Fout Shuda Ka Wasila Pesh Karna Kaisa Hai?

فوت شدہ کا وسیلہ پیش کرنا کیسا ہے؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-6841

تاریخ اجراء: 08ربیع الاول1443ھ/15اکتوبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس  مسئلے  کے بارےمیں  کہ  زید کہتا ہے کہ  زندوں سے  توسل جائز ہے، لیکن فوت شدہ سے توسل کی اجازت نہیں اور وہ اس پر وہ  روایت بطورِ دلیل پیش کرتا ہے کہ جس میں حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ  نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا: اے اللہ ! ہم  تیرے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے وسیلے سے  دعا کیا کرتے تھے، تو تُو بارش نازل فرماتا تھا، اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا(حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ) کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، ہم پہ بارش نازل فرما۔پھر ان پر بارش ہو جاتی۔(بخاری)سوال یہ ہے کہ (1)زید کا قول درست ہے یا نہیں؟(2) اگر درست نہیں، تو اس کی دلیل کا کیا جواب ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1) زید کا قول درست نہیں ہے،کیونکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنت و جماعت کایہ عقیدہ ہے کہ جس طرح دنیا میں موجود کسی زندہ بزرگ (نبی، ولی وغیرہ) سے توسل جائز ہے، اسی طرح ان کی حیاتِ ظاہری کے بعدبھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا وسیلہ پیش کرنا ،جائز ہے۔ذیل میں وصالِ ظاہری کے بعد توسل کےجواز پر چند دلائل پیش خدمت ہیں:

   پہلی دلیل: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو  اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔(پارہ6، سورۃ المائدہ، آیت35)

   اس آیتِ مبارکہ  کے تحت توسل پر تفصیلی کلام مع دلائل ذکر کرنے کے بعد علامہ محمود آلوسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”و بعد ھذا کلہ انا  لااری باسا فی التوسل الی اللہ بجاہ النبی صلی اللہ علیہ و سلم عند اللہ تعالیٰ حیا و میتا “ترجمہ :ان تمام دلائل کے بعد میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم   کی وجاہت کے توسل میں حرج نہیں دیکھتا، چاہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے  ظاہری حیات کے ساتھ جلوہ فرما ہونے کے وقت ہو یا وصال ظاہری کے بعد ہو۔(تفسیر روح المعانی، ج3،ص297،تحت ھذہ الآیۃ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت)

   دوسری دلیل:  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا﴾ترجمہ کنزالایمان:’’اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں ،تو اے محبوب !تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے، تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔‘‘ (پارہ5،سورۃ النساء، آیت64)

   اس آیت مبارکہ کے ضمن میں تفسیر ثعلبی ، جلد3،صفحہ339،الحاوی للفتاوی، جلد2،صفحہ315 پر نیز امام قرطبی علیہ الرحمۃ  نے”الجامع لاحکام القرآن“ میں  ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ  سیدنا  علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں:” قدم علينا أعرابی بعد ما دفنا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم بثلاثة أيام  فرمى بنفسه على قبر رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وحثا على رأسه من ترابه  فقال : قلت يا رسول اللہ فسمعنا قولك  ووعيت عن اللہ فوعينا عنك  وكان فيما أنزل اللہ عليك ﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ الآية  وقد ظلمت نفسی وجئتك  تستغفر لی فنودی من القبر انہ قد غفر لک “ترجمہ:رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کےتین دن  بعد ایک اعرابی حاضر ہوا اور  وہ قبر انور سے لپٹ کر اس کی خاک اپنے سر پر ڈالنے لگا، پھر اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کا قول مبارک سنا اور جو آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد کیا، وہ ہم نے آپ سے یاد کیا اور جو آپ پر نازل ہوا، اس میں یہ فرمان ہے:﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ۔۔۔الایۃ﴾یعنی اور  جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں الخ اور تحقیق میں نے اپنی جان پہ ظلم کیا اور آپ کی بارگاہ میں حاضرا ہوا ہوں کہ آپ میرے لیے استغفار فرمائیں، تو قبر انور سے آواز آئی  کہ بیشک تجھے بخش دیا گیا ہے۔(الجامع لاحکام القرآن، ج5، ص265،دار عالم الکتب، الریاض)

   تیسری دلیل: حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی تدفین کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے دعا فرماتے ہوئے اپنا  اور گزشتہ تمام  انبیائے کرام علیہم السلام کا وسیلہ پیش فرمایا۔چنانچہ  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اغفر لامی فاطمۃ بنت اسد و لقنھا حجتھا  و وسع علیھا مدخلھا بحق نبیک و  الانبیاء الذین من قبلی  فانک ارحمالراحمین“ترجمہ:اے اللہ ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما، اس کی حجت اسے سکھا دے اور اپنے نبی کے توسل اور مجھ سے گزشتہ انبیائے کرام کے توسل سے اس کی قبر کو وسیع فرما دے۔بیشک تورحم کرنے والوں سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔(المعجم الکبیر،ج24،ص351، رقم الحدیث871،مطبوعہ القاھرۃ)

   اس جیسے دلائل کے پیشِ نظر شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ”جذب القلوب“ میں فرماتے ہیں:” توسل بانبیائے دیگر  صلوات اللہ علیھم اجمعین بعد از وفات جائز است بسید انبیاء علیہ افضل الصلوٰۃ و اکملھا بطریق اولیٰ جائز باشد“ترجمہ: دیگر انبیائے کرام علیہم السلام سے بعد از وصال توسل جائز ہے، تو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔(جذب القلوب، فارسی ،ص220،مطبوعہ لکھنؤ)

   چوتھی دلیل: دلائل النبوۃ للبیہقی، ج6،ص167 تا 168،الخصائص الکبریٰ جلد2،صفحہ347 اورالمعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:(واللفظ للطبرانی):” أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضی اللہ عنه في حاجة له فكان عثمان لا يلتفت إليه ولا ينظر فی حاجته فلقی ابن حنيف فشكى ذلك إليه فقال له عثمان بن حنيف: ائت الميضأة فتوضأ ثم ائت المسجد فصل فيه ركعتين ثم قل: اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى اللہ عليه وسلم نبی الرحمة يا محمد إنی أتوجه بك إلى ربی فتقضی لی حاجتی وتذكر حاجتك  ورح حتى أروح معك فانطلق الرجل فصنع ما قال له ثم أتى باب عثمان بن عفان رضي اللہ عنه فجاء البواب حتى أخذ بيده فأدخله على عثمان بن عفان رضي اللہ عنه فأجلسه معه على الطنفسة فقال: حاجتك؟ فذكر حاجته وقضاها له ثم قال له: ما ذكرت حاجتك حتى كان الساعة وقال: ما كانت لك من حاجة فأذكرها ثم إن الرجل خرج من عنده فلقی عثمان بن حنيف فقال له: جزاك اللہ خيرا ما كان ينظر فی حاجتی ولا يلتفت إلی حتى كلمته فی فقال عثمان بن حنيف: واللہ ما كلمتہ ولكنی شهدت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وأتاه ضرير فشكى إليه ذهاب بصره فقال له النبی صلى اللہ عليه وسلم: فتصبر فقال: يا رسول اللہ، ليس لي قائد وقد شق علي فقال النبی صلى اللہ عليه وسلم: ائت الميضأة فتوضأثم صل ركعتين ثم ادع بهذه الدعوات قال ابن حنيف: فواللہ ما تفرقنا وطال بنا الحديث حتى دخل علينا الرجل كأنه لم يكن به ضر قط “ترجمہ:ایک شخص اپنی کسی حاجت کے لیے حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی بارگاہ کے چکر لگا رہا تھا،امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ اس کی طرف  نہ التفات فرماتے، نہ اس کی حاجت کی طرف نظر فرما رہے تھے ، تو  وہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا، اس نے اپنے معاملے کی ان سے شکایت کی، تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اسےفرمایا:وضو کرو ، پھر مسجد جا کر دو رکعتیں نماز پڑھو پھر یوں کہو: اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف  تیرےرحمت والے  نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں ۔یا رسول اللہ ! میں آپ کے وسیلے سے اپنے  رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت پوری فرمائے۔ اس کے بعد اپنی حاجت کا ذکر کرنا  اور پھر شام کو میرے پاس آنا کہ میں بھی تیرے ساتھ چلوں۔پس وہ شخص گیا اور اس نے یوں ہی کیا اور پھروہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دربار پر حاضر ہوا، تو دربان آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا ، امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ساتھ مسند پر بٹھا لیا اور فرمایا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے اپنی حاجت بیان کی اورامیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اس کی حاجت پوری فرمائی  اور فرمایا کہ اتنے دنوں میں اپنا مطلب بیان کیاپھر فرمایا کہ جو حاجت پیش آئے ہمارے پاس چلے آیا کرو ۔پھر وہ  وہاں سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہنے لگا  کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائےکہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ  میری طرف التفات نہیں فرماتے تھے اور میری حاجت کی طرف نظر نہیں فرماتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی ۔انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! میں نے تمہارے معاملے میں امیر المؤمنین سے کچھ نہیں کہا،مگر ہوا یہ کہ   میں نے دیکھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک نابینا حاضر ہوا اور اس نے اپنی  نابینائی کی شکایت کی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا: صبر کرو گے؟ اس نے عرض کی کہ مجھے لے کر چلنے والا کوئی نہیں اور  یہ مجھ پر شاق ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاسے ارشاد فرمایا کہ وضو کرو اور دو رکعت نفل پڑھ کے یہ دعا ئیں کرو۔خدا کی قسم ! ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے، ابھی باتیں کر رہے تھے کہ وہ شخص ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ گویاوہ کبھی اندھا ہی نہ تھا۔(المعجم الکبیر للطبرانی، ج9،ص30،مطبوعہ  القاھرۃ)

   امام طبرانی علیہ الرحمۃ ” المعجم الصغیر“ میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:”الحدیث صحیح“ ترجمہ:یہ حدیث صحیح ہے۔(المعجم الصغیر ، ج1، ص306، رقم الحدیث508،المکتب الاسلامی، بیروت )

   پانچویں دلیل: سنن دارمی میں ہے:” قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت:  انظروا قبر النبی صلى اللہ عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف قال: ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل“ترجمہ:مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑ گیا، تو لوگوں نے حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی بارگاہ میں  اس کی شکایت کی، تو انہوں نے فرمایا کہ  نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی طرف نظر کرو اور مزارِ پر انوار (حجرہ مبارکہ)میں ایک سوراخ ایسا بناؤ کہ قبر انور اور آسمان  کے درمیان کوئی حجاب(رکاوٹ) نہ رہے۔راوی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا کیا، تو  ہم پر اتنی بارش برسی  کہ سبزہ اُگا اور اونٹ موٹے ہو گئے۔ (سنن دارمی، ج1، ص227، رقم الحدیث93، دار المغنی، السعودیہ)

   شیخ محقق الشیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے تحت فرماتے ہیں:”والصحيح أنه استشفاع استسقوا بقبره بعده وهو فی الحقيقة استشفاع به صلى اللہ عليه وسلم“ترجمہ:صحیح یہ ہے کہ یہ شفاعت  طلب کرنا تھا کہ  انہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات کے بعد آپ کی قبر انور کے وسیلے سے پانی طلب کیا  اوردر حقیقت  یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کرنا تھا۔(لمعات التنقیح، ج9،ص519،دار النوادر، دمشق )

   زید نے بعدِ وفات توسل کے عدمِ جواز پر جس روایت کو دلیل بنایا ہےاس کا جواب ذکر کرنے سے پہلے  توسل بالعباس رضی اللہ عنہ والی روایت مع عربی  متن پیش کی جا رہی ہے تاکہ  اس کے متعلق جو کلام کیا جائے،اُسےسمجھنے میں آسانی ہو۔چنانچہ حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :”ان عمر بن الخطاب رضي اللہ عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال: اللهم إناكنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا  وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا“ترجمہ:بیشک جب قحط پڑا، تو  حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما کے وسیلے  سے بارش طلب کی ، پس آپ نے عرض کیا کہ اے اللہ ! ہم تیرے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے، تو تو بارش برساتا تھا  اور  اب ہم اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں، ہم پر باش نازل فرما۔ (صحیح بخاری، ج2، ص27،رقم الحدیث 1010، دار طوق النجاۃ، بیروت )

   اس حدیث  مبارک سے یہ استدلال کرنا قطعاً درست نہیں کہ بعدِ وصال نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا بعدِ وصال کسی بھی بزرگ کا وسیلہ پیش کرنا، جائز نہیں ہے۔اس   استدلال  کے غلط  ہونے کی وجوہات بہت واضح  ہیں:

   مذکور روایت کےکسی لفظ سے  یہ ثابت  نہیں ہوتا کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم  رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پیش کیا کہ  نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سےتوسل جائز نہیں ہے،اس لیے کہ   اس میں آپ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری  میں تو ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا  وسیلہ پیش کرتے تھے، اب نہیں کرتے/ اب نہیں کریں گے۔

   شرعی اصول یہ ہے کہ جب حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس میں بعدِ وصال توسل کےجواز یا عدمِ جواز کے متعلق کچھ  ارشاد نہیں فرمایا،بلکہ اس بارے میں خاموشی اختیار فرمائی ، تو محض اس روایت کی بنیاد پران کی طرف   اس بارے میں کچھ بھی منسوب نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ خاموش فرد کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جا سکتی۔جیسا کہ امام الحرمین ابوالمعالی عبد الملک بن عبد اللہ علیہ الرحمۃ  کی’’ البرھان فی اصول الفقہ‘‘جلد1، صفحہ 448 پر نیزشیخ صلاح الدین ابو سعید خلیل علائی علیہ الرحمۃ کی کتاب”اجمال الاصابۃ فی اقوال الصحابۃ “میں ہے:”الساكت لا ينسب اليه قول “ترجمہ:خاموش  شخص کی طرف کسی قول کی نسبت نہیں کی جا سکتی۔(اجمال الاصابۃ فی اقوال الصحابۃ للعلائی، ص23،جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی، الکویت)

   بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ  دوسری طرف  زید کے غلط مفہوم کے برخلاف روایت موجود ہے کہ  حضور  اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کیا گیا اور یہ بات حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے اس پر انکار نہیں فرمایا ، حالانکہ اگر اس میں کوئی کسی قسم کی بھی شرعی  خرابی ہوتی ، تو آپ رضی اللہ عنہ ضرور منع فرما دیتے۔چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے :” أصاب الناس قحط في زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبي صلى اللہ عليه وسلم فقال: يا رسول اللہ استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنام فقيل له:  ائت عمر فأقرئه السلام وأخبره أنكم مستقيمون و قل لہ : عليك الكيس ! عليك الكيس ! فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه“ترجمہ: حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں قحط پڑ گیا ،تو ایک شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور  پہ حاضر ہوا اور عرض  کیا کہ یا رسول اللہ !  اپنی امت کے لیے پانی طلب  فرمائیے کہ وہ  ہلاک ہو رہےہیں ، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اورارشادفرمایا: عمر کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہنا اور اسے خبر دینا کہ  بارش ہو گی  اور عمر سے کہنا کہ (مزید)دانشمندی اختیار کرو ، دانشمندی اختیار کرو۔پس وہ شخص حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا  اور  اپنےخواب کے بارے میں بتایا، تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض گزار ہوئے کہ اے میرے رب ! میں کوتاہی نہیں کرتا ، مگر جس سے عاجز آجاؤں۔(مصنف ابن ابی شیبہ، ج6،ص356، رقم الحدیث 32002، مکتبۃ الرشد، الریاض)

   علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ اس کی سند کے متعلق فرماتے ہیں:” روى  ابن أبي شيبة بإسناد صحيح “ترجمہ:ابن شیبہ نے اسے سند صحیح کے ساتھ  روایت کیا ہے۔(فتح الباری، ج2، ص495، دار المعرفۃ، بیروت)

   توسل بالعباس کی صحیح توجیہ اور اس سے صحیح استدلال کیا ہے؟

   حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے  حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کی وجہ یہ نہیں کہ  بعدِ وصال کسی سے توسل جائز نہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ جس طرح انبیائے کرام علیہم السلام  سے توسل جائز  و مستحب ہے، اسی طرح  ان نفوسِ قدسیہ  کے علاوہ کسی بھی  نیک ہستی کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ  بنانا بھی جائز و مستحب  ہے۔یہی صحیح استدلال ہے ،جو عظیم محدثین نے کیا ہے، جیسا بخاری کےعظیم شارح، جلیل القدر محدث، علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ نے فتح الباری، جلد2، صفحہ 498 پر  اور دوسرے شارح عظیم محدث علامہ زرقانی علیہ الرحمۃ نے شرح الزرقانی ، جلد2، صفحہ 152 پر بیان کیا  ہے:”يستفاد من قصة العباس استحباب الاستشفاع بأهل الخير والصلاح وأهل بيت النبوة “ترجمہ:حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے واقعے سےیہ  مستفاد (فائدہ حاصل )ہورہا ہے کہ نیک لوگوں اور اہلبیتِ اطہار علیہم الرضوان کے وسیلے سے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے۔ (فتح الباری، ج2، ص498، دار المعرفۃ، بیروت)

   حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل میں ایک اور خوبصورت پہلو :

   حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل میں ایک اور خوبصورت پہلو ہے اور وہ یہ کہ   حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کی ایک صورت  تھی، کیونکہ انہیں وسیلہ اسی لیے بنایا گیا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت دار تھے،اسی وجہ سے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ”بعم نبیک “فرمایا”بالعباس“ نہیں فرمایا۔نیز  حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں:” وقد توجه القوم بي إليك لمكاني من نبيك “ترجمہ:اے اللہ ! یہ لوگ تیرے نبی سے میری نسبت ومقام کی وجہ سے میرے وسیلے سے تیری طرف  متوجہ ہوئے ہیں۔(فتح الباری، ج2، ص497، دار المعرفۃ، بیروت)

   اشکال : اگر بعدِ وصال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یا کسی بھی نیک ہستی  سے توسل جائز ہوتا، تو حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے توسل  کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بناتے، کیونکہ  ایک عام آدمی بھی افضل کے ہوتے ہوئےمفضول کو وسیلہ نہیں بناتا ، تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایسا کیونکر کر سکتے ہیں؟

   الجواب: عرض ہے کہ  یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کو چھوڑنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع و اقتداء میں تھا ، اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے  والد کی طرح عزت دیتے تھے ، تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پیش فرمایا، حالانکہ ان سے افضل صحابہ  کرام مجمع میں موجود  تھے،جیسا کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی ان سے افضل تھے ، یونہی  حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہما اور باقی حضرات ِ عشرہ مبشرہ و امام حسن و حسین رضی اللہ عنہماسب اس وقت زندہ موجود تھے، تو اگر افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کا وسیلہ نہیں دینا چاہیے، تو پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بھی اس وقت وسیلہ نہیں دینا چاہیے کہ ان سے افضل حضرات موجود تھے، تو یہاں مفضول کو ترجیح دینے کی وجہ قرابتِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے، نہ  کہ کچھ اور ۔اس  حکمت کا اظہار  حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا ہے کہ جب بارش برسی تو آپ  رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:” أيها الناس! إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان يرى للعباس ما يرى الولد لوالده  يعظمه  ويفخمه  ويبر قسمه فاقتدوا أيها الناس برسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في عمه العباس  واتخذوه وسيلة إلى اللہ عز و جل “ترجمہ:اے لوگو! بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا عباس (رضی اللہ عنہ)کو ایسے ہی   مقام دیتے تھے کہ  جیسے   بیٹا اپنے والد کومقام دیتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر فرماتے اور ان کی قسم کو پورا فرماتے۔ تو اے لوگو! تم نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس(رضی اللہ عنہ) کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرو اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ بناؤ ۔ (المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص409، رقم الحدیث 5506، دار الحرمین ،القاھرۃ)

   مزید یہ کہ اس  روایت میں زیادہ سے زیادہ توسل بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عدم یعنی نہ کرنے   کا ثبوت ہے اور وہ بھی صرف اس ایک خاص واقعے میں ، نہ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی  پوری زندگی  اور بالفرض اگر پوری زندگی  بھی نہ کرتے   تو صرف  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عدم یعنی نہ کرنے  سے بقیہ ہزاروں صحابہ کے عدم یعنی نہ کرنے  کا ثبوت کہاں سے ہوگیا؟ اور بالفرض تمام صحابہ ہی کا عدم یعنی نہ کرنا مان لیا جائے تو بھی   شرعاً عدمِ فعل کوئی دلیل نہیں ، اوراس کی وجہ سے کسی چیز کو ناجائز ثابت نہیں کیا جا سکتا،جیسے کسی صحابی نے آج کے زمانے کی طرح کوئی نصاب مقرر کرکے پیریڈز میں تقسیم کرکے تنخواہ والا مدرسہ نہیں بنایا  یا کسی صحابی نے علاج کے لیے کوئی باقاعدہ ہسپتال نہیں بنایا تو کیا یہ سارے کام ناجائز ہوجائیں گے؟ معاذاللہ، ہرگز نہیں۔

   صحیح شرعی اصول کیاہےوہ پڑھئے: علامہ ابن نجیم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”لا يتقرب بها إلا إذا صار الترك كفا وهو فعل وهو المكلف به في النهي لا الترك بمعنى العدم لأنه ليس داخلا تحت القدرة للعبد“ ترجمہ :تروک کے ساتھ تقرُّب نہیں ہو سکتا، مگر یہ کہ جب ترک، کف (کسی چیز کو جان بوجھ کر چھوڑنے، نہ کرنے) کے درجے میں ہو  ، کف (کسی چیز کو جان بوجھ کر چھوڑنا، نہ کرنا) فعل ہے اور نہی میں اسی کا حکم ہوتا ہے نہ کہ ترک بمعنیٰ عدم یعنی نہ کرنا، کیونکہ معدوم قدرتِ عبد کے تحت داخل نہیں ہے۔(الاشباہ  و النظائر، ص25، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم