مجیب: ابو الحسن جمیل
احمد غوری العطاری
فتوی نمبر:Web-619
تاریخ اجراء: 21ربیع لاول1444 ھ /18اکتوبر2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
غزالئ زماں حضرت علامہ
سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ حضور علیہ
السلام کے علم کے متعلق فرماتے ہیں
: ”اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کا علم عطا فرمایا ہے۔
لوحِ محفوظ میں درج تمام علوم نیز اپنی ذات و صفات کی
معرفت سے متعلّق بہت اور بےشمار علوم عطا فرمائے۔ عُلُومِ خمسہ پر
مطلع فرمایا جس میں خاص وقتِ قِیامت کا علم بھی شامل ہے۔
ساری مخلوقات کے احوال اور تمام مَاکَانَ(جو ہوچکا) اور مَایَکُوْنُ (جو
ہوگا) کا
علم عطا فرمایا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم ’’عطائی (اللہ کریم
کا
عطا کیا ہوا)
‘‘ہونے
کی وجہ سے’’حادِث‘‘ ہے اور اللہ پاک
کا علم’’ ذاتی و قدیم‘‘۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ
کے علم کے برابر نہیں۔“(مقالات کا ظمی،
جلد2،صفحہ130، مطبوعہ ملتان، ملخصاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: فقیر نے قرآنِ عظیم کی آیاتِ
قطعیہ سے ثابت
کیا کہ قرآنِ عظیم نے 23 برس میں بتدریج نزولِ اِجلال
فرما کر اپنے
حبیب صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کو جَمِیع مَاکَانَ وَمَا
یَکُوْن یعنی
روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کی ہر شَے، ہر بات کا علم عطا فرمایا۔“(فتاویٰ
رضویہ،جلد 29،صفحہ512، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے علمِ غیب کے متعلق چند ضَروری
باتیں ذہن نشین فرما لیجئے، ان شاء اللہ عزوجل نبی کریم صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم کے علم غیب سے متعلق
شیطانی وسوسوں کا علاج ہوجائے گا۔
اعلیٰ حضرت، امام اہل سنت شاہ امام احمد
رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں:”(1)بےشک
غیرِ خدا کے لئے ایک ذَرّہ کا علم’’ ذاتی‘‘ نہیں اتنی بات’’ضَروریاتِ
دین‘‘سے ہے اور اس کامنکر (یعنی
انکار کرنے والا)کافر ہے۔(یعنی جو کوئی اللہ پاک کے بتائے بغیر
غیرِخدا کے لئے ایک ذرّے کا بھی علم مانے وہ مسلمان نہیں۔)
(2)
بے
شک غیرِ خدا کا علم اللہ تعالیٰ
کی معلومات کا اِحاطہ نہیں کرسکتا، برابر ہونا تو دُور کی بات۔
تمام اوّلین و آخرین، انبیاء و مرسلین، ملائکہ و مقربین
سب کے عُلوم مل کر عُلومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو
کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصّے کو ہے
کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصّہ دونوں ’’متناہی ‘‘ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے) اور
”متناہی“کو ’’متناہی ‘‘سے نسبت ضَرور ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ
کے علوم غیرمتناہی دَر غیرمتناہی دَر غیرمتناہی ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہے ہی نہیں)اور
مخلوق کے عُلوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق و مغرب، روزِ اوّل تا روزِ آخِر جملہ کائنات
کو محیط ہوجائیں پھر بھی ’’متناہی ‘‘ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں، روزِ
اوّل اور روزِ آخِر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب’’ متناہی ‘‘ہے۔
(3)بالفعل
غیرِمتناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں
سکتا تو جُملہ علومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً نسبت ہونی
محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَ اللہ تَوَہمِ مساوات۔ (یعنی جس بارِی تعالیٰ کے علم کی
حقیقی طور پر کوئی حَد اور کِنارہ نہیں ہے اس کا سارے کا
سارا علم مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا، لہٰذا جب ساری مخلوق
کے سارے عُلوم مل کر بھی اللہ پاک
کے علم سے کسی طرح بھی نسبت نہیں رکھتے تو معاذاللہ انہیں اللہ پاک
کے علم کے برابر ہونے کا وہم و گمان بھی کیسے ہوسکتا ہے۔)
(4)
اس
پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے
انبیائے کرام علیہمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو کثیر و وافِر غیبوں کا عِلم ہے، یہ بھی
ضَروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سرے سے نَبُوّت ہی
کا منکر ہے۔
(5) اس پر بھی
اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں محمد رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حصّہ تمام انبیاء علیہمُ
الصَّلٰوۃوَالسَّلام اور تمام جہان سے اَتَمّ (کامل
ترین) اور
اعظم (سب سے بڑا) ہے، اللہ عَزوجل کی عطا سے
حبیبِ اکرم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ وسلَّم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شُماراللہ عزوَجل ہی جانتا
ہے۔
(فتاویٰ رضویہ،ملخصا،جلد 29،صفحہ450،451، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟