Charaghan Dekhne Ke Liye Aurton Ke Aane Ka Ihtimal Ho To Charaghan Karna Chahiye Ya Nahi?

چراغاں دیکھنے کے لیے عورتوں کے آنے کااحتمال ہو، تو چراغاں کرنا چاہیے یا نہیں؟

مجیب: ابو رجا محمد نور المصطفی عطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: 8085- Lar

تاریخ اجراء:       07  ربیع الآخر 1440 ھ/  15 دسمبر 2018 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ماہ ربیع الاول میں  میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے سلسلے میں جو گلیاں اور بازار سجائے جاتے  ہیں اور لائٹنگ کی جاتی ہے۔ عورتیں اسے دیکھنے آتی ہیں ، جس سے بدنگاہی کا احتمال ہوتا ہے ، لہٰذا اس مسئلے کی وجہ سے سجاوٹ چھوڑ دی جائے یا جاری رکھی جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سید المرسلین، خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے میلاد مبارک کے مہینے ربیع الاول میں مسلمان بالخصوص اللہ تعالیٰ کے اس عمیم و عظیم فضل و رحمت کے حاصل ہونے پر بطور تشکراظہار مسرت و تحدیث نعمت کے لیے مروّجہ جائز طریقے جیسے: لائٹنگ کرنا اور پھولوں کی لڑیوں وغیرہ سے گلی محلے سجانا وغیرہ اختیار کرتے  ہیں  ، یہ امور بلاشبہ شرعاً جائز و مستحسن ہیں ، جس پر قرآن و سنت اور علمائے امت سے کثیر دلائل موجود ہیں۔ رہی بات ان چند غیر شرعی باتوں کی کہ جواس معاملے میں بعض جاہل اور ناسمجھ لوگوں کی طرف سے صادر ہوتی ہیں، جن میں سے بعض جگہوں پر بے پردہ عورتوں کا سجاوٹ دیکھنے آنا ہے، تو اس بِنا پر وہ عمل کہ شریعت کی نظر میں مستحسن و خوب ہے ، ہر گز ممنوع و ناجائز نہ ہو جائے گا،بلکہ وہ اچھا عمل باقی رکھتے ہوئے اس میں پیش آنے والی خرابی اور پیدا ہوجانے والی خامی دور کی جائے گی۔ جیسا کہ ایک ادنی فہم رکھنے والا شخص بھی اتنی سمجھ رکھتا ہے کہ مثلا:شادی جو یقیناً ایک اچھا فعل ہے، اسے لوگوں کی جاہلانہ غیر شرعی رسوم کی وجہ سے حرام قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس میں پائی جانے والی ناجائز باتیں ہی ختم کرنے کا کہا جائے گا۔اسی طرح عام فہم انداز میں بات سمجھانے کے     لیے     مثال دی جاتی ہے کہ کپڑے پر نجاست لگ جائے، تو کپڑا نہیں پھاڑا جائے گا، بلکہ صرف نجاست دور کی جائے  گی اور بہت موٹی عقل والے کو بھی یہ موٹی سی مثال ضرور سمجھ آسکتی ہے کہ ناک پر مکھی بیٹھتی ہو ، تو خواہ کتنی ہی بار ایسا کرنا پڑے ، مکھی ہی اڑائی جائے گی، ناک ہر گز نہیں کاٹیں گے ، لہٰذا سوال میں مذکورہ صورت میں بھی  ان عورتوں کے وہاں آنے کے سد باب کے ليے ممکنہ ضروری اقدامات کيے جائیں اور اپنا یہ اچھا عمل جاری رکھتے ہوئے اسے حتی الامکان غیر شرعی باتوں سے بچایا جائے۔

   ایک موقع پر عورتوں مردوں کا اختلاط ہونے پر نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے عورتوں کو مردوں سے پیچھے اور ایک سائڈ پر رہ  کر مردوں سے اختلاط سے منع فرما دیا۔ چنانچہ ابوداؤدشریف میں ہے: ”عن حمزۃ بن أبی أسید الأنصاری عن أبیہ، أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقول: وھو خارج من المسجد فاختلط الرجال مع النساء فی الطریق، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للنساء : استأخرن، فإنہ لیس لکن أن تحققن الطریق علیکن بحافات الطریق فکانت المرأۃ تلتصق بالجدار حتی إن ثوبها لیتعلق بالجدار من لصوقها بہ یعنی روایت ہے حضرت ابواُسید انصاری سے ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا آپ مسجد سے نکل رہے تھے، تو راستےمیں مردوں  اور عورتوں کا اختلاط ہو گیا، تو عورتوں سے فرمایا: تم پیچھے رہو تمہیں یہ درست نہیں بیچ راستے میں چلو، تم راستے  کے کنارے اختیار کرو،پھرعورت دیواروں سے مل کر چلتی تھی، حتی کہ اس کا کپڑا دیوار سےاُلجھتا تھا۔(سنن ابی داؤد، جلد4، صفحہ369،مکتبہ عصریہ،بیروت)

   امیراہلسنت علامہ مولاناابوالبلال محمدالیاس عطارقادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:”چَراغاں دیکھنے کے لیے عورتوں کااَجنبی مردوں میں بے پردہ نکلناحرام وشَرَمناک،نیزباپردہ عورتوں کابھی مُروَّجہ اندازمیں مَردوں میں اختلاط(یعنی خَلط مَلط ہونا)انتہائی افسوس ناک ہے۔“(صبح بہاراں، صفحہ23، مکتبۃالمدینہ،کراچی)

   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کے والد گرامی رئیس المتکلمین، خاتم المحققین، علامہ مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اپنی کتابِ لاجواب "اصول الرشاد" کے پانچویں قاعدےکے بیان میں فرماتے ہیں: ”فعلِ حسن مقارنت و مجاورتِ فعل قبیح سے، اگر حسن اس کا اس کے عدم سے مشروط نہیں، مذموم و متروک نہیں ہو جاتا، حدیثِ ولیمہ میں (جس میں طعامِ ولیمہ کو شرّ الطعام فرمایا) قبولِ ضیافت کی تاکید اور انکار پر اعتراضِ شدید ہے۔ رد المحتار میں در باب زیارت قبور لکھا ہے: قال ابن حجر فی فتاواہ: و لا تترک لما یحصل عندہ من المنکرات و المفاسد؛ لأن القربۃ لا تترک لمثل ذٰلک، بل علی الإنسان فعلھا و إنکار البدع بل و إزالتھا إن أمکن. قلت: یؤیدہ ما مر من عدم ترک اتباع الجنازۃ، و إن کان معھا نساء نائحات، انتھی ملخصاً (یعنی امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فتاوی میں فرمایا: اچھا عمل اس کے ساتھ ناجائز و خرابی والی باتیں واقع ہونے کی وجہ سے نہیں چھوڑا جائے گا کہ ایسی باتوں کے سبب نیکی نہیں چھوڑی جاتی ،بلکہ انسان کے اوپر لازم ہے کہ وہ یہ کام کرے اور اس میں درپیش آنےوالی بدعتوں کا انکار بلکہ ممکن ہو تو ازالہ کرے۔ میں کہتا ہوں: ان کے اس قول کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو پیچھے گزری کہ جنازے کے ساتھ جانا ترک نہ کیا جائے ،اگرچہ اس کے ساتھ نوحہ کرنے والی عورتیں ہوں۔ امام ابن حجر کی بات تلخیص کے طور پر مکمل ہوئی)۔“(اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد، صفحہ146، مکتبۃ برکات المدینہ، کراچی)

 

 
   مزید فرمایا: ”اصل اس باب میں یہ ہے کہ مستحسن کو مستحسن جانے اور قبیح کی ممانعت کرے۔اگر قادر نہ ہو، اسے مکروہ سمجھے۔ ہاں اگر عوام کسی مستحسن کے ساتھ ارتکاب امرِ ناجائز  کا لازم ٹھہرا لیں اور بدون اس کے اصلِ مستحسن کو عمل ہی میں نہ لائیں،

    تو بنظرِ مصلحت حکّامِ شرع کو اصل کی ممانعت و مزاحمت پہنچتی ہے۔ اسی نظر سے بعض علما نے ایسے افعال کی ممانعت کی ہے،لیکن چونکہ اس زمانہ میں خلق کی امور خیر کی طرف رغبت اور دین کی طرف توجہ نہیں اور مسائل کی تحقیق سے نفرتِ کلّی رکھتے ہیں، نہ کسی سے دریافت کریں، نہ کسی کے کہنے پر عمل کرتے ہیں۔ و لہذا اکثر افعال خرابیوں کے ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کو چھوڑ دینے سے باک نہیں رکھتے۔ اب اصل کی ممانعت ہی خلاف مصلحت ہے۔ و لہذا علمائے دین نے ایسے امور کی ممانعت سے بھی (کہ فی نفسہ خیر اور بسبب بعض عوارضِ خارجیہ کے مکروہ ہو گئے) منع فرمایا، کما مر من الدر المختار: أما العوام فلا یمنعون من تکبیر و لا تنفل أصلاً، لقلۃ رغبتھم فی الخیرات (یعنی جیسا کہ در مختار کے حوالے سے گزرا کہ نیک کاموں میں رغبت کی کمی واقع ہونے کے سبب اب عوام کو تکبیریں کہنے اور نفل ادا کرنے سے بالکل منع نہ کریں گے) اور اسی نظر سے بحرالرائق میں لکھا: کسالی القوم إذا صلوا الفجر وقت الطلوع لا ینکر علیھم، لأنھم لو منعوا یترکونھا أصلاً، و لو صلوا یجوز عند أصحاب الحدیث، و أداء الجائز عند البعض أولی من الترک أصلاً (یعنی قوم کے سست لوگ اگر طلوع آفتاب کے وقت نماز فجر ادا کریں ،تو انہیں منع نہ کیا جائے، اس لئے کہ اگر انہیں منع کیا گیا، تو وہ بالکل ہی چھوڑ دیں، جبکہ اگر پڑھیں تو محدثین کے نزدیک جائز ہے، تو بعض کے نزدیک جائز بات پر عمل بالکل چھوڑ دینے سے بہتر ہے)۔ دیکھو ان اطبائے قلوب نے خلق کے مرضِ باطنی کو کس طرح تشخیص اور مناسب مرض کے کیسا عمدہ علاج تجویزکیا، جزاھم اللہ أحسن الجزاء، برخلاف اس کے نئے مذہب کے علما مسائل میں ہر طرح کی شدت کرتے ہیں اور مستحسنات ائمہ دین، مستحباتِ شرعِ متین کو شرک و بدعت ٹھہراتے ہیں۔ تمام ہمت ان حضرات کی نیک کاموں کے مٹانے میں (جو فی الجملہ رونقِ اسلام کے باعث ہیں) مصروف ہے۔“(اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد، صفحہ148، مکتبۃ برکات المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم