اولیاء سے ڈائریکٹ بلا واسطہ مدد مانگنا کیسا؟

مجیب:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-7061-b

تاریخ اجراء:22ربیع الاول1439ھ11دسمبر2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ اولیاء اللہ رحمہم اللہ  کے مزارات پرجاکربعض لوگ انہیں ڈائریکٹ مخاطب کرکے اپنی حاجات  بیان کرتے ہیں اوران سے مددمانگتے ہیں ۔ مثلاً یاولی اللہ ! میں  فلاں بیماری میں مبتلاہوں ، مجھے شفاعطاکردیں ،یاداتاصاحب ! مجھے بیٹاعطاکردیں ۔  کیا شریعت مطہرہ میں ا س امرکی اجازت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جی ہاں ! شریعت مطہرہ  کی روشنی میں اللہ عزوجل کے اولیاء کو ڈائریکٹ مخاطب کرکے اپنی حاجت  بیان کرنااوران سے مددمانگناجائزہے۔اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے مددمانگنے کے جوازپرقرآن واحادیث شاہد ہیں ۔اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:﴿  اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴾ یعنی اے مسلمانو! تمہار ا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکوۃ دیتے  ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔              

(سورۃ المائدۃ،آیت 55)

    علامہ احمد بن محمد الصاوی علیہ الرحمۃ (متوفی 1241ھ) تفسیر صاوی میں آیت﴿ وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ اِلہاً آخَرَ﴾کے تحت لکھتے ہیں:”المراد بالدعاء العبادۃ وحینئذ فلیس فی الآیۃ دلیل علی ما زعمہ الخوارج من ان الطلب من الغیر حیا او میتا شرک فانہ جھل مرکب لان سوال الغیر من حیث اجراء اللہ النفع او الضرر علی یدہ قد یکون واجبا لانہ من التمسک بالاسباب ولا ینکر الاسباب الا جحود او جھول “ ترجمہ: آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے، لہٰذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ کچھ مانگنا شرک ہے ،خارجیوں کی یہ بکواس جہل مرکب ہے ،کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع و نقصان دے، کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب ہے اور اسباب کا انکا ر نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل ۔

(تفسیر صاوی،جلد4،صفحہ1550،مطبوعہ لاھور)

    صحیح مسلم شریف وسنن ابی داود وسنن ابن ماجہ میں سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے:” كنت أبيت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتيته بوضوئه وحاجته فقال لي: «سل» فقلت: أسألك مرافقتك في الجنة. قال: «أو غير ذلك» قلت: هو ذاك. قال: «فأعني على نفسك بكثرة السجود“میں حضور پرنور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس رات کو حاضر رہتا ۔ ایک شب حضور کے لیے آب وضو وغیرہ ضروریات لایا(رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بحر رحمت جو ش میں آیا) ارشاد فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے کہ ہم تجھے عطا فرمائیں ۔ میں نے عرض کی : میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطافرمائیں ۔ فرمایا : کچھ اور؟میں نے عرض کی : میری مراد تو صرف یہی ہے ۔ فرمایا : تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجودسے ۔

(صحیح مسلم ،کتاب الصلوۃ ،جلد1،صفحہ353، دار إحياء التراث العربي،بيروت)

    احادیث میں نیک لوگوں سے ڈائریکٹ حاجات ومددمانگنے کی ترغیب موجودہے ۔ چنانچہ المعجم الکبیر کی حدیث پاک ہے : ” اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ “بھلائی اور حاجتیں ان لوگوں سے مانگوجن کے چہرےعبادت الہٰی سے روشن ہیں ۔

(المعجم الکبیر،مجاھد عن ابن عباس،جلد11،صفحہ81،مطبوعہ القاھرۃ )

    مسنداسحاق بن راہویہ،فضائل الصحابۃ لاحمدبن حنبل،مسندابی یعلی موصلی،المعجم الاوسط،الاسماء وا لصفاللبیہقی،شعب الایمان میں بھی یہ حدیث موجودہے ۔ المستدرك على الصحيحين للحاكم میں ہے:”حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اطلبوا المعروف من رحماء أمتي تعيشوا في أكنافهم “ترجمہ: میرے نرم دل امتیوں سے نیکی واحسان مانگو، ان کے ظل عنایت میں آرام کرو گے۔

                                                                         (المستدرك على الصحيحين للحاكم ،کتاب الرقاق،جلد4،صفحہ357، دار الكتب العلمية،بيروت)

    مکارم الاخلاق  للخرائطی،مسند الشہاب للقضاعی،ابن حبان،التاریخ للحاکم میں ہے:(واللفظ للاول ) اطلبوا الفضل عند الرحماء من أمتي تعيشوا في أكنافهم فإن فيهم رحمتي“ یعنی :فضل میرے رحم دل امتیوں کے پاس طلب کرو کہ ان کے سائے میں چین کرو گے کہ ان میں میری رحمت ہے۔

(المنتقى من كتاب مكارم الأخلاق ومعاليها،باب ما جاء في السخاء۔۔الخ،جلد1،صفحہ125،دار الفكر، دمشق سورية)

    امام اہلسنت اعلی حضرت امام الشاہ احمدرضاخان  علیہ رحمۃ الرحمن اس مضمون کی سترہ احادیث نقل کرنے کے بعدتحریرفرماتے ہیں : انصاف کی آنکھیں کہاں ہیں ؟ ذرا ایمان کی نگاہ سے دیکھیں یہ سولہ بلکہ سترہ حدیثیں کیسا صاف صاف واشگاف فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے نیک امتیوں سے استعانت کرنے ان سے حاجتیں مانگنے، ان سے خیر واحسان کرنے کاحکم دیا کہ وہ تمھاری حاجتیں بکشادہ پیشانی روا کریں گے، ان سے مانگو تو رزق پاؤ گے،مرادیں پاؤ گے، ان کے دامن حمایت میں چین کرو گے ان کے سایہ عنایت میں عیش اٹھاؤ گے۔یارب! مگر استعانت اور کس چیز کانام ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا صورت استعانت ہوگی، پھر حضرات اولیاء سے زیادہ کون سا امتی نیک ورحم دل ہوگا کہ ان سے استعانت شرک ٹھہرا کہ اس سے حاجتیں مانگنے کا حکم دیاجائے گا، الحمدللہ حق کا آفتاب بے پردہ وحجاب روشن ہوا۔“

(فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ317،رضافا¬ؤنڈیشن،لاھور)

    مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابان بن صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : إذا نفرت دابۃ أحد کم أو بعیرہ بفلاۃ من الأرض لا یری بھا أحدا، فلیقل: أعینونی عباد اللہ، فإنہ سیعان:ترجمہ: جب تم میں سے کسی کا جانور یا اونٹ بیابان جگہ پر بھاگ نکلے جہاں وہ کسی کو نہیں دیکھتا (جو اس کی مدد کرے ) تو وہ یہ کہے :”اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔“تو بے شک اس کی مدد کی جائے گی۔                                                                                                

(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، جلد6، صفحہ103، مطبوعہ الریاض)

    المعجم الکبیرمیں ہے:”حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”إذا أضل أحدكم شيئا أو أراد أحدكم عونا وهو بأرض ليس بها أنيس، فليقل: يا عباد الله أغيثوني، يا عباد الله أغيثوني، فإن لله عبادا لا نراهم“ ترجمہ: جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کوگم کردے یااسے مددکی حاجت ہواوروہ ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے :”اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو ! میر ی مدد کرو کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنھیں ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے ، ( وہ اس کی مدد کریں گے ۔ )

           (المعجم الكبير للطبراني ،ما أسند عتبة بن غزوان،جلد17،صفحہ 117، مطبوعہ القاهرة)

    حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:” إذا انفلتت دابة أحدكم بأرض فلاة فليناد: يا عباد الله احبسوا، يا عباد الله احبسوا، فإن لله حاضرا في الأرض سيحبسه“یعنی:جب جنگل میں جانورچھوٹ جائے تویوں نداکرے ،اے اللہ کےبندو!روک دو،اے اللہ کے بندو!روک دو،زمین پراللہ عزوجل کے کچھ بندے حاضررہتے ہیں ،وہ اس جانورکوروک دیں گے۔

                             (مسند أبي يعلى الموصلي ،جلد9،صفحہ177 ،دار المأمون للتراث ، دمشق)

    امام اہلسنت امام احمدرضا خان علیہ الرحمۃ ان تین احادیث کونقل کرنے کے بعدتحریرفرماتے ہیں :”یہ حدیثیں کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے روایت فرمائیں قدیم سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول ومعمول ومجرب ہیں ۔

(فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ318،رضافا¬ؤنڈیشن،لاھور)

    مزیداللہ عزوجل کے نیک بندوں سے ڈائریکٹ مانگنے کے حوالے سے چند بزرگان دین کے اقوال  ملاحظہ ہوں ۔ چنانچہ حضور پر نور حضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:” من استغاث بی فی کربۃ کشف عنہ و من نادانی  باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی ﷲ فی حاجۃ قضیت لہ ومن صلی رکعتین یقرا فی کل رکعۃ بعد الفاتحۃ سورۃ الاخلاص احدی عشرۃ مرۃ ثم یصلی ویسلم علی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم بعد السلام ویذکر نی ثم یخطو الی جھۃ العراق احدی عشرۃ خطوۃ ویذکر اسمی ویذکر حاجتہ فانھا تقضی باذن ﷲ تعالی“ترجمہ:جو کسی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے وہ مصیبت دور ہو اور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دفع ہو اور جو اللہ عزوجل کی طرف کسی حاجت میں مجھ سے وسیلہ کرے وہ حاجت پوری ہو اور جو دورکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں بعد فاتحہ گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھے پھرسلام پھیر کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پردرود وسلام بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر بغداد شریف کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے اور اپنی حاجت کاذکر کرے تو بیشک اللہ تعالی کے حکم سے وہ حاجت روا ہو۔

(بھجۃ الاسرار  ، ذکر فضل اصحابہ وبشراھم  ،صفحہ102، مصر )

    امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ ربانی  تحریرفرماتے ہیں:”سیدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک مرید بازار میں تشریف لیے جاتے تھے ۔ ان کے جانور کا پاؤں پھسلا،  باآواز پکارا ”یا سیدی محمد یا غمری“ادھر ابن عمر حاکمِ صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کیے لیے جاتے تھے،  ابن عمر نے فقیر کا نداء کرنا سُنا ،  پوچھا یہ سیدی محمد کون ہیں ؟ کہا :میرے شیخ، کہا: میں ذلیل بھی کہتا ہوں ، یا سیدی یا غمری لاحِظنی“اے میرے سردار! اے محمد غمری ! مجھ پر نظر عنایت کرو،  ان کا یہ کہنا ہے کہ حضرت سیّدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہ بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی،  مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصت کیا ۔

(لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار،     ترجمہ الشیخ محمد الغمری ،جلد2،صفحہ88،    مصر )   

    لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار میں ہے :”حضرت سیدی محمدشمس الدین حنفی  رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مرضِ موت میں فرماتے تھے”من کانت حاجۃ فلیأت الی قبری و یطلب حاجتہ اقضھا لہ فانّ مابینی وبینکم غیر ذراعٍ من تراب وکل رجل یحجبہ عن اصحٰبہ ذراع من تراب فلیس برجل“یعنی :جسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے میں رَوا فرمادوں گا کہ مجھ میں تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کردے ، وہ مرد کا ہے کا۔

(لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ       سیدنا ومولٰنا شمس الدین الحنفی، جلد2،صفحہ96،    مصر)

    شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری کے فتاوی میں ہے :”سئل عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان و نحو ذالک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اغاثۃ بعد موتھم ام لا ؟فاجاب بما نصہ ان الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء الصالحین جائزۃ وللانبیاء والرسل والاولیاء والصالحین اغاثۃ بعد موتھم “یعنی ان سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء ومرسلین واولیاء و صالحین سے فریاد کرتے اور یاشیخ فلاں (یارسول اللہ ،یاعلی ،یا شیخ عبدالقادر جیلانی )اوران کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟اوراولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ بے شک انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں ۔

(فتاوی رملی ،مسائل شتی ،تفضیل البشر علی الملائکہ، جلد4،صفحہ382،مکتبۃ الاسلامیہ)

    مسلمان اللہ عزوجل کے نیک بندوں سےجو مددمانگتے ہیں ، وہ ان کوواسطہ  وصول فیض اوروسیلہ قضائے حاجات سمجھتے ہیں  کہ اولیاء اللہ مانگنے والے اوررب عزوجل کے درمیان  واسطہ ہیں ، وہ اللہ عزوجل کی مددکے مظہرہیں اوریہ قطعایقینادرست ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں ﴿ وابتغوا الیہ الوسیلۃ ﴾ یعنی اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔کاحکم فرمایاہے ۔حقیقی استعانت صرف اللہ عزوجل  کے ساتھ خاص ہےکہ وہ قادربالذات ومالک مستقل وغنی بے نیازہے ۔استعانت حقیقیہ کااعتقاداگرکوئی کسی ولی کے لیے رکھے ، تویہ شرک ہے ۔بحمداللہ کوئی مسلمان بھی اس معنی کااعتقادکسی ولی کے لیے نہیں رکھتا ۔ چنانچہ امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : ” استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات ومالک مستقل وغنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتاہے، اس معنی کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا قصد کرتا ہے بلکہ واسطہ وصول فیض وذریعہ ووسیلہ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعا حق ہے۔ خود رب العزت تبارک وتعالی نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا: ﴿ وابتغوا الیہ الوسیلۃ ﴾  اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔بایں معنی استعانت بالغیر ہر گز اس سے حصرایاک نستعین کے منافی نہیں ۔

(فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ303،رضافاونڈیشن،لاھور)

    فتاوی رضویہ میں ہے:”استعانت بالغیروہی ناجائزہے کہ اس غیر کو مظہر عون الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے، اور اگر مظہر عون الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتاہے تو شرک وحرمت بالائے طاق، مقام معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے۔“

                                                                                                 ( فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ325،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    اولیاء سے استعانت کااہل ایمان کیامعنی مرادلیتے ہیں ؟ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے  سیدی اعلی حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ الرحمن فرماتے ہیں:” اہل استعانت سے پوچھو تو کہ تم انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلوۃ والثنا کو عیاذا باللہ خدا یا خدا کا ہمسر یا قادر بالذات یا معین مستقل جانتے ہو یا اللہ عزوجل کے مقبول بندے اس کی سرکار میں عزت ووجاہت والے اس کے حکم سے اس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو؟ دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتاہے ۔ اما م علامہ خاتمۃ المجتہدین تقی الملۃ والدین فقیہ محدث ناصر السنۃ ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رضی اللہ تعالی عنہ کتاب مستطاب ”شفاء السقام “ میں استمداد واستعانت کو بہت احادیث صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں :” لیس المراد نسبۃ النبي صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم إلی الخلق والاستقلال بالأفعال ھذا لا یقصدہ مسلم فصرف الکلام إلیہ ومنعہ من باب التلبیس في الدین والتشویش علی عوام الموحدین“یعنی: نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مددمانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور انور کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں ۔ یہ تو اس معنی پر کلام کو ڈھال کر استعانت سے منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اور عوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔فقیہ محدث علامہ محقق عارف باللہ امام ابن حجر مکی قدس سرہ المکی کتاب افادت نصاب ”جوہر منظم“ میں حدیثوں سے استعانت کا ثبوت دے کر فرماتے ہیں : فالتوجہ والاستغاثۃ بہ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم بغیرہ لیس لھما معنی في قلوب المسلمین غیر ذلک ولا یقصد بھما أحد منھم سواہ فمن لم ینشرح صدرہ لذلک فلیبکِ علی نفسہ نسأل ﷲ العافیۃ والمستغاث بہ في الحقیقۃ ھو ﷲ، والنبي صلی ﷲ تعالی علیہ واسطۃ بینہ وبین المستغیث فھو سبحانہ مستغاث بہ والغوث منہ خلقاً وإیجاداً والنبي صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم مستغاث والغوث منہ سبباً وکسباً“یعنی :رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یا حضور اقدس کے سوا اور انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلاۃ والثناء کی طرف توجہ اور ان سے فریاد کے یہی معنی مسلمانوں کے دل میں ہیں اس کے سوا کوئی مسلمان اور معنی نہیں سمجھتا  ، نہ قصد کرتا ہے تو جس کا دل اسے قبول نہ کرے و?