کیا فتاوی رضویہ میں تاریخ ولادت 8 ربیع الاول لکھی ہے؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:06 ربیع الاول1442ھ/24اکتوبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگوں نے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کا حوالہ دےکر ایک اسٹیکر شائع کیا ہے ، جس میں درج ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالے”نطق الہلال“ فتاویٰ رضویہ، جلد26  میں لکھا ہے کہ ولادتِ (پیدائش) نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 8ربیعُ الاوّل ہے اور وفاتِ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 12ربیع ُالاوّل ہے۔کیا واقعی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا یہی موقف ہے کہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت آٹھ ربیعُ الاوّل کو ہوئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان   علیہ رحمۃ الرحمٰن کی تحقیق یہی ہے کہ جشن ولادت بارہ ربیع الاوّل کو منایا جائے۔

    فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 411 پر ہے۔”اس(ولادت کی تاریخ کے بارے) میں اقوال بہت مختلف ہیں: دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات (7) قول ہیں ، مگر اشہر و اکثر و مأخوذ و معتبر بارہویں ہے۔  مکۂ معظّمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولِد اقدس کی زیارت کرتے ہیں ۔ کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواھب لدنیہ اورمدارج نبوۃ میں ہے) اورخاص اس مکانِ جنّت نِشان میں اسی تاریخ میں مجلسِ میلادِ مقدّس ہوتی ہے۔“

    فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 427 پر ہے:’’شَرْعِ مُطہّر میں مشہور بینَ الجمہور ہونے کے لئے وقعت عظیم ہے (یعنی جوموقف اکثر علما کا ہووہ خود ایک بہت بڑی دلیل ہوتی ہے)اور مشہور عندَ الجمہور 12ربیع ُالاوّل ہے اور علِم ھَیْئَت و زیجات کے حساب سے روز ولادت شریف 8ربیعُ الاوّل ہے۔‘‘

    مزید فرماتے ہیں’’ تعامل مسلمین حرمین شریفین و مصر وشام بلاد اسلام و ہندوستان میں بارہ ہی پر ہے ۔ اس پر عمل کیا جائے۔الخ“

           ( فتاویٰ رضویہ ، ج 26 ، ص 427 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    جب کوئی محققِ وقت کسی مسئلے پر قلم اٹھاتا ہے ، تو وہ اس مسئلے سے متعلّق مختلف لوگوں کی آراء اور اقوال بھی نقل کرتا ہے ۔ اس مقام پر امامِ اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے اسی طرح کا طرزِعمل اختیار کرتے ہوئے مختلف لوگوں کے موقف کوبھی بیان فرمایا اور علم زیج والوں کا قول بھی نقل کیا کہ وہ تمام کے تمام آٹھ ربیعُ الاوّل کو یوم ولادت قرار دیتے ہیں۔

    محض آدھی بات کو لےکر پروپیگنڈا کرنا اور اس بات کو چھوڑ دینا  کہ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جمہور کا موقف کس تاریخ کو قرار دیا ہے اور کس تاریخ کو جشنِ ولادت منانے کی تاکید کی ہے ، انصاف کے خلاف اور غلط روش ہے۔خود امامِ اہلسنّت رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے اپنے اشعارمیں بارہویں تاریخ ہی کو لے کر لمحات مسرّت ہونا بیان کیا اور برادرِ اعلیٰ حضرت نے تو ایک پورا کلام ہی”بارہویں تاریخ“ کا قافیہ لے کر کہا ہے اور ان کا وصال امامِ اہلسنّت کی زندگی ہی میں ہوا اور امامِ اہلسنّت ان کے کلام کے پڑھنے کی تاکید کرتے رہے۔ پھر یہ کہنا اور تأثّر دینا کہ12 تاریخ کو جشنِ ولادت منانا امامِ اہلسنّت  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی  مَنْشا کے خلاف ہے ، بہت بڑی زیادتی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم