Kya Ulama o Mashaikh Qayamat Ke Din Apne Mureedo Ki Shafaat Kareinge?

کیا مشائخ و علمائے کرام قیامت کے دن اپنے متعلقین کی شفاعت کریں گے؟

مجیب: ابوواصف محمد آصف عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-0470

تاریخ اجراء: 04رجب المرجب  1445 ھ/16جنوری2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ کیا مشائخ  کرام، علمائے کرام  اپنے مریدین ومتعلقین کی بروزِمحشر شفاعت کریں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں بالکل ! بروزِ محشر سید الشافعین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بابِ شفاعت کھولنے کے بعد مشائخِ  کرام ،علمائے کرام  اپنے مریدین ومتعلقین کی ضرورشفاعت فرمائیں گے، بلکہ ہروہ مؤمن جس  کوکوئی دینی منصب عطاہو،جیسے حفاظ کرام ،حجاج کرام اورکامل الایمان مؤمنین وغیرہ ان   کوبھی شفاعت کااذن دیاجائے گا۔جس پر کئی احادیث طیبات شاہد  ہیں ،نیزاس پرکثیر اقوالِ محدثین وفقہا وعلما موجودہیں۔

   حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’يشفع يوم القيامة ثلاثة: الأنبياء، ثم العلماء، ثم الشهداء“یعنی قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے: انبیا، علما اور شہدا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکرالشفاعۃ، الحدیث4313،جلد2،  صفحہ1443،دار إحياء الكتب العربيہ)

   علمائےکرام کوشفاعت کامنصب دیاجائے گا،چناچہ حضرت جابربن عبداللہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”يبعث العالم والعابد، فيقال للعابد: ادخل الجنة، ويقال للعالم: اثبت حتى تشفع للناس“یعنی: عالم اور عابد دونوں کو(قیامت کے دن) دوبارہ زندہ کیاجائے گا ، اس کے بعد عابد سے کہا جائے گا کہ تو جنت میں داخل ہو جا اور عالم کو حکم ہو گا کہ تم ابھی ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو۔ (شعب الايمان ،جلد3،صفحہ 234، مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

      ائمہ کرام وصوفیہ عظام اپنے متبعین  کی شفاعت فرمائیں گے،اس  کے  متعلق امام اجل سیدی  عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتے ہیں:’’قد ذكرنا فى كتاب الاجوبة عن ائمة الفقهاء و الصوفية كلهم يشفعون في مقلديهم ويلاحظون احدهم عند طلوع روحه وعند سوال منكر ونكير له وعند النشر والحشر والحساب و الميزان والصراط، ولا يغفلون عنهم في موقف من المواقف ‘‘ ترجمہ:ہم نے ’’ کتاب الاجوبہ عن الفقہاء والصوفیہ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ تمام ائمہ فقہاء و صوفیہ اپنے اپنے متبعین کی شفاعت کرتے ہیں اور جب ان کے مقلد کی روح نکلتی ہے ، جب منکر نکیر اس سے سوال کو آتے ہیں ، جب اس کا حشر ہوتا ہے ، جب نامہ اعمال کھلتے ہیں، جب حساب لیا جاتا ہے ، میزان اور پل صراط  پر غرض ہر حال میں اس کی نگہبانی فرماتے ہیں اور کسی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے۔(الميزان الكبرى، فصل في بيان جملة من الامثلة ،ج1،ص53،مطبوعہ مصطفى البابي، مصر )

   علماومشائخ کی شفاعت کااعتقاد رکھناضروری ہے،اس کے متعلق’’المعتقد المنتقد‘‘میں ہے : ”ویجب الایمان بانہ یشفع غیرہ ایضا من الانبیاء و الملائکۃ و العلماء و الشھداء و الصٰلحین و کثیر من المومنین وغیرھم من القرآن و الصیام و الکعبۃ وغیرھا مما ورد فی السنۃ‘‘ترجمہ: اور اس بات پر بھی ایمان واجب ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ دیگر انبیاء، فرشتے، علما، شہدا، نیک لوگ اور کثیر مؤمنین اور ان کے علاوہ قرآن پاک، روزہ، کعبہ، وغیرہا وہ چیزیں کہ جن کی شفاعت کا احادیث میں ذکر ہوا ، وہ تمام بھی شفاعت کریں  گی۔ (المعتقد المنتقد، صفحہ227،داراھل سنت ،کراچی)

      مشائخ عظام اپنےمریدوں کی شفاعت کریں گے اس کی تصریح کتب ائمہ میں موجود ہے،چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:’’ اللہ کی طرف وسیلہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف وسیلہ مشائخ کرام، سلسلہ بہ سلسلہ جس طرح اللہ عزوجل تک بے وسیلہ رسائی محال قطعی ہے،یونہی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک رسائی بے وسیلہ دشوار عادی ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صاحب شفاعت ہیں، اللہ عزوجل کے حضور وہ شفیع ہوں گے اور ان کے حضور علماء واولیاء اپنے متوسلوں کی شفاعت کریں گے، مشائخ کرام دنیا ودین و نزع وقبر و حشر سب حالتوں میں اپنے مریدین کی امداد فرماتے ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد21، ص464،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   صدرالشریعہ ،بدرالطریقہ ،مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمۃمحشر کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اب(یعنی شفاعت کا دروازہ کھلنے کے بعد ) تمام انبیاء اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے، اولیائے کرام، شہدا، علما، حفاظ، حجاج ، بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دینی عنایت ہوا ، اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کرے گا۔ نابالغ بچے جو مرگئے ہیں، اپنے ماں باپ کی شفاعت کریں گے، یہاں تک کہ علما کے پاس کچھ لوگ آکر عرض کریں گے، ہم نے آپ کے وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھردیا تھا، کوئی کہےگا :کہ میں نے آپ کو استنجے کے لیے ڈھیلا دیا تھا ،علما ان تک کی شفاعت کریں گے۔‘‘(بھار شریعت،ج1،ص139تا141،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   صدرالافاضل،فخرالاماثل حضرت علامہ مفتی محمدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:”حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شفاعتیں کئی طرح کی ہوں گی، بہت لوگ تو آپ کی شفاعت سے بے حساب داخلِ جنت ہوں گے اور بہت لوگ جو دوزخ کے مستحق ہوں گے ،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے دخولِ  دوزخ سے بچیں گے اور جو گنہگار مؤمن دوزخ میں پہنچ چکے ہوں گے ، وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے دوزخ سے نکالے جائیں گے۔ اہلِ جنّت بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے فیض پائیں گے،ان کے درجات بلند کیے جائیں گے۔ باقی اور انبیاء ومرسلین علیہم السلام و صحابہ کرام و شہداء و علماء واولیا ء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنے متوسلین کی شفاعت کریں گے۔لوگ علماء کو اپنے تعلقات یاد دلائیں گے،اگر کسی نے عالِم کو دنیا میں وضو کے لیے پانی لا کر دیا ہوگا، تو وہ بھی یاد دلا کر شفاعت کی درخواست کرےگا اور وہ اس کی شفاعت کریں گے۔“(کتاب العقائد،صفحہ34،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :”یقیناً کسی سے مریدہونے کے بعد اس کی امیدہے  کہ اگراس کاپیرنہیں ،تواس کے اوپرکے مشائخ قیامت  کے دن اس کی شفاعت  فرمائیں گے ،اتناتوصحیح حدیث سے ثابت ہے  کہ علما اپنے متعلقین  کی شفاعت فرمائیں گے ،مریدین اپنے پیرکے متعلقین میں سے یقیناًہیں ۔“ ( فتاوی شارح بخاری ،جلد2،صفحہ251،برکات اھلسنت ،کراچی)

      کامل مؤمنین کوشفاعت کامنصب دیاجائے گا،چنانچہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’استكثروا من الاخوان فان لكل مؤمن شفاعة يوم القيمة ‘‘رواه ابن النجار في تاريخه عن انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنه‘‘ ترجمہ:اللہ کے بکثرت نیک بندوں سے رشتہ و علاقہ محبت پیدا کرو کہ قیامت میں ہر مؤمن (کامل) کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔ اس کو ابن النجار نے اپنی تاریخ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیاہے ۔( کنز العمال بحوالہ ابن نجار عن انس، حدیث24642،ج4،ص9،مؤسسة الرساله ،بیروت)

      مؤمنین  اپنے بھائیوں کی شفاعت کریں گے،چنانچہ بخاری شریف کی حدیث اس بات پر شاہد ہے ، ایک طویل حدیث کاایک جز ملاحظہ ہو:’’فما أنتم بأشد لي مناشدة في الحق قد تبين لكم من المؤمن يومئذ للجبار وإذا رأوا أنهم قد نجوا في إخوانهم يقولون ربنا إخواننا كانوا يصلون معنا ويصومون معنا ويعملون معنا فيقول اللہ تعالى اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دينار من إيمان فأخرجوه ويحرم اللہ صورهم على النار فيأتونهم وبعضهم قد غاب في النار إلى قدمه وإلى أنصاف ساقيه فيخرجون من عرفوا ثم يعودون فيقول اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال نصف دينار فأخرجوه فيخرجون من عرفوا ثم يعودون فيقول اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال ذرة من إيمان فأخرجوه فيخرجون من عرفوا قال أبو سعيد فإن لم تصدقوني فاقرءوا﴿اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ۚ وَ اِنۡ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا﴾فيشفع النبيون والملائكة والمؤمنون فيقول الجبار بقيت شفاعتي فيقبض قبضة من النار فيخرج أقواما قد امتحشوا ‘‘ترجمہ:تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو،اس سے زیادہ مسلمان لوگ اللہ سے تقاضا اور مطالبہ کریں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے، تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات عطا فرما) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان پاؤ ،اسے دوزخ سے نکال لو اور اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض کا تو جہنم میں قدم اور آدھی پنڈلی جلی ہوئی ہے۔ چنانچہ جنہیں وہ پہچانیں گے انہیں دوزخ سے نکالیں گے، پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں آدھی اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکالیں گے۔ پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ پہچانے جانے والوں کو نکالیں گے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے ،تو یہ آیت پڑھو ﴿اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ۚ وَ اِنۡ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا﴾ترجمہ :’’اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اگر نیکی ہے، تو اسے بڑھاتا ہے۔“ پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے شفاعت کریں گے اور پروردگار کا ارشاد ہوگا کہ اب سوائے ارحم الرّٰحمین کے کوئی باقی نہ رہا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھر لے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہوچکے ہوں گے۔(صحیح  البخاری ،کتاب التوحید، جلد 9 ،صفحہ 128،مطبوعہ دار طوق النجاہ،  بيروت)

      شفاعت کرنے والوں کے بارےجامع ترمذی اورمشکوۃ شریف میں ہے:حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”إن من أمتي من يشفع للفئام من الناس ومنهم من يشفع للقبيلة، ومنهم من يشفع للعصبة، ومنهم من يشفع للرجل حتى يدخلوا الجنة“یعنی :میری امت میں سے بعض وہ ہیں جو ایک جماعت کی شفاعت کریں گے،بعض وہ جو ایک خاندان کی شفاعت کریں گے،بعض وہ ہیں جو ایک کنبہ کی شفاعت کریں گے بعض وہ ہیں جو صرف ایک آدمی کی شفاعت کریں گے حتی کہ یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔(جامع ترمذی،جلد4،صفحہ627،مصطفى البابي الحلبي ، مصر)

   مفسرقرآن ،شارح  مشکوۃ ،حکیم الامت، مفتی احمدیارخان  نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں: ’’فئام‘‘جمع ہے اس کا واحد کوئی نہیں۔اس کے معنی ہیں جماعت،بعض نے فرمایا یہ جمع ہے’’فئۃ‘‘ کی۔قبیلہ وہ جماعت جو ایک دادا کی اولاد ہو۔عصبۃ بھی جمع ہے جس کا واحد کوئی نہیں،یہ دس سے چالیس تک پر بولی جاتی ہے۔اس حدیث کی تفصیل دوسری احادیث میں وارد ہے کہ حافظ پانچ پشت کی،عالم چودہ پشت کی،شہید اتنی جماعت کی شفاعت کریں گے وغیرہ۔ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ قیامت میں اولًا عدل الٰہی کا ظہور ہوگا،اس وقت حضور کے سوا کوئی شفاعت نہ کرے گا،بعد میں فضل الٰہی کا ظہور ہوگا اس وقت اور حضرات بھی شفاعت کریں گے۔یہاں دوسرے وقت کا ذکر ہے اس وقت مؤمنین بھی شفاعت کریں  گے۔’’من امتی ‘‘فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ  یہ شفاعتیں امت محمدیہ کے لیے ہیں کہ ان کے علماء صالحین شفاعت کریں گے۔“(مرآۃ المناجیح،جلد7،صفحہ340،قادری پبلشرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم