نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نام مبارک کے ساتھ (Peace be upon him)یا مختصر(P.B.U.H)لکھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6060

تاریخ اجراء:02رجب المرجب1440ھ10مارچ 2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام اگر انگلش میں لکھیں، تو کیا درود وسلام کی جگہ Peace be upon him لکھنا درست ہے؟ کیا یہ الفاظ درود و سلام کی جگہ کافی ہوں گے؟ نیز اگر کوئی ان کی جگہ فقط P.B.U.H لکھے، تو اس کا کیا حکم ہے؟

سائل:مولانا عاطف سلیم نقشبندی( راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورتِ مسئولہ کا جواب جاننے سے قبل تمہیداً یہ سمجھ لیجئے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نامِ نامی اسم گرامی کے ساتھ درود وسلام پڑھنا در اصل اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ان کے لیے نزولِ رحمت اور سلامتی کی دعا کرنا ہے۔ درود کا معنی مختلف اعتبارات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ رحمت، ان کے لیے استغفار اور درجات کی بلندی کی دعا کرنا ہے اور سلام بھیجنے سے مراد ہر نقصان سے سلامتی طلب کرنا ہے۔

    علامہ سیدی عبد الغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ حدیقۃ الندیہ میں فرماتے ہیں:’’(والصلوۃ) وھی من اللہ الرحمۃ ومن الملائکۃ الاستغفار۔۔۔ ومن المؤمنین دعاءلہ ببعثہ المقام المحمود ۔۔۔ (والسلام) ای الدعاء بالسلامۃ من کل قدح ونقصان او ھو مصدر بمعنی سلمہ اللہ ای جعلہ سالماً‘‘ ترجمہ: درود بھیجنے کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف ہو، تو اس کا معنی رحمت نازل کرنا ہے ، ملائکہ کی طرف ہو،تواستغفار کرنا اور مؤمنین کی طرف ہو، تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام کےلئے مقامِ محمود پر مبعوث ہونے کی دعا مانگنا ہے۔ اور سلام سے مراد ہر عیب و نقصان سے سلامتی کی دعا کرنا یا بطورِ مصدر یہ معنی ہے کہ اللہ انہیں سلامت رکھے ۔ ‘‘

(الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ، جلد 1، صفحہ 7 تا 9، مطبوعہ استنبول، ترکی)

    اس تفصیل کے بعد Peace be upon him کو دیکھا جائے، تو اِس کا معنی  ہے : ’’اُن پر امن ہو‘‘ اس سے یہ بات تو واضح ہوئی کہ یہ کلمات درود کے وسیع مفہوم کو ادا نہیں کر سکتے، البتہ امن و سلامتی کے معنی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ’’سلام‘‘ کے قائم مقام ہو سکتے ہیں، تو جب اِن میں امن و سلامتی کے معنی ہیں، تو نامِ نامی اسمِ گرامی کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ کی طرح انہیں لکھنا بھی درست ہے، لیکن ہمیشہ یہی کلمات لکھنے کی عادت نہیں بنا لینی چاہیے، کیونکہ اللہ عزوجل نے ہمیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر درود اور سلام دونوں بھیجنے کا حکم دیا ہے، اسی لیے علمائے کرام نے صرف درود یا صرف سلام بھیجنے کی عادت بنا لینے سے منع فرمایا ہے۔

    اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴾ ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔‘‘

(پارہ 22، سورۃ الاحزاب، آیت 56)

    حدیقۃ الندیہ میں ہے:’’جمع بین الصلوۃ والسلام امتثالاً لقولہ تعالی﴿ اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴾ وحذراً من کراھۃ افراد احدھما عن الآخر ولو خطأوقد صرحوا بانہ یکرہ ترک الصلاۃ والسلام والاقتصار علی احدھما‘‘ ترجمہ: اللہ عزوجل کے اس فرمان ﴿ اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴾ پر عمل کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کو جمع کیا جائے اور اس لئے بھی کہ ایک کو دوسرے سے الگ کر کے پڑھنا مکروہ ہے، اگرچہ بطور خطاہو۔ تحقیق علماء نے صراحت کی ہے کہ درود و سلام کو ترک کرنا یا ان میں سے ایک پر اکتفاکرنا مکروہ ہے ۔ ‘‘

(الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ، جلد 1، صفحہ 9، مطبوعہ استنبول، ترکی)

    یونہی مراۃ المناجیح میں ہے:’’درود شریف میں صلوۃ وسلام دونوں عرض کرنا چاہییں کہ قرآن کریم نے دونوں کا حکم دیا۔ صرف صلوۃ یا صرف سلام بھیجنے کی عادت ڈال لینا ممنوع ہے، اسی لئے درودِ ابراہیمی صرف نماز کے لئے ہے، کیونکہ اس میں صرف صلوۃ ہے، سلام نہیں، سلام التحیات میں ہو چکا، نماز کے علاوہ یہ درود مکمل نہیں کہ سلام سے خالی ہے ۔ ‘‘

 (مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 8، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

    یہ حکم اس صورت  میں تھا کہ جب مکمل peace be upon him لکھا جائے اور اگر اسے بھی اختصار کے ساتھ مثلاً P.B.U.Hلکھیں، تو اس کا حکم درود شریف کی جگہ فقط ’’ع، ص یا صلعم‘‘ لکھنے والا ہو گا اور یہ رموز لکھنے کے متعلق سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’یہ جہالت آج کل بہت جلد بازوں میں رائج ہے، کوئی صلعم لکھتا ہے، کوئی عم، کوئی ص اور یہ سب بیہودہ مکروہ و سخت ناپسند و موجبِ محرومی شدید ہے، اس سے بہت سخت احتراز چاہئے۔ اگر تحریر میں ہزار جگہ نامِ پاک حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آئے، ہر جگہ پورا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لکھا جائے، ہرگز ہرگز کہیں صلعم وغیرہ نہ ہو، علماء نے اس سے سخت ممانعت فرمائی ہے، یہاں تک کہ بعض کتابوں میں تو بہت اشد حکم لکھ دیا ہے ۔ ‘‘

                                                                                             (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 221، رضا فاؤنڈیشن، لاھھور)

    ایک اور مقام پہ فرمایا:’’درود شریف کی جگہ جو عوام و جہال صلعم یا ع یا م یا ص یا صللم لکھا کرتے ہیں، محض مہمل و جہالت ہے۔ القلم احدی اللسانین یعنی قلم دو زبانوں میں سے ایک ہے۔ جیسے زبان سے درود شریف کے عوض یہ مہمل کلمات کہنا درود کو ادا نہ کرے گا، یوں ہی ان مہملات کا لکھنا، درود کا کام نہ دے گا، ایسی کوتاہ قلمی سخت محرومی ہے ۔ ‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 314، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم