللہ فی کتابہ
والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ و ما سکت عنہ فھو مما عفیٰ
عنہ‘‘ ترجمہ: حلال وہ ہے جس کو
اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جس کو
اللہ نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جس پر خاموشی فرمائی وہ معاف ہے۔ (ترمذی،3/280، حدیث:1732) چونکہ محافلِ دینیہ منعقد کرکے
عید میلاد منانے کی ممانعت قرآن و حدیث، اقوالِ
فقہاء نیز شریعت میں کہیں بھی وارد نہیں،
لہٰذا جشنِ ولادت منانا بھی جائز ہے اور صدیوں سے علماء نے
اسے جائز اور مستحسن قرار دیا ہے۔ شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں:’’ربیعُ الاوّل چونکہ
حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادتِ باسعادت کا مہینا
ہے لہٰذا اس میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی
خوشی میں محافل کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس
کی راتوں میں صدقات اور اچّھے اعمال میں کثرت کرتے ہیں۔
خصوصاً ان محافل میں آپ کی میلاد کا تذکرہ کرتے ہوئے
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرتے ہیں۔
محفلِ میلاد کی یہ برکت مجرّب ہے کہ اس کی وجہ سے یہ
سال امن کے ساتھ گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آدمی
پر اپنا فضل و احسان کرے جس نے آپ کے میلاد مبارَک کو عید
بناکر ایسے شخص پر شدّت کی جس کے دل میں مرض ہے۔‘‘ (المواھب اللدنیہ،
1/27) شیخ عبدالحق محدّث دِہلوی علیہ
رحمۃ اللہ القویفرماتے ہیں:’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے
میں محفل میلاد کا انعقاد تمام عالَم ِاسلام کا ہمیشہ سے
معمول رہا ہے۔ اس کی راتوں میں صدقہ خوشی کا اظہار اور
اس موقع پر خُصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر ظاہر
ہونے والے واقعات کا تذکرہ مسلمانوں کا خُصوصی معمول ہے۔“
(ماثبت بالسنہ،ص102) امام جمالُ الدّین الکتانی
لکھتے ہیں:’’حضور صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت کا دن نہایت
ہی معظّم، مقدّس اور محترم و مبارَک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود پاک اتّباع کرنے
والے کے لئے ذریعۂ نجات ہے جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر
خوشی کا اظہار کیا اس نے اپنے آپ کو جہنّم سے محفوظ کرلیا۔
لہٰذا ایسے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور حسبِ توفیق
خرچ کرنا نہایت مناسب ہے۔“ (سبل الھدیٰ
والرشاد،1/364) اور یہ کہنا کہ’’ہرنیا کام
گمراہی ہے‘‘ دُرست نہیں ، کیونکہ بدعت کی ابتدائی
طور پر دو قسمیں ہیں : بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ۔
بدعتِ حسنہ وہ نیا کام ہے ، جو کسی سنّت کے خلاف نہ ہو جیسے
مَوْلِد شریف کے موقع پر محافلِ میلاد، جلوس،سالانہ قراءَت کی
محافل کے پروگرام، ختم بخاری کی محافل وغیرہ۔بدعتِ سیّئہ
وہ ہے جو کسی سنّت کے خلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہوجیسے
غیرِ عربی میں خُطبۂ جُمعہ و عیدین۔ چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی
علیہ رحمۃ اللہ القوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:معلوم
ہونا چاہیے کہ جو کچھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہوا بدعت کہلاتا
ہے پھر اس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعد سنّت کے مطابق ہو اور
کتاب و سنّت پر قیاس کیا گیا ہو بدعتِ حسنہ کہلاتا ہے اور جو
ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے بدعتِ ضلالت کہتے ہیں۔ اورکل بدعۃ
ضلالۃ کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے۔
(اشعۃ اللمعات مترجم،1/422) بلکہ حدیث پاک میں نئی
اور اچّھی چیز ایجاد کرنے والے کو تو ثواب کی بشارت
ہے۔چنانچہ مسلم شریف میں ہے: ”مَنْ سَنَّ في الإسلامِ سنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ
أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيرِ أنْ يَّنْقُصَ مِنْ
أُجُورهمْ شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيهِ
وِزْرُهَا، وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْم بَعْدِهِ، مِنْ غَيرِ أنْ
يَّنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهمْ شَيءٌ‘‘ ترجمہ: جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو
اس پر اسے ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے تمام کے
برابر اس جاری کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ا ن کے ثواب میں
کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ
جاری کرے تو اس پر اسے گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں
گے ان سب کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی گناہ ملے گا اور ان کے
گناہ میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔ (مسلم، ص394، حدیث:1017) جشنِ ولادت منانا بھی ایک
اچّھا کام ہے ، جو کسی سنّت کے خلاف نہیں ، بلکہ عین قرآن و
سنّت کے ضابطوں کے مطابِق ہے۔ رب تعالیٰ کی نعمت پر خوشی
کا حکم خود قرآنِ پاک نے دیا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے:﴿ قُلْ بِفَضْلِ
اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا﴾ ترجمۂ کنز الایمان:تم
فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی
پر چاہیے کہ خوشی کریں۔ (پ11، یونس :58) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:﴿ وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ
فَحَدِّثْ ﴾
ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا
کرو۔ (پ30، والضحیٰ:11) خود حضورِ اکر م صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنا یومِ میلا
د روزہ رکھ کر مناتے ۔ چنانچہ آپ ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے ،
جب اس کی وجہ دریافت کی گئی ، تو فرمایا:’’اسی
دن میری ولادت ہوئی اور اسی روز مجھ پر وحی نازل
ہوئی۔“ (مسلم،ص455، حدیث:2750) خلاصۂ کلام یہ کہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر خوشی منانا ، مختلف جائز طریقوں سے اِظہارِ مَسرّت کرنا اور محافلِ میلاد کا انعقاد کر کے ذکرِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے ان پر مسرت و مبارک لمحات کو یاد کرنا ، جو سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت ہے ، بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے۔مزید تفصیل کے لیے علمائے اہلِ سنّت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔ |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟