9 10 Muharram ul Haram Ko Pani Ki Sabeel lagana Kaisa ?

9، 10محرم الحرام کو پانی کی سبیل لگانا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک شخص نے کہا کہ 9، 10محرم الحرام کو پانی کی سبیل لگانا جائز نہیں، آپ سے عرض ہے کہ ہمیں اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا 9، 10محرم الحرام کو پانی کی سبیل لگانا جائز ہےیا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نو یا دس محرم الحرام کو خالص اللہ پاک کی رضا اور شہیدانِ کربلا رضی اللہُ تعالیٰ عنہم کی ارواحِ طیبہ کو ثواب پہنچانے کی نیت سے مسلمانوں کے لیے پانی کی سبیل لگانا بلا شبہ جائز،مستحب اور ثواب کا کام ہے، حدیث پاک میں پانی کو افضل صدقہ کہا گیا ہے،نیز پانی پلانے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔

   پانی افضل صدقہ ہے، جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے:”عن سعد بن عبادة انه قال: يا رسول الله، ان ام سعد ماتت، فاي الصدقة افضل؟ قال: الماء، قال: فحفر بئرا، وقال: هذه لام سعد“ ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! اُمِّ سعد (میری ماں) انتقال کر گئیں تو کون سا صدقہ ان کے لیے بہتر ہے؟ فرمایا ”پانی“، تو انہوں نے کنواں کھدوایا اور کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔ (سنن ابو داؤد، 2/130)

   مذکورہ بالا حدیث کے متعلق مراٰۃ المناجیح میں ہے: ”بعض لوگ سبیلیں لگاتے ہیں، عام مسلمان ختم فاتحہ وغیرہ میں دوسری چیزوں کے ساتھ پانی بھی رکھ دیتے ہیں، ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے، کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ پانی کی خیرات بہتر ہے۔“(مراٰۃ المناجیح، 3/138)

   پانی پلانے سے گناہ معاف ہوتے ہیں، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:”حدثنا انس بن مالك قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم:اذا كثرت ذنوبك فاسق الماء على الماء تتناثر كما يتناثر الورق من الشجر في الريح العاصف“ ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا:جب تیرے گناہ زیادہ ہو جائیں، تو پانی پر پانی پلاؤ، گناہ جھڑ جائیں گے جیسے آندھی میں درخت کے پتے گرتے ہیں۔(تاریخ بغداد، 6/403)

   سبیل لگانے میں ایصالِ ثواب کی نیت ہو، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”نیت ایصالِ ثواب کی ہو اور ریا وغیرہ کو دخل نہ ہو، تو اس (یعنی پانی پلانے) کے جواز میں کوئی شبہہ نہیں، شربت کریں اور عرض کریں کہ الٰہی! یہ شربت ترویح رُوح حضرت امام (یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو راحت پہنچانے) کے لیے کیا ہے، اس کا ثواب انھیں پہنچا اورساتھ فاتحہ وغیرہ پڑھیں، تو اور افضل، پھر مسلمانوں کو پلائیں۔(فتاویٰ رضویہ، 9/601)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم