Kya Huzoor Noor Hain ? Aik Aitraaz Ka Jawab

کیاحضور نورہیں؟ حضور ﷺ کے نور ہونے کے بارے میں عقیدہ اور ایک اعتراض کا جواب

مجیب: عبدالرب شاکرقادری عطاری

مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:8093- Sar

تاریخ اجراء:       29ربیع الاول1444ھ/26اکتوبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل کے بارے میں کہ کیاحضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نورہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔نیز یہ کہ زید کا کہنا ہے کہ جس حدیثِ جابر سے آپ لوگ استدلال کرتے ہیں ،وہ روایت معنی کے اعتبار سے درست نہیں ، کیونکہ اس میں فرمایاگیا:”نور نبیک من نورہ“ تویہاں حرف ”مِنْ “  تبعیضیہ ہے ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز سے اس کا کوئی جزیا کچھ حصہ  لینا،جدا کر لینا، جیساکہ کہا جاتا ہے : ’’خلق الانسان من طین‘‘ یعنی انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا، تو انسان کے اندر مٹی کا جز شامل ہے، تو اس لحاظ سے حدیث کا مطلب یہ ہو گاکہ اللہ کے نور سے کچھ حصہ جدا کر کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا نور پیدا کیا گیا ، جو  قطعاً درست نہیں ،بلکہ کفر ہے، لہٰذا اس حدیث کو دلیل بنانا  درست نہیں۔کیا زید کا یہ اعتراض درست ہے؟اگر نہیں تو اس کا جواب عنایت فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حضورسرورِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم حقیقت کے اعتبار سے نور  اور  صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر ہیں،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نور ہونے پر بکثرت آیات قرآنیہ،احادیث نبویہ اور اقوالِ ائمہ امت موجود ہیں۔

   رہا سوال میں مذکور الفاظِ حدیث”نور نبیک من نورہ“ پر اعتراض !تواس کا جواب یہ ہے کہ حرف” مِنْ “متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔اس مقام پرحرف” مِنْ “تبعیض کےلیے نہیں ، بلکہ بیانیہ وابتدائیہ ہے ،جس کا مفاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نور سے کسی چیز کے واسطے کے بغیر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نور پیدا کیا،لہٰذا زید کا اسے ” مِنْ “ تبعیضیہ سمجھنا درست نہیں،جیساکہ خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ایک ماہرعیسائی طبیب نے علامہ علی واقدی سے مناظرہ کرتے ہوئے دعوی کیا  کہ تمہاری کتاب(قرآن پاک)کی اس آیت ﴿ وَ كَلِمَتُه ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:”اور اس کا ایک کلمہ ہے، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔“سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کی جزو حصہ  ہیں ،کیونکہ آیت میں موجود حرف ” مِنْ “تبعیضیہ ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کےجزوحصہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے جواب میں علامہ علی واقدی نے یہ آیت پیش کی:﴿ وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ ترجمہ:”اور تمہارے لیے وہ سب چیزیں مسخر کیں ،جو آسمانوں اور جو زمین میں ہیں،سب اس کی طرف سے ہیں۔“پھر فرمانے لگے کہ اے عیسائی! اگر تمہاری بات (مِنْ تبعیضیہ والی)مان لی جائے ،تو اس آیت سے لازم آئے گا کہ سب چیزیں اللہ تعالی کی ذات  کا جز و حصہ ہوں ، عیسائی لاجواب ہوگیا اور اسلام قبول کر لیا۔( روح البیان ، جلد 3 ،صفحہ 200 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت )

   اللہ پاک زید کو بھی حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

   حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے نور ہونے کے متعلق اللہ تعالی قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:﴿ قَدْ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللہِ نُوۡرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ﴾ترجمہ:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نورآیااورروشن کتاب۔(القرآن،سورة المائدہ،آیت15)

   مذکورہ بالاآیت کی تفسیرمیں متعدداقوال ہیں۔جن میں سے ایک قول یہ ہے کہ آیت میں نورسے مرادمحمدصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے،جیساکہ تفسیرابن عباس،تفسیرکبیر،جامع البیان فی تفسیرالقرآن، تفسیرجلالین، تفسیرصاوی،تفسیرخازن،تفسیرنسفی ،روح البیان،روح المعانی ،تفسیر ابوسعود، زادالمسیر، تفسیربغوی، تفسیرقرطبی، تفسیربیضاوی،تفسیرثعالبی میں ہے :واللفظ للاول(قدجاءکم من اللہ نوررسول اللہ یعنی محمد)بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نوررسول اللہ یعنی محمدصلی اللہ تعالی علیہ وسلم آئے۔(تفسیرابن عباس،صفحہ72،مطبوعہ مصطفی البابی،مصر)

   امام بخاری ومسلم کے استاذالاستاذامام محدث عبدالرزاق علیہم الرحمۃنے”اَلْمُصَنَّف“میں روایت کیااوریہ حدیث مواہب اللدنیہ،شرح زرقانی،کشف الخفاء،السیرةالحلبیہ،تاریخ الخمیس،جواہرالبحار،تفسیرروح المعانی،شرح قصیدہ بردہ،الحدیقۃ الندیہ،فتاوی حدیثیہ،حجة اللہ علی العالمین،المدخل،الموردالروی وغیرھا کتبِ اسفار میں ہے:”عن جابربن عبداللہ قال:قلت یارسول اللہ بأبی انت وامی أخبرنی عن اول شیءخلقہ اللہ تعالی قبل الاشیاء،قال:یاجابر!ان اللہ تعالی قدخلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہ،فجعل ذلک النور یدور بالقدرة حیث شاء اللہ تعالی……الخ“ترجمہ:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا:یارسول اللہ!صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آپ پرمیرے ماں باپ قربان ہوں،آپ مجھے خبردیجئے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کس چیزکوپیداکیا،تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اے جابر!اللہ تعالی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کے نورکواپنے نورسے پیدافرمایااوریہ نوراللہ کی مشیت سے، جہاں چاہتاسیرکرتارہتا ..... . الخ۔(الجزء المفقودمن الجزء الاول،صفحہ63،رقم الحدیث18،مطبوعہ بیروت۔ مواھب اللدنیہ،ج01، ص71،مطبوعہ المکتب الاسلامی،بیروت۔شرح المواہب للزرقانی ،ج01، ص89،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت۔کشف الخفاء،ج01،ص311،مطبوعہ موسسة الرسالة ، بیروت۔السیرة الحلبیہ،ج01 ،ص50،مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت۔تاریخ الخمیس،ج01،ص19،مطبوعہ موسسة الشعبان بیروت۔ جواھرالبحار،ج04،ص220،مطبوعہ مصطفی البابی مصر۔تفسیرروح المعانی، ج08،ص71،مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۔شرح قصیدہ بردہ،صفحہ73،مطبوعہ نورمحمد۔ الحدیقة الندیہ، ج02 ،ص375،مطبوعہ مکتبہ رضویہ۔فتاوی حدیثیہ،صفحہ247،مطبوعہ مصطفی البابی،بیروت۔حجة اللہ علی العالمین،صفحہ28،مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ۔المدخل، ج02، ص34، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت۔الموردالروی،صفحہ40،مطبوعہ بیروت)

   رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”اول ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیئ۔ وفی روایة خلق جمیع الکائنات“ترجمہ:اللہ تعالی نے سب سے پہلے میرے نورکوپیداکیااورمیرے نورسے ہرچیزکوپیداکیا ۔اورایک روایت میں ہے کہ میرے نورسے تمام کائنات کوپیداکیا۔  (مطالع المسرات ،صفحہ121، مطبوعہ مکتبہ نوریہ ۔میلادالنبوی لابن جوزی،صفحہ22،مطبوعہ بیروت)

   خصائص الکبری،المواہب اللدنیہ ،شرح المواہب،السیرة الحلبیہ،کشف الخفاء میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال:کنت نورابین یدی ربی قبل خلق آدم علیہ السلام باربعة عشرالف عام“ترجمہ:بیشک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: میں اپنے رب کے حضور آدم علیہ السلام کے پیداہونے سے بھی چودہ ہزارسال پہلے نورتھا۔(خصائص الکبری،باب خصوصیة النبی،جلد01، صفحہ07،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   امام احمدبن محمدعسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:”قال تعالی یاادم ! ارفع راسک فرفع راسہ فرای نورمحمدفی سرادق العرش فقال:یارب! ماھذاالنور؟ قال:ھذانورنبی من ذریتک اسمہ فی السماء احمدوفی الارض محمدلولاہ ماخلقتک ولاخلقت سماء ولاارضا“ترجمہ:اللہ تعالی نے فرمایا:اے آدم!اپنے سرکواٹھاؤ، پس انہوں نے اپنے سرکواٹھایااورنورِ محمدصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوعرش کے پایوں میں جلوہ گردیکھا،توعرض کی:اے میرے رب !یہ کس کا نورہے؟اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:یہ تیری اولادمیں سے ایک نبی کانورہے، جن کاآسمان میں نام احمدہوگااورزمین میں محمدہوگا،اگرمیں انہیں پیدانہ کرتا،تونہ تمہیں پیداکرتا،نہ آسمان وزمین کوپیداکرتا۔(المواھب اللدنیہ،جلد01،صفحہ09،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   حرفِ مِنْ کے بیانیہ ہونے کے متعلق امام ابو عبداللہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہلکھتےہیں:وھی بیانیۃ، ای: من نور هو ذاته لا بمعنى انها مادة خلق نوره منها بل بمعنى تعلق الارادة به بلا واسطة شیء فی وجودهترجمہ:اور(اس حدیث پاک میں) مِنْ بیانیہ ہے ،یعنی اس نور سے پیدا کیا، جو اللہ پاک کی ذات ہے، یہ مطلب نہیں کہ اللہ پاک کی ذات مادہ ہے،جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا گیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے ساتھ کسی چیز کے واسطے کے بغیر اللہ پاک کے ارادے کا تعلق ہوا۔(شرح الزرقانی المواھب اللدنیۃ، جلد1، صفحہ 90، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:”حدیث میں ”نورہ“فرمایا :جس کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اسم ذات ہے، من نور جمالہ یا نور علمہ یا نور رحمتہ (اپنے جمال کے نور سے یا اپنے علم کے نور سے یا اپنی رحمت کے نور سے ) وغیرہ نہ فرمایا کہ نور صفات سے تخلیق ہو۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالیٰ اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں : ’’(من نورہٖ) ای من نورھوذاتہ‘‘یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نور سے پیدا کیا، جو عین ذات الٰہی ہے ، یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا۔۔۔ ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذاللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کے لیے مادہ ہے،جیسے مٹی سے انسان پیداہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل ، ذاتِ نبی ہوگیا۔ اللہ عزوجل حصے اورٹکڑے اورکسی کے ساتھ متحد ہوجانے یا کسی شَئے میں حلول فرمانےسے پاک ومنزہ ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد30، صفحہ665،666، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا کہ عَمرو  کہتا ہے کہ نورمحمدی کا انفکاک ذات سے ہوا ہے، تو جواب لکھتے ہوئے ارشاد فرمایا:”عمرو کا قول سخت باطل و شنیع و گمراہی فظیع، بلکہ سخت تر امر کی طرف منجر ہے، اللہ عزوجل اس سے پاک ہے کہ کوئی چیز اس کی ذات سے جدا ہو کر مخلوق بنے۔“(فتاوی رضویہ، جلد30، صفحہ660،661، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

   مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لکھتےہیں:”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کا نور ہونے کے نہ تویہ  معنی ہیں کہ حضور خدا کے نور کا ٹکڑا ہیں، نہ یہ کہ رب کا نور حضور کے نور کا مادہ ہے، نہ یہ کہ حضور علیہ السلام خدا کی طرح ازلی ابدی ذاتی نور ہیں، نہ یہ کہ رب تعالیٰ حضور میں سرایت کر گیا ہے، تا کہ شرک وکفر لازم آئے ۔“ (رسالہ نور، صفحہ6، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)

مقالات کاظمی میں ہے:”اس حدیث میں نور کی اضافت بیانیہ ہے اور نور سے مراد ذات ہے، حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نور پاک یعنی ذات مقدسہ کواپنے نوریعنی اپنی ذات مقدسہ سے پیدا فرمایا، اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کی ذات حضور کی ذات کا مادہ ہے یا نعوذ باللہ! حضور کا نور اللہ کے نور کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ہے۔تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا۔(مقالات کاظمی، جلد1، صفحہ56،مکتبۃ ضیائیہ،  راولپنڈی )

    علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:”(کچھ لوگوں )نے سمجھا کہ لفظِ  مِن تبعیضیہ ہے،لہذا یہ معنی کشید کیا کہ اللہ تعالی نے اپنے نور کا ایک حصہ الگ کر کے آپ کے وجود کوتیار کیا،یہ خیال نہ کیا کہ لفظ مِن کئی دوسرے معنوں کے لیے بھی آتا ہے،درسِ نظامی کی ابتدائی کتاب”مأتہ عامل“میں وہ معانی دیکھے جا سکتے ہیں،اس جگہ لفظ  مِن  ابتدائیہ،اتصالیہ ہے،جس کا مفاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نور سے کسی چیز کے واسطے کے بغیر آپ کا نور پیدا کیا اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔“(عقائدونظریات،صفحہ284،مطبوعہ مکتبہ قادریہ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم