Kya Aulia e Kiram ke Mazar Banana Jaiz Hai ?

اولیاء کرام کے مزارات بنانا کیسا ہے؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1386

تاریخ اجراء:       18رجب المرجب1444 ھ/10فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیا اولیاء کرام کے مزارات بنانا درست ہے؟ جیسا کہ ہم انڈیا اور پاکستان میں مزار دیکھتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   انبیائے کرام علیہم السلام اور مشائخ وعلماء واولیاءِ عظام علیہم الرحمۃ کی قبروں پر مزار بنایاجاسکتاہے شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔

   علامہ اسمٰعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی 1127ھ) قرآنِ کریم کی آیت(اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ) کے تحت روح البیان میں فرماتےہیں:” بناء القباب على قبور العلماء والأولياء والصلحاء ووضع الستور والعمائم والثياب على قبورهم امر جائز إذا كان القصد بذلك التعظيم فى أعين العامة حتى لا يحتقروا صاحب هذا القبر“ترجمہ:علماء ،اولیاء اور صالحین کی قبروں پر قبے بنانا اور ان کی قبروں پر چادریں، عمامے اور کپڑے رکھنا جائز ہے جبکہ اس سے مقصود عوام الناس کی نگاہوں میں ان کی تعظیم ڈالنی ہو تاکہ وہ اس صاحب قبر کو حقیر نہ سمجھیں۔(روح البیان،ج 3،ص 400،دار الفکر،بیروت )

   کشف النور عن اصحاب القبور میں ہے” قال تعالى: (ومن يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب) وشعائر الله هي الأشياء التي تشعر أي تعلم به تعالى كالعلماء والصالحين أحياء وأمواتا ونحوهم. ومن تعظيمهم بناء القباب على قبورهم ۔۔۔وإن كان ذلك بدعة فهي بدعة حسنة، كما قال الفقهاء في تكبير العمائم وتوسيع الثياب للعلماء، أنه جائز حتى لا تستخف بهم العامة ويحترمونهم. وإن كان ذلك بدعة لم يكن عليها السلف ..حتى قال في جامع الفتاوى في البناء على القبر:وقيل لا يكره إذا كان الميت من المشايخ والعلماء والسادات. “ترجمہ:اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا(اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے)اور اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالی کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے جیسا کہ علماء اور صالحین چاہے زندہ ہو ں یا وفات پا چکے ہوں اور انہی کی مثل،اور ان کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی قبور پر قبے بنائے جائیں ،اگرچہ یہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے جیسا کہ فقہاء نے علماء کے لئے بڑے عماموں و وسیع کپڑوں کے متعلق فرمایا کہ یہ جائز ہے تاکہ عوام الناس کے نزدیک ان کی قدر ومنزلت کم نہ ہو ۔۔۔اگرچہ یہ بدعت ہے کہ سلف نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا،حتی کہ قبر پر قبہ بنانے کے متعلق جامع الفتاوی میں فرمایا:”کہا گیا ہے کہ جب میت، مشائخ،علماء اور سادات میں سےکسی کی  ہو تو اس کی قبر پر قبہ بنانا مکروہ نہیں ۔(کشف النور عن اصحاب القبور،ص 23 ،24)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

   رد المحتار میں ہےوفي الأحكام عن جامع الفتاوى: وقيل لا يكره البناء إذا كان الميت من المشايخ والعلماء والسادات اهـترجمہ: اوراحکام میں جامع الفتاوی کے حوالے سے ہے :اورکہاگیاہے کہ  اگرمیّت مشائخ اورعلماء اورساداتِ کرام میں سے ہو تواس کی قبر پر عمارت بنانامکروہ نہیں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ،ج 2،ص 237،دار الفکر،بیروت)

   رہا یہ معاملہ کہ کیا یہ صرف پاک و ہند میں ہی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ الحمد للہ عزوجل پوری دنیا میں اولیاءِ کرام کے مزارات و مَقابر صدیوں سے موجود ہیں جو سلف صالحین کے عمل پر شاہد ہیں۔خود ہمارے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ مبارکہ پر سبز سبز گنبد قائم ہے اس سے بڑھ کر جواز کی اور کیا دلیل چاہئے؟ علماء و صُلحاء صدیوں سے وہاں حاضر ہوتے ہیں اور ان کے سامنے یہ گنبد بنا ہوا ہے جو بلا شبہ جواز کی دلیل ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم