مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7548
تاریخ اجراء:28ربیع الآخر 1443ھ/04دسمبر 2021
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں
کہ بعض لوگ اِس آیت﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ
زُلْفٰى﴾کو بنیاد بنا کر یہ بات کہتےہیں کہ اللہ کے نیک
بندوں کو خدا کی بارگاہ
میں وسیلہ بنانا شِرک
ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ اگر نہیں تو اِس کا کیا
جواب ہے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی کو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ سمجھنا ہرگز شرک نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ
کی بارگاہ تک پہنچنے
کے لیے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم خود قرآنِ پاک میں دیا گیا ہے کہ اے
ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس
کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
البتہ جسے وسیلہ سمجھا جائے اسے معبود جاننا اور اس
کی پوجا کرنا ضرور شرک ہے، جیسا کہ سوال
میں ذکر کردہ آیت میں موجود تَوَسُّل
کو اِسی بنیاد پر شرک کہا گیا۔یہ
فَرْق سامنے رکھتے ہوئے اگر انبیاِئے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور
اولیائےعِظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اللہ تعالیٰ
سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ
سمجھنے سے متعلق اہلِ سنت کا
عقیدہ دیکھا
جائے، تو واضح ہوجائے گا کہ ان کا یہ عقیدہ شرک ہر گز نہیں ، کیونکہ وہ انبیائےکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور
اولیائے عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو
معبود نہیں مانتے اور نہ ہی ان
کی عبادت کرتے
ہیں ،بلکہ معبود صرف اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، جبکہ انہیں صرف اللہ تعالیٰ
کا مقبول بندہ مان کر اُس کی بارگاہ
تک پہنچنے کا ذریعہ
اور وسیلہ سمجھتے
ہیں ۔
نیچے آنے والے تفصیلی
جواب کو درج ذیل سرخیوں
کی روشنی میں ملاحظہ
کیجیے۔
(1)سوال میں ذکر کردہ آیت
میں تَوَسُّل شرک کیوں
ٹھہرا؟
(2)مذکورہ آیت
کی بنیاد پر کیا جانے والا اعتراض اور اُس کے جوابات
(3)فوت شُدگان سے تَوَسُّل کا
ثبوت اور اُس کے دلائل
(4)استمداد اور تَوَسُّل شرعی
(5)تمام گفتگو کا حاصِل
(1) سوال میں ذکر کردہ آیت
میں تَوَسُّل شرک کیوں؟
مکمل آیت پڑھیے۔ اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿اَلَا لِلّٰهِ
الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَ الَّذِیْنَ
اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ
زُلْفٰى اِنَّ اللّٰهَ
یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ
فِیْ مَا هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ
مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’سن
لو! خالص عبادت اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ جنہوں نے اس کے سوا اور مددگار
بنارکھے ہیں (وہ کہتے
ہیں:) ہم تو ان بتوں
کی صرف اس لیے عبادت کرتے
ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے
زیادہ نزدیک کردیں ۔ اللہ ان کے درمیان
اس بات میں فیصلہ کردے گا جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں ، بیشک اللہ اسے
ہدایت نہیں دیتا
جو جھوٹا، بڑا ناشکرا ہو۔‘‘(پارہ 23،سورۃ
الزمر، آیت3)
اِس آیت
مبارکہ میں مشرکینِ مکہ
کے تَوَسُّل اور ذرائعِ تقرُّب کو شرک اِس
لیے کہا گیا کہ وہ اُن بتوں کی پوجا
کیا کرتے تھے،
یعنی جن وسیلوں کے ذریعے خدا
کا قرب چاہتے تھے، وہ اُنہیں یعنی بتوں
کو بھی بذاتِ خود خدا مانتے تھے۔
جیسا کہ ”مَا نَعْبُدُهُمْ“سے
واضح ہے ۔ اب جبکہ وہ لوگ
اُن بتوں کو خدا سمجھتے
تھے، تو یقیناً شرک کرتے تھے
اور اِسی شرکیہ نظریے
کی بنیاد پر اختیار
کیے گئے وسیلے کو اللہ تعالیٰ نے ”شرک“ قرار دیا اور اس انداز
میں اگر کوئی انبیاء و اولیاء کو بھی وسیلہ
بنائے کہ ان کی عبادت کرے ،تو یہ شرک ہی ہوگا، لیکن الحمد للہ کوئی مسلمان نبیوں،
ولیوں کی عبادت
نہیں کرتا ۔
مذکورہ
بالا آیت کی تفاسیر:
اُن کے اِس شرکیہ
تَوَسُّل کو امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:310ھ/923ء) نے اِس آیت کے
تحت یوں بیان کیا کہ وہ گویا
یوں کہا کرتے تھے: ’’يعبدونهم من دون اللہ، يقولون لهم: ما
نعبدكم أيها الآلهة إلا لتقربونا إلى اللہ زُلْفَى، قربة ومنزلة، وتشفعوا لنا عنده
في حاجاتنا۔‘‘ترجمہ:وہ لوگ اللہ کے علاوہ اُن بتوں کی پوجا کرتے ہیںوہ اپنے بتوں سے کہتے ہیں کہ اے خداؤ! ہم تمہیں
صرف اِسی لیے پوجتے ہیں کہ تم ہمیں خدا کی بارگاہ
میں مرتبے اور قدر ومنزلت
کے اعتبار سے مزید قریب کر دو اور ہماری حاجتوں کے لیے
اُس کی بارگاہ میں ہمارے
لیے شفاعت کرو۔(تفسیر
طبری،جلد20،صفحہ 156،مطبوعہ دار ھجر للطباعۃ والنشر)
امام ابو البرکات
عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:710ھ/1310ء) نے لکھا:’’والذين عبدوا الأصنام
يقولون: ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ
اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ﴾ ترجمہ:
وہ لوگ جو بتوں کو پوجتے ہیں، وہ کہتے
ہیں کہ ہم تو ان بتوں
کی صرف اس لیے عبادت کرتے
ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے
زیادہ نزدیک کردیں ۔ (تفسیر
نسفی، جلد3، صفحہ168، مطبوعہ
دارالکلم الطیب، بیروت)
مذکورہ آیت میں”اولیاء من دون اللہ “سے مراد ”معبودانِ باطلہ“ہیں کہ جنہیں
خدا سمجھ کر ان کی عبادت
کی جاتی تھی،
چنانچہ شہاب الدین
علامہ محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1270ھ/1853ء) لکھتےہیں: ’’الأولياء عبارة عن
كل معبود باطل، كالملائكة وعيسى عليهم السلام والأصنام۔‘‘ ترجمہ:آیت
میں موجود ”اولیاء“سے ہر
باطل خدا مراد ہے، جیسا کہ فرشتوں، حضرت عیسی علیہ السلام اور
دیگر بتوں کو وہ لوگ خدا بنا بیٹھے
تھے۔(تفسیر
روح المعانی، جلد12، صفحہ
225، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ،
بیروت)
(2)آیت کو بنیاد
بنا کر اعتراض اور اُس کے جوابات:
اوپر ذکر کی گئی آیت کو بنیاد بنا کر بزرگانِ دین سے بیزار لوگ یہ کہتے ہیں
کہ جو نیک افراد وصالِ ظاہری
کر چکے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ
کی بارگاہ میں وسیلہ
بنانا اور ان کے ذریعے خدا کا قرب چاہنا، ہر گز جائز نہیں، بلکہ شِرک
ہے، کیونکہ یہی کام مشرکین مکہ بھی کیا کرتے تھے کہ وہ اپنے بتوں کو خدا
کی بارگاہ میں تقرب کا وسیلہ سمجھتے تھے، حالانکہ معمولی سی عقل رکھنے والا بھی
سمجھتا ہے کہ یہ کون سا عجیب شرک
ہے کہ فوت شدہ کے ساتھ کریں تو شرک ہے اور زندہ کے ساتھ کریں، تو جائز و حلال بلکہ سنت
ہے، معاذاللہ من سوء الفھم
پہلا
جواب:
تَوَسُّل دو طرح کا ہے۔(1) شِرْکیہ (2) شرعیہ
مذکورہ آیت کریمہ میں
جس تَوَسُّل کو شرک قرار دیا گیا ہے
، اُس کی بنیاد ”مُتَوَسَل بِہ
“یعنی جسے وسیلہ بنایا
گیا، اُسے خدا سمجھنا ہے، جس کی وجہ سے یہ تَوَسُّل شرک
ہے۔ جبکہ جو تَوَسُّل جائز ، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اسلافِ امت سے ثابت ہے، وہ ہر گز ایسا نہیں ہے کہ اُس میں مُتَوَسَّل
بِہ کو خدا سمجھا جائے
اور یاد رکھیے
کہ چودہ سو سال سے آج
تک جتنے مسلمان ” تَوَسُّل بالانبیاء والاولیاء “کے
قائل اور عامِل رہے ہیں اور اب بھی ہیں، وہ ہر گز اُن ہستیوں کو معاذاللہ خدا
یا بذاتِ خود نفع یا نقصان پہنچانے
والا نہیں سمجھتے، بلکہ یہی عقیدہ ہوتا ہے کہ یہ خدانہیں بلکہ اس کے بندے
ہیں، البتہ مالِک حقیقی کی بارگاہ میں قرب رکھتے
ہیں، لہذامسلمان اُن کے وسیلے سے خدا کی بارگاہ
میں قرب اور حاجت روائی کے خواہش مندہوتے ہیں۔
دوسرا جواب:
اہلِ
اسلام کے مابین”تَوَسُّل بالاعمالِ
الصالحہ “ یعنی نیک
اعمال کے ذریعے تَوَسُّل کرنا بالاجماع
جائز ہے۔ جیسا کہ بخاری
شریف کی حدیثِ غار اِس پر واضح ثبوت
ہے۔ اِس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔
یعنی جو شخص روزہ رکھے،
نماز پڑھے، قرآن کی تلاوت
کرے اور خدا کی راہ
میں صدقہ دے، وہ ان اعمال کے ذریعے خدا سے تَوَسُّل کرکے اُس کا
قرب حاصل کرتا ہے ، اِس میں کوئی بحث
نہیں ہے۔اب اگر اعمالِ صالحہ
سے تَوَسُّل کے جائز ہونے کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جو شخص اللہ کے
نیک بندوں میں
سے کسی ایک سے تَوَسُّل کرتا ہے،
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس مُقَرَّب ہستی کو خدا کی بارگاہ
میں محبوب سمجھتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ وہ
انہیں محبوب و مُقَرَّب کیوں سمجھتا ہے؟ جواب
یہ ہے کہ وہ شخص اُس ولی کے بارے میں یقین رکھتا ہے کہ وہ
ایک نیک شخص تھا
، خدا سے محبت کرتا اوراس کے احکام کا تابع تھا ۔گویا اولیائے کرام سے تَوَسُّل
کرنے میں ”نیک
اَعمال“ کاتصور موجود ہوتا
ہے، یعنی اُن سے تَوَسُّل درحقیقت
بارگاہ الہی میں
اعمالِ صالحہ ہی سے تَوَسُّل ہےاور
اعمالِ صالحہ سے تَوَسُّل پر تمام مسلمانوں
کا اتفاق ہے۔
(3)فوت شُدگان سے تَوَسُّل کا
ثبوت اور اُس کے دلائل:
دنیا سے پردہ
کر جانے والوں سے تَوَسُّل کرنے کو شرک سمجھنا اور زندہ سے
تَوَسُّل جائز سمجھنا عجیب
و غریب تقسیم ہے ، کیونکہ
اگر تَوَسُّل ، طلبِ شفاعت اور استغاثہ
کو کفر و شرک کے
مترادف تسلیم کیا جائے، تو پھر دنیاوی زندگی،
حیاتِ برزخی اور آخرت
میں ہر جگہ اسے کفر و شِرک ہی ہونا چاہیے،کوئی
شخص کسی زندہ کوعبادت کا سجدہ کرے یا فوت شدہ کو، دونوں صورت میں شرک ہے، ایسا نہیں ہوسکتا
زندہ کو سجدہ ِ عبادت جائز
ہو اور فوت شدہ کو سجدہ عبادت شرک ہے، کیونکہ
شرک تو اللہ تعالی کو ہر حال میں ناپسند ہے۔ اس سب کے باوجود
کثیر دلائل سے ثابت ہے امت مسلمہ ظاہری حیات اور
بعد از وفات دونوں صورتوں
میں وسیلہ بناتی
آئی ہے، چنانچہ
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم نے
کثیر مواقع پر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سے تَوَسُّل و استغاثہ کیا اور وصالِ ظاہری
کے بعد بھی صحابہ کرام
سے اس کا ثبوت موجود ہے، جس کی تفصیل کتب
ِاحادیث میں موجود ہے۔قیامت کے
روز بھی اُنہی کے دَرْ پر لوگ استغاثہ کریں گے اور انہیں وسیلہ بنائیں گے۔ یہ تَوَسُّل و اِستغاثہ
ہی کا صِلہ ہوگا کہ شفیع مذنبین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اللہ تعالی کی بارگاہ میں جمیع گنہگار مخلوق کی شفاعت
کریں گے۔ جب حیات دنیوی اور حیات اخروی
میں تَوَسُّل و استغاثہ جائز ٹھہرا، تو حیات کی وہ قسم جو ’’حیاتِ برزخی‘‘ کہلاتی ہے، اس
میں اسے شرک قرار دینا
کس طرح سے درست ہوسکتا ہے؟
حیات یا بعد ازظاہری
وفات کی قید کے بغیر اللہ تعالیٰ مطلق ارشاد فرماتا ہے﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ
وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ
تَوَّابًا رَّحِیْمًا﴾ترجمہ کنزُالعِرفان:’’اور اگر جب وہ اپنی
جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب!
تمہاری بارگاہ
میں حاضر ہوجاتے ،پھر اللہ سے
معافی مانگتے اور رسول
(بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے، تو
ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔‘‘ (پارہ5،سورۃ النساء، آیت64)
اِس آیت کے
تحت حافِظ ابنِ کثیر نے لکھا ہے :’’يرشد تعالى العصاة والمذنبين
إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلى الرسول صلى اللہ عليه وسلم، فيستغفروا
اللہ عنده ويسألوه أن يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلك تاب اللہ عليهم ورحمهم وغفر
لهم، ولهذا قال لوجدوا اللہ توابا رحيما وقد ذكر جماعة منهم الشيخ
أبو نصر بن الصباغ في كتابه الشامل الحكاية المشهورة عن العتبي،
قال: كنت جالسا عند قبر النبي صلى اللہ عليه وسلم، فجاء أعرابي فقال: السلام عليك يا
رسول اللہ ، سمعت اللہ يقول﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ
وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ
تَوَّابًا رَّحِیْمًا﴾ وقد جئتك مستغفرا
لذنبي مستشفعا بك إلى ربي۔۔۔ثم انصرف الأعرابي، فغلبتني عيني
فرأيت النبي صلى اللہ عليه وسلم في النوم، فقال ياعتبي،
اَلْحِق الأعرابي فبشره أن اللہ قد غفر له۔‘‘ ترجمہ:
اس آیت کریمہ
میں اللہ تعالیٰ
عاصیوں ،خطا کاروں کو رہنمائی فرما رہا ہے کہ جب
ان سے خطا اور گناہ سرزد ہو جائیں تو اللہ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
پاس آکر خدا سے مغفرت کا
سوال کریں اور اللہ کے رسول سے عرض کریں کہ آپ ہمارے لیے دعا کیجیے جب وہ ایسا کریں گے، تو یقیناً اللہ تعالیٰ
ان کو معاف فرما دے گا، انہیں بخش دے گا اور ان
پر رحم فرمائے گا ۔ایک جماعت
نے یہ واقعہ نقل کیا کہ
حضرت عتبی کہتے
ہیں، میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی قبرِ مبارک کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک اعرابی آیا اور عرض کی:السلام علیک
یارسول اللہ! میں نے اللہ کا
فرمان سنا ہے کہ جب تم سے کوئی اپنی
جان پر ظلم کر بیٹھے۔۔۔الخ
۔ میں بھی آپ کی بارگاہ میں طلبِ مغفرت
کےلیے حاضر ہوا ہوں
اور آپ کو اپنے رب کے ہاں اپنا سفارشی
بناتا ہوں۔حضرت عتبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ کہتے
ہیں کہ یہ کہہ کر اعرابی
چلا گیا اور میری
آنکھ لگ گئی، خواب
میں دیدارِ مصطفیٰ
ہوا، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:عتبی! اعرابی
کے پاس جاؤ اور اسے خوشخبری
دو کہ اللہ نے
تمہیں بخش دیا ہے۔ (تفسیر
ابن کثیر، جلد2، صفحہ 306، مطبوعہ
دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
”علوم القرآن“کا اصول ہے:”العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب“یعنی
عمومِ لفظ کا اعتبار ہو تا ہے ،خصو ص محل کا اعتبار
نہیں ہو تا ، لہذا آیت
مبارکہ﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا۔۔الخ﴾میں
قبل ِوصال کی کو ئی قید
نہیں ، لہذا یہ آیت
وصال سے پہلے اور بعد، دونوں
حالتوں کو شامل ہے۔دوسری
بات یہ کہ لفظ (اِذ ْ) ظرفیہ ہے جو
ہر زمانے کو گھیرے ہوئے ہے۔یعنی
قبل ِ وصال اور بعد از وصال دونوں مراد ہیں،اس لیے نبی اکر م صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر حاضری دینے والے کے لیے تاقیامت وسیلہ مغفرت
ہیں۔
فوت شدگان سے
تَوَسُّل کی چند امثلہ!
(1)نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کا
حضرت فاطمہ بنت اسد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہا کے لیے انبیائے سابقین
کے تَوَسُّل سے دعا مانگنا۔چنانچہ طبرانی کبیر میں
ہے:’’فلما فرغ دخل رسول اللہ صلى اللہ
عليه وسلم: فاضطجع فيه، ثم قال: « اللہ الذي يحيي ويميت وهو حي لا يموت، اغفر لأمي
فاطمة بنت أسد، ولقنها حجتها، ووسع علیھا مدخلھا، بحق نبيك والأنبياء الذين من قبلي فإنك أرحم
الراحمين»‘‘ترجمہ:جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت
فاطمہ بنت اسد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہا کی قبر کشائی سے فارِغ ہوئے، تو قبر
شریف میں اترے اور لیٹ
گئے، پھر دعا کی:اللہ ہی ہے ،جو زندہ کر
تا اور مارتاہے اور وہ ایسا زندہ ہے جس کوموت نہیں ،اے اللہ!
تو میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور
ان کی قبر کو اپنے نبی اور مجھ سے پہلے تمام انبیا کے وسیلے سے کشادہ فرما، یقینا
ً تو بڑا رحم فرمانےوالا ہے
۔(المعجم
الکبیر للطبرانی،
24جلد ، صفحہ 352، مطبوعہ قاھرہ)
(2)اہلِ مدینہ
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُم کا بحکم سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہا، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ پُراَنوار
سے تَوَسُّل کرنا۔چنانچہ سنن دارِمی میں ہے:’’قحط أهل المدينة قحطا شديدا، فشكوا
إلى عائشة فقالت:انظروا قبر النبي صلى اللہ عليه وسلم
فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف. قال: ففعلوا،
فمطرنا مطرا حتى نبت العشب، وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم، فسمي عام الفتق۔‘‘ترجمہ:اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوئے،
تو انہوں نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہا سے شکایت
کی،تو آپ نے فرمایا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر کے پاس جاؤ
اور آسمان کی طرف ایک کھڑکی
یوں کھولو کہ قبر انور اور آسمان
کے درمیان کوئی پردہ
حائل نہ رہے۔ راوی کہتے
ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا،
تو خوب بارش ہوئی، حتی کہ بہت زیادہ سبزہ اگ آیا
اور اونٹ اتنے فربہ ہوگئے کہ یوں محسوس ہوتا
تھا کہ جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔اِسی وجہ سے اُس سال کا نام "عام الفتق" یعنی فربہ ہونے اور بیج
پھٹنے کا سال رکھ دیا
گیا ۔(سنن الدارمی، جلد1، صفحہ 227، مطبوعہ دار المغنی)
(3)حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ کی
قبر مصطفیٰ پر حاضری۔چنانچہ مسند احمد میں ہے:’’أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه على
القبر، فقال: أتدري ما تصنع؟ فأقبل عليه فإذا هو أبو أيوب، فقال: نعم، جئت رسول
اللہ صلى اللہ عليه وسلم ولم آت الحجر۔‘‘ترجمہ:مروان
اپنے زمانہ تَسَلُّط میں مسجد نبوی آیا اور
ایک صاحب کو دیکھا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے
ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا: جانتے
ہو کیا کر رہے ہو؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ
ہو کر فرمایا: ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں
آیا ہوں ،
میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
حضور حاضر ہوا ہوں۔ (مسند احمد، جلد38، صفحہ 558، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
(4)حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ کا خلافتِ فاروقی کے زمانے
میں قبرِ مصطفی پر حاضر ہونا اور براہِ
راست نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے
عرض کرنا کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے بارش طلب کریں۔چنانچہ
مصنف ابنِ ابی شیبہ
میں ہے: ’’عن
مالك الدار، قال:وكان خازن عمر على الطعام، قال: أصاب
الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى اللہ عليه وسلم فقال: يارسول اللہ، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا۔۔۔الخ۔‘‘ترجمہ:حضرت
مالک دار رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، آپ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ کی
جانب سے غلے پر خازِن مقرر تھے،
آپ بتاتے ہیں کہ حضرت
عمر فاروق کے مبارک زمانے میں لوگوں کے مابین قحط پڑ گیا، تو ایک شخص نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ مبارک پر حاضر ہو کر آپ سے عرض گزار ہوا:اے اللہ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ! اپنی امت کے لیے اللہ تعالیٰ
سے بارش کی دعا مانگیں، بے شک وہ سب قحط کے سبب ہلاک
ہوئے جارہے ہیں۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ، جلد6،
صفحہ356، مطبوعہ مکتبۃ
الرشد)
(4)استمداد دراصل تَوَسُّل شرعی ہے!
انبیائے کرام اور اولیاء سے مدد مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے پیاروں
کا وسیلہ پیش
کیا جاتا ہے اور الله تعالی اپنے فضل و کرم سے بندوں کی مرادیں پوری فرماتا ہے، چنانچہ سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ”اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ
نَسْتَعِیْنُ“کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتےہیں:’’یہاں
یہ سمجھنا چاہیے
کہ غیر سے اس طرح مدد مانگنا کہ مطلقاً
اُسی پر اعتماد کرے اور اسے اللہ تعالیٰ
کی جانب سے مدد کا مظہر نہ سمجھے، تو یہ
حرام(بلکہ کفر ) ہے۔ اور اگر توجہ
صرف الله تعالی کی طرف ہو اور اُس
غیرُ اللہ کو
مدد کے مظاہر میں سے ایک مظہرسمجھتے ہوئےاور الله تعالی
کے مقرر کردہ اسباب اورحکمت پر نظر کرتے ہوئے اس غیر سے ظاہری طور پر امداد مانگے تو یہ عرفان سے دور
نہیں اور شرع شریف میں بھی جائز ہے۔ انبیا علیہم السلام اور
اولیاء نے اس قسم کی امداد دوسروں سے مانگی ہے اور حقیقت میں یہ غیر سے نہیں،
بلکہ حضرت ِحق تعالی سے استمداد ہے۔(تفسیرِ
عزیزی مترجم، جلد1، صفحہ
53، مطبوعہ نوریہ
رضویہ پبلی کیشنز)
(5)مذکورہ تمام گفتگو
کا حاصل:
مذکورہ
تمام گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ وسیلہ قرب خداوندی کے
لیے ہو یا حاجت روائی کے لیے،
کسی نیک عمل کا ہو یا نیک ہستی کا، وہ ہستی حیات ہو یا وصال کر چکی ہو، یہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک ثابت شدہ
جائز چیز ہے۔ اِسے شرک کہنا ، معاذاللہ عام مسلمانوں بلکہ بڑے بڑے محدثین،
تابعین اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُم پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔ بتوں یا کافروں کے متعلقہ آیات کو اولیاء اور اہل ایمان پر چسپاں کرنا بہت بڑی جرأت، بے باکی اور خوارِج کی نشانی
ہے۔ بخاری شریف میں ہے:’’إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت فی الكفار فجعلوها على المؤمنين‘‘ترجمہ:خوارِج،
کفار کے متعلق اترنےوالی
آیات کا اہلِ ایمان پر اِطلاق کریں گے۔(صحیح
البخاری، جلد9، صفحہ
16، مطبوعہ دار طوق النجاۃ،
بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟