12 Rabi ul Awwal Ko Khushi Manani Chahiye Ya Gham?

12 ربیع الاول کو خوشی منانی چاہیے یاغم ؟

مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2037

تاریخ اجراء: 16ربیع الاول1445 ھ/03اکتوبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بارہ  ربیع الاول خوشی کا  دن ہے یا  غم کا  دن؟خوشی منانی چاہیے یا غم

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تاریخ ولا دت کے متعلق زیادہ مشہور،اکثریت کاقول اور ماخوذ و معتبر یہی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔

   چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”اس میں اقوال بہت مختلف ہیں: دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس۔ سات قول ہیں، مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے، مکۂ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں۔کما فی المواھب والمدارج( جیسا کہ مواہب لدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے )اور خاص اس مکان جنت نشان میں اسی تاریخ میلاد مقدس ہوتی ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ج 26 ، ص 411 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول ہی کو مشہور اور عرب و عجم کے مسلمانوں میں معمول بہ ہے ، تو اس دن خوشی کا اظہار کرنا اور میلاد کی محافل منعقد کرنا، نہ صرف جائز، بلکہ محبوب و مستحسن ہے،اس دن ایک قول کے مطابق نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کا دن ہونے کی وجہ سے بھی ولادت کی خوشی میں کوئی فرق نہیں آئے گا کہ اسلام میں سوگ تومرنے والے کی بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن اور اس کے علاوہ باقی اعزہ و اقرباء وغیرہ کے لیے صرف تین دن تک جائز ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں، اب اتنا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے ہمارے لیے سوگ جائز نہیں،لیکن  خوشی منانے کے لیے کوئی حدبندی نہیں ،چاہے کتناہی عرصہ گزرچکاہوخوشی کرسکتے ہیں ،جیساکہ حضرت موسی علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام اوران کی قوم کودس محرم کوفرعون سے چھٹکاراملاتوحضورعلیہ الصلوۃ والسلام نےاتنے عرصے کے بعد اس شکرانے میں روزہ رکھ کریہ دن منایا۔

   سوگ کے حوالے سے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں:”سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ و الیوم الاٰخر أن تحد علی میت فوق ثلٰث الا علی زوج فانھا تحد علیہ أربعۃ أشھر و عشرا“ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، مگر جس کا شوہر فوت ہو جائے، وہ اس پر چار ماہ اور دس دن سوگ کرے۔(بخاری شریف ، ج 1، ص 171 ، مطبوعہ: کراچی)

   دس محرم کے روزے کے حوالے سے صحیح بخاری میں ہے”عن ابن عباس رضي الله عنهما، أن النبي صلى الله عليه وسلم، لما قدم المدينة، وجدهم يصومون يوما، يعني عاشوراء، فقالوا: هذا يوم عظيم، وهو يوم نجى الله فيه موسى، وأغرق آل فرعون، فصام موسى شكرا لله، فقال «أنا أولى بموسى منهم» فصامه وأمر بصيامه“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے، یہود کو عاشورا کے دن روزہ دار پایا، ارشاد فرمایا: یہ  کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ عرض کی، یہ عظمت والا دن ہے کہ اس میں موسیٰ علیہ الصلاۃ و السّلام اور اُن کی قوم کو اﷲ تعالیٰ نے نجات دی اور فرعون اور اُس کی قوم کو ڈبو دیا، لہٰذا موسیٰ علیہ السّلام نے بطور شکر اُس دن کا روزہ رکھا ۔ ارشاد فرمایا: موسیٰ علیہ الصلاۃ والسّلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمھارے ہم زیادہ حق دار اور زیادہ قریب ہیں تو حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم)  نے خود بھی روزہ رکھا اور اُس کا حکم بھی فرمایا۔(صحیح بخاری،حدیث 3397،ج 4،ص 153،دار طوق النجاۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم