چالیسویں پر مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے کپڑے، جوتے، ٹوپی اور جائے نماز دینے کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1918

تاریخ اجراء:07 ربیع الاول1442ھ/25اکتوبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ چند دن قبل ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ۔ سنا ہے کہ مرحوم کے چالیسویں پر مرحوم کی طرف سے ایک کپڑوں کا جوڑا ، ایک جوتوں کا جوڑا ، ایک عدد ٹوپی ، ایک جائے نماز صدقہ کیا جاتا ہے اور عموماً مسجد کے مؤذن ، خادم وغیرہ کو یہ چیزیں دی جاتی ہیں ۔ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ چیزیں مرحوم کی طرف سے دینا شرعا ضروری ہے اور کیا مسجد کے مؤذن ، خادم کو ہی دی جاسکتی ہیں ، کسی اور کو نہیں ؟ اگر کوئی شخص ان چیزوں کے علاوہ پیسے دینا چاہے اور مؤذن خادم کے علاوہ کسی اور غریب کو دے ، تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہوگا ؟تفصیل سے بیان فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مرحوم کی طرف سے صدقہ کرنا ، جائز و مستحب اور ثواب کا کام ہے ، شرعا  لازم نہیں ہے ، اس کے لیے سوال میں مذکور چیزیں دینا بھی جائز ہے ، لیکن یہی چیزیں دینا ضروری نہیں ، ان کے علاوہ کوئی اور چیز یا پیسے بھی دیے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح مسجد کے مؤذن یا خادم کو دینا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی غریب کو دے سکتے ہیں ، البتہ یہ ہے کہ  مسجد کے موذن و خادم پکے نمازی اور خدا کے گھر یعنی مسجد سے وابستہ ہوتے ہیں اور عموما ضرورت مند بھی ہوتے ہیں تو اس جہت سے انہیں دینے میں ایک اضافی خوبی ہے۔

    مرحوم کی طرف سے صدقہ کرنے کے متعلق سنن ابو داؤد کی حدیثِ پاک میں ہے : ”عن سعد بن عبادۃ انہ قال : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اِن ام سعد ماتت ، فایّ الصدقۃ افضل ؟ قال : الماء ، قال : فحفر بیرا و قال : ھذہ لام سعد “ ترجمہ : حضرت سیدنا سعد بن عُبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک سعد کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، تو کونسا صدقہ افضل ہو گا ؟ ارشاد فرمایا : پانی ۔ راوی کہتے ہیں : تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنوں کھودا اور کہا : یہ سعد کی ماں کے لیے ہے ۔

(سنن ابی داؤد ، کتاب الزکاۃ ، باب فی فضل سقی الماء ، الحدیث : 1681 ، ج1 ، ص 248 ، مطبوعہ لاھور)

رد المحتار میں ہے : ”صرح علماؤنا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا ، کذا فی الھدایۃ ، بل فی زکاۃ التاترخانیۃ عن المحیط : الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المؤمنین و المؤمنات ، لانھا تصل الیھم و لا ینقص من اجرہ شئ اھ و ھو مذھب اھل السنۃ و الجماعۃ “ ترجمہ : ہمارے علمائے کرام نے دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے باب میں اس بات کو صاف بیان کیا ہے کہ انسان کے لیے اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے کو بخشنا جائز ہے ، (چاہے وہ عمل) نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا اس کے علاوہ ، اسی طرح ہدایہ میں ہے ۔ بلکہ محیط کے حوالے سے فتاویٰ تاترخانیہ کی کتاب الزکوٰۃ میں ہے : نفل صدقہ کرنے والے کے لیے افضل ہے کہ تمام مسلمان مَردوں اور مسلمان عورتوں کی نیت کر لے ، کیونکہ وہ انہیں پہنچتا ہے اور اس کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ، اھ اور یہ اہلِ سنت و جماعت کا مذہب ہے ۔

(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3 ، ص180 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:” اموات کو ایصالِ ثواب قطعاً مستحب ۔ رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ (جو اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے ، تو چاہیے کہ اسے نفع پہنچائے)۔“

(فتاوٰی رضویہ ، ج9 ، ص604 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    اس سوال کہ ”فاتحہ وغیرہ میں اکثر لوگ گھی کے چراغ، کپڑے ، جوتی وغیرہ رکھتے ہیں، یہ اشیاء رکھنا کیساہے؟“کے جواب میں سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:” کپڑا، جوتے یا جو چیز مسکین کو نفع دینے والی مسکین کی نیت سے رکھیں ، کوئی حرج نہیں ، ثواب ہے، مگر فاتحہ کے وقت گھی کا چراغ جلانافضول ہے، اور بعض اوقات داخلِ اسراف ہوگا، اس سے احترازچاہیے ۔ “

(فتاوٰی رضویہ ، ج9 ، ص616 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    نوٹ : میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی دو صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ کوئی بالغ وارث اپنے مال سے کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور دوسری یہ کہ ترکہ یعنی میت کے چھوڑے ہوئے مال سے صدقہ کرے ۔ اس کی اجازت اُسی صورت میں ہے کہ جب سارے ورثا بالغ ہوں اور وہ سب مالِ میت سے صدقہ کرنے کی اجازت دیں ، اگر ایک بھی وارث نابالغ ہو یا ورثا اپنے حصے سے صدقہ کرنے کی اجازت نہ دیں ، تو پھر میت کے مال میں سے صدقہ کرنے کی اجازت نہیں بلکہ جو بالغ وارث صدقہ کرنا چاہے ، وہ اپنے حصے ہی سے صدقہ کرے گا ۔

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مالِ وراثت سے کھانا کھلانے کے متعلق فرماتے ہیں:”غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یا اور بچہ نابالغ ہوتا ہے ، یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے ، نہ ان سے اس کا اذن لیاجاتا ہے ، جب تو یہ امر سخت حرامِ شدید پر متضمن ہوتا ہے  مالِ غیر میں بے اذنِ غیر تصرف خود ناجائز ہے  خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے ہے ، نہ اس کے باپ ، نہ اس کے وصی کو ۔ ہاں  اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں ، توحرج نہیں بلکہ خوب ہے ، بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مالِ خاص سے کرے یا ترکہ سے کریں ، تو سب وارث موجود و بالغ و راضی ہوں ۔ملخصا“

 (فتاویٰ رضویہ ، ج9 ، ص664۔665 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”تیجہ ، دسواں ، چالیسواں ، ششماہی ، برسی کے مصارف میں بھی یہی تفصیل ہے کہ اپنے مال سے جو چاہے ، خرچ کرے اور میّت کو ثواب پہنچائے اور میّت کے مال سے یہ مصارف اُسی وقت کيے جائیں کہ سب وارث بالغ ہوں اور سب کی اجازت ہو ، ورنہ نہیں ، مگر جو بالغ ہو اپنے حصہ سے کر سکتا ہے ۔ “

(بھارِ شریعت ، حصہ4 ، ج1 ، ص822 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم