Kya Wasile Ka Saboot Quran o Hadees Se Hai ?

کیا وسیلے کا قرآن و حدیث سے ثُبوت ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8062

تاریخ اجراء:       02 ربیع الاوّل 1444 ھ / 29 ستمبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ میرا ایک دوست ہے ، جو وقتاً فوقتاً مجھے پریشان کرتا رہتا ہے ۔ کہتا ہے کہ تم لوگ جو دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگتے ہو ، یہ درست نہیں ہے ، گناہ ہے ، مجھےبتائیں کہ قرآن و حدیث میں کس جگہ پر وسیلہ اختیار کرنے  کا کہا گیا ہے ؟ برائے کرم تفصیل سے آگاہ کر دیجیے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفسِ مسئلہ کو جاننے سے پہلے وسیلہ کا  معنیٰ و مفہوم جان لیجیے ۔

   لغوی اعتبار سے وسیلہ کا معنیٰ ہے :ھی فی الاصل ما یتوصل بہ الی الشی و یتقرب بہ  یعنی  دراصل وسیلہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی تک پہنچا جائے اور اس کا قُرْب حاصل کیا جائے۔ ( لسان العرب ، جلد 11 ، صفحہ 725 ، مطبوعہ بیروت)

    اور شرعی لحاظ سےوسیلہ کا مطلب ہے کہ  دعاؤں کی قبولیت اور مَطالِب کے  حصو ل کے لئے  اپنے نیک اعمال کو  یا اللہ پاک کے مقرَّب بندوں ، یعنی انبیائے کرام عَـلَـيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام و اولیائے عِظام رَحِمَهُمُ الـلّٰـهُ تَـعَالٰی کو  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ اور واسطہ بنانا ،  کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری نسبت زیادہ قُرْب حاصل ہے ، اللہ تعالیٰ ان کی دُعا جلد پوری فرماتا ہے اور ان کی شفاعت قبول فرماتاہے۔

   اس اعتبار سے وسیلہ کی بنیادی طور  پر دو قسمیں بنتی ہیں :

   (1)  توسل بالاَعمال   ، یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما۔

   (2 ) توسل بالذوات   ، یعنی انبیائے کرام عَـلَـيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام و اولیائے عِظام رَحِمَهُمُ الـلّٰـهُ تَـعَالٰی کے وسیلے سے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح دعا کرنا کہ اے اللہ ! اپنے فلاں نیک بندے کے صدقے اور وسیلے سے میری فلاں حاجت پوری فرما ۔

   وسیلہ کا مفہوم و اقسام واضح ہو جانے کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں نیک اعمال  یا  اللہ پاک کے مقرَّب و برگزیدہ بندوں کا ان کی حیاتِ ظاہری میں یا بعدِ وصال وسیلہ پیش کرنا ، جائز و مستحسن ہے کہ  یہ دعاؤں کی قبولیت، مشکلات کے حل، مصائب و آلام سے چھٹکارے اور دینی و دُنیوی بھلائیوں کے حُصول کا آسان ذریعہ ہے۔ قرآن و حدیث اور اَقوال و اَفعالِ بُزرگانِ دین سے وسیلہ اِختیار کرنے کا واضح ثُبوت ملتا ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا ،  خود نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے ۔

   قرآنِ پاک سے وسیلہ اختیار کرنے کا ثبوت :

   قرب خداوندی کے حصول کےلئے  کے لیے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم  ہے،  چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ ﴾ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔(پارہ6، سورۃ المائدہ، آیت35)

   اس آیتِ مبارکہ  کے تحت توسّل پر تفصیلی کلام مع دلائل ذکر کرنے کے بعد علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1270ھ/1853ء)  لکھتےہیں:”و بعد ھذا کلہ انا  لااری باسا فی التوسل الی اللہ بجاہ النبی صلی اللہ علیہ و سلم عند اللہ تعالیٰ حیا و میتا “ترجمہ :ان تمام دلائل کے بعد میں اللہ پاک کی بارگاہ میں نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وجاہت کا وسیلہ پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ، چاہے حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظاہری حیات کے ساتھ جلوہ فرما ہونے کے وقت ہو یا وصال ظاہری کے بعد ہو۔(تفسیر روح المعانی، جلد3،صفحہ297،تحت ھذہ الآیۃ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت)

   وسیلہ اختیار کرنا ، انبیائے کرام عَـلَـيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام و صالحینِ عظام رَحِمَهُمُ الـلّٰـهُ تَـعَالٰی  کا طریقہ ہے ، جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ ﴾ترجمۂ کنزا لعرفان : وہ مقبول بندے  ( یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ،  حضرت عُزَیْر علیہ السلام یا فرشتے وغیرہ  ) جن کی یہ کافر عبادت کرتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے ۔(سورۃ بنی اسرائیل ، آیت 57 )

   نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے یہودی اپنی حاجات کے لیے نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے دعا کیا کرتے تھے  اور کامیاب بھی ہوتے تھے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ  كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ترجمۂ کنز العرفان : اور اس سے پہلے یہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں کے خلاف فتح مانگتے تھے ۔( پ 1 ،سورۃ بقرۃ ، آیت 89 )

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ كا شانِ نزول بيان كرتے ہوئے امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ( سالِ وفات : 606 ھ) لکھتے ہیں :أن اليهود من قبل مبعث محمد عليه السلام ونزول القرآن كانوا يستفتحون، أي يسألون الفتح والنصرة وكانوا يقولون : ‌اللهم ‌افتح ‌علينا وانصرنا بالنبي الأمي ترجمہ : نبی آخر الزمان   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور قرآن کریم کے نزول سے پہلے یہودی اپنی حاجات کے لیے حضور پُر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نامِ پاک کے وسیلہ سے کامیابی اور مدد کی  دعا کیا  کرتے  تھے اور  کہتے تھے۔’’اللّھمّ افتح علینا وانصرنا بالنّبیِ الامّیِ‘‘ یارب! ہمیں امّی نبی کے صدقہ میں فتح و نصرت عطا فرما۔( تفسیرِ کبیر ، تحت الآیۃ 89 ، جلد 3 ،صفحہ 598 ، مطبوعہ بیروت )

   اختصار کے پیشِ نظر انہی پر اکتفا کیا جاتا ہے ، ورنہ  بہت سی آیاتِ مبارکہ پیش کی جا سکتی ہیں ۔

   احادیثِ طیّبہ سے وسیلہ اختیار کرنے کا ثبوت :

   اللہ پاک کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا عملِ  مصطفیٰ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) ہے ،   چنانچہ معجمِ کبیر میں ہے :عن امية بن خالد، قال: ‌كان ‌النبي صلى اللہ عليه وسلم يستفتح و‌يستنصر بصعاليك المسلمين ترجمہ : حضرت امیہ بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسلمان فقرا کے وسیلے سے فتح و نصرت طلب فرماتے تھے۔(معجم کبیر،جلد 1،صفحہ292،  مطبوعہ  القاھرۃ )

   نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خود ایک  صحابی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اپنے وسیلے سے دعا مانگنے کی تعلیم و ترغیب ارشاد فرمائی ، چنانچہ سننِ کبریٰ ، مسنداحمد وغیرہ عامہ کتبِ احادیث میں ہے ، واللفظ للاوّل  :عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف، عن عمه: أن أعمى، أتى النبي صلى اللہ عليه وسلم فقال: يا رسول اللہ ، ادع اللہ أن يكشف لي عن بصري، قال: أو أدعك؟  قال: يا رسول اللہ إنه شق علي ذهاب بصري، قال: فانطلق فتوضأ، ثم صل ركعتين، ثم قل: "اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيي محمد نبي الرحمة، ‌يا ‌محمد ‌إني ‌أتوجه بك إلى ربك أن تكشف لي عن بصري، شفعه في وشفعني في نفسي  "فرجع وقد كشف له عن بصره ترجمہ : حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف  ، اپنے چچا  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے ، یارسول اللہ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ )!میرے لیے اللہ پاک کی بارگاہ  میں دعا کیجئے کہ وہ مجھے بینائی عطا فرما  دے ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ( اگر تم چاہو  تو میں  اس کو تمہارے لیے مؤخر کر دیتا ہوں ) یا ( چاہو تو ) میں دعا کر دیتا ہوں ۔ عرض کی :یار سول اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) ! میری بصارت کا چلا جانا مجھ پر بہت شاق ہے ، ( لہٰذا آپ دعا فرما دیجئے )  ارشاد فرمایا : جاؤ وضو کرکے دو رکعتیں ادا کرو ، پھر  یوں کہو :  " اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرےرحمت والے نبی محمد  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں ۔یا رسول اللہ ! میں آپ کے وسیلے سے آپ کے رب کی  طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ (اے اللہ ! ) مجھے بصارت عطا فرما ، اپنے نبی کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما اور میری التجا کو بھی اپنی بارگاہ میں قبول فرما  ۔ " ( راوی کہتے ہیں کہ ) جب وہ نابینا صحابی یہ دعا کرکے واپس آئے ، تو ان کی بینائی واپس آ چکی تھی ۔(السنن الکبریٰ ، جلد 9 ،صفحہ 245 ، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت )

   حضرت فاطمہ بنت اسدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی تدفین کے بعد نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا فرماتے ہوئے اپنااور گزشتہ تمام  انبیائے کرام علیہم السلام کا وسیلہ پیش فرمایا ، چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: ”اغفر لامی فاطمۃ بنت اسد و لقنھا حجتھا  و وسع علیھا مدخلھا بحق نبیک و  الانبیاء الذین من قبلی  فانک ارحم الراحمین “ترجمہ:اے اللہ ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما، اس کی حجت اسے سکھا دے اور اپنے نبی کے توسل اور مجھ سے گزشتہ انبیائے کرام کے توسل سے اس کی قبر کو وسیع فرما دے۔بیشک تورحم کرنے والوں سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔(المعجم الکبیر،ج24،ص351، رقم الحدیث871 ، مطبوعہ القاھرۃ)

   اِن جیسے دلائل کے پیشِ نظر شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   لکھتے  ہیں:”توسل بانبیائے دیگر  صلوات اللہ علیھم اجمعین بعد از وفات جائز است بسید انبیاء علیہ افضل الصلوٰۃ و اکملھا بطریق اولیٰ جائز باشد“ترجمہ: دیگر انبیائے کرام علیہم السلام سے بعد از وصال توسل جائز ہے، تو سید الانبیاء  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے بدرجہ اولیٰ جائز ہے ۔(جذب القلوب، فارسی ،صفحہ220،مطبوعہ لکھنؤ)

   اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرنا بھی احادیثِ طیّبہ سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح بخاری  و صحیح مسلم میں ہے : ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: تین آدمی جار ہے تھے اتنے میں بارش شروع ہو گئی ، تو وہ پہاڑ کی غار  میں داخل ہو گئے   ، پہاڑ پر سے  ایک چٹان غار کے منہ پر آ گری اور  غار کا منہ  بند  ہو گیا، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اپنے اپنے  اُن نیک اعمال  پر غور کر و  جو خالصۃًاللہ کے لیے کیے ہیں اور ان اعمال کے وسیلے سے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا مانگو ، شاید اللہ پاک ان کے وسیلے سےتمہیں نجات عطا فرما دے ، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ !  میرے  بوڑھے ماں باپ تھے ، ساتھ  میری بیوی اور میرے چھوٹے  بچے بھی تھے  ، میں ان کے لیےبکریاں چَرایا کرتا تھا ،  پھر جب میں شام کو گھر آتا ،  تو ان کا دودھ دوہتا ، سب سے پہلے اپنے ماں باپ  کو دودھ پیش کرتا ، ان کو اپنے بچوں سے  بھی پہلے پلاتا تھا ۔ ایک دن میں چارے کی تلاش میں دُور نکل گیا ،جب رات کو واپس آیا ، تو میرے والدین سو چکے تھے   ،تو میں نے پہلے کی طرح ہی دودھ دوہا  اور دودھ کا پیالہ ان کے سر کے پاس لے کر کھڑا رہا ، لیکن ان کو جگانا ، مناسب نہ سمجھا اور اپنے والدین سے پہلے ، اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھی نا پسند جانا ، حالانکہ میرے بچے میرے قدموں میں رو رہے تھے  اور اسی طرح کھڑا رہا ، حتی کہ فجر ہو گئی ، اے اللہ ! اگر  میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا تھا ، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ بنا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ، (نبی پاک  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے ارشاد فرمایا :)وہ چٹان اتنی ہٹ گئی کہ انہوں نے آسمان کو دیکھ لیا ۔دوسرے نے عرض کی : اے اللہ !  مجھے اپنے چچا کی لڑکی سے اتنی محبت تھی کہ جتنی کوئی مرد کسی عورت سے کرتا ہے ،  تو میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ،تو اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے تم میرے پاس ایک سو دینار لے کر آؤ ،  میں نے کوشش کی ، تو ایک سو دینا ر جمع ہو گئے  ، تو میں اس کے پاس آیا اور جب اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا ، تو اس نے کہا  : اے اللہ کے بندے !  اللہ سے ڈر  اور مُہر کو  صرف حق کے ساتھ ہی کھول ،تو میں اس سے دُور ہَٹ گیا ،اے اللہ ! اگر میں نے یہ عمل  تیری رضا کے لیے کیا تھا ،تو ہمارے لیے راستہ بنا دے ، تو اللہ پاک نے ان کے لیے مزید راستہ بنا دیا  ۔ تیسرے نے کہا  :  اے اللہ ! میں ایک شخص کو ایک فرق (ماپنے کا ایک پیمانہ )چاولوں کے بدلے میں اجیر   کیا تھا ، جب وہ اپنا کام مکمل کر چکا  ، تو میں نے اس کو اس کی اجرت دی ،تو اس نے انکار کر دیا ، تو میں  ان چاولوں کو اُگاتا رہا  ، یہاں تک کہ اس مال سے گائے ، بیل اور چرواہا خرید لیا  ،تو پھر وہ ایک دن میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر ! اور مجھے میرا حق دیدے  ، تو میں نے اس کو کہا کہ یہ گائے بیل اور چرواہا لے جا ، اس نے کہا کہ خدا کا خوف کرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو  ،تو میں نے کہاکہ میں مذاق نہیں کررہا ، تم یہ سب کچھ لے جاؤ ، تو اس نے لیا اور ( ہنسی خوشی ) چلا گیا ، اے اللہ ! اگر  یہ عمل  تیرے علم میں تیری رضا کی خاطر ہوا ہے ، تو  چٹان کا جو حصہ رہ گیا ہے،  اسے بھی کھول دے ، اللہ پاک نے ان کے لیے اس چٹان کو ہٹا دیا(اور وہ لوگ اس غار سے باہر نکلے)۔( صحیح بخار ی ، کتاب المزارعۃ ، جلد 1 ، صفحہ 411 ، مطبوعہ لاھور )

   انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ اولیا و صالحین رَحِمَهُمُ الـلّٰـهُ تَـعَالٰی کا وسیلہ پیش کرنا بھی جائز و باعثِ حصولِ مطالب ہے  ،چنانچہ  سیّدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  نے حضرت سیّدنا عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے وسیلہ سے دعا کی ، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے :”ان عمر بن الخطاب رضي اللہ عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال: اللهم إناكنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا  وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا“ترجمہ: جب قحط پڑا، تو  حضرت سیدنا عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہمَا کے وسیلے سے بارش کی  دعا مانگی ، تو  آپ نے عرض کیا :اے اللہ ! ہم تیرے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے، تو تُو بارش برساتا تھا  اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں، ہم پر باش نازل فرما۔(صحیح بخاری، جلد2، صفحہ27، مطبوعہ  دار طوق النجاۃ)

   جلیل القدر محدث، علامہ ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مذکورہ  بالا روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”يستفاد من قصة العباس استحباب الاستشفاع بأهل الخير والصلاح وأهل بيت النبوة “ترجمہ:حضرت سیدنا عباسرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے واقعےسےیہ  بات مستفاد  ہوئی کہ نیک لوگوں اور اہلبیتِ اَطہار علیہم الرضوان کے وسیلے سے شفاعت طلب کرنا ،  مستحب ہے۔(فتح الباری، جلد2، صفحہ498، دار المعرفۃ، بیروت)

   اَقوال و افعالِ بزرگانِ دین سے وسیلہ کا ثبوت :

   امام الائمہ کاشف الغمّہ امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ    نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ میں عرض کرتے ہیں : انت الذی لما توسل ادم من زلّۃ بک فازوھو اباک ترجمہ : آپ ہی وہ ہستی ہیں کہ جب جدِّاعلیٰ آدم علیہ السَّلام نے لَغزِش کے سبب آپ کا وسیلہ پکڑا  ، تو وہ کامیاب ہوئے۔(المستطرف فی کل فن مستظرف  ،صفحہ 241 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت )

   امامِ شافعی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنے کے قائل تھے ،چُنانچہ خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نقل فرماتے ہیں :إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم  يَعْنِي زائرا  فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت اللہ تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى ترجمہ : (حضرت امام شافعی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : )میں حضرت امام اعظم رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے برکت   حاصل کرتا تھا ، میں ہر روز ان کی قبر شریف پر حاضری دیا کرتا تھا ، جب مجھے کوئی حاجت در پیش ہوتی ، تو ان کی قبر کے پا س آ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں سوال کرتا ،تو میرے ہٹنے سے پہلے میری حاجت پوری کر دی جاتی تھی ۔(تاریخ بغداد،باب ما ذكر فی مقابر بغداد المخصوصة،جلد 1 ،صفحہ 135 ، مطبوعہ بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم