مجیب: مفتی
محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7753
تاریخ اجراء: 17
رجب المرجب 1443ھ/19 فروری 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ
مزار کی جانب رُخ کر کے سجدہ کرتے ہیں، مگر اُن کی ہیئت یہ
ہوتی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دعا کی
طرح یعنی دونوں ہتھیلیاں سامنے کر کے اُس پر اپنی پیشانی
اور چہرہ رکھتے ہیں، یعنی براہِ راست پیشانی زمین
پر نہیں رکھتے، بلکہ زمین اور اپنی پیشانی کے مابین
اپنی ہتھیلیاں لے آتے ہیں اور اور دعائیں مانگتے ہیں۔ اِس حالت میں دیکھنے والا شخص یہی
سمجھتا ہے کہ معاذاللہ یوں جھکا ہوا شخص سجدہ کر رہا ہے۔ سوال یہ
ہے کہ مزارات کے رُوبرو ایسا انداز اختیار کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضری بلاشبہ باعث سعادت وبرکت ہے،
لیکن معاذاللہ، مزار
کی طرف رُخ کر کے ایسی ہیئت اختیار کرنا کہ جیسی سجدے میں کی
جاتی ہے، سوائے اس فرق کے کہ
پیشانی زمین پر
نہ لگے، بلکہ درمیان میں ہتھیلیاں حائل کر کے چہرہ
زمین پر رکھا جائے ، سخت ناجائز، گناہ اور حرام ہے۔ فقہائے کرام نے تو
افضل الخلق، محبوب رب العالمین، سرکارِ ابد قرار، حضور پرنور صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ
پُرانوار کے سامنے زمین چومنے کو بھی ممنوع اور بدعت قرار دیا،
حالانکہ یہ ہیئتِ سجدہ
بھی نہیں اور فقط دو سے تین سیکنڈ کا محض جھکنا
ہے۔ سجدہ نہ ہونے کی وجہ یہ
ہے کہ زمین چومنے میں فقط ہونٹ زمین کو چھوتے ہیں،
پیشانی یا ناک زمین پر نہیں لگتی ۔ اب
جبکہ صرف زمین چومنا بھی ممنوع ہے، تو سوال میں بیان
کی گئی صورت کیوں کر جائز
ہو سکتی ہے کہ باقاعدہ سجدہ
کے نہایت مشابہ ہیئت اپنائی جائے ، پیشانی کو ہتھیلیوں پر جمایا جائے اور پھر دیر تک اُسی حالت
میں رہ کر دعائیں مانگی جائیں؟ ایسا انداز
اختیار کرنا، ہرگزجائز اور درست نہیں، بلکہ تعلیماتِ
دینیہ کے صریح خلاف
ہے۔
اِسی طرح فقہائے اسلام نے علماء ربانیین اور بزرگانِ
دین کی بارگاہ میں
حاضری کے آداب بیان کرتے ہوئے یہ واضح لکھا کہ اُن کی
بارگاہ میں حاضر ہوتے وقت زمین نہ چومی جائےکہ اگرچہ یہ
حقیقی سجدہ نہیں، لیکن صورۃً سجدہ
اور بتوں کی عبادت کے مشابہ فعل ہے،
لہذا حرام ہے۔
چنانچہ
تنویرالابصار و درمختار میں ہے:’’ کذا ما یفعلونہ من تقبیل
الارض بین یدی العلماء والعظماء فحرام والفاعل والراضی بہ
آثمان، لانہ یشبہ عبادۃ الوثن‘‘
ترجمہ:جیسا کہ بعض جاہل لوگ، علما
یا بزرگوں کےسامنے زمین چومتے ہیں، ایسا کرنا حرام ہے اور
زمین چومنے والا اور اِس پر راضی رہنے والا، دونوں گنہگار ہوں گے،
کیونکہ یہ عمل اور حرکت بتوں کی پوجا کے مشابہ ہے۔(تنویر الابصار مع درمختار،جلد9،
صفحہ 632،مطبوعہ کوئٹہ )
مذکورہ عبارت”لانہ یشبہ عبادۃ الاوثان الوثن“ کے تحت علامہ اَحمد
طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے
ہیں:’’من حیث
ان فیہ صورۃ السجود لغیر اللہ تعالیٰ‘‘ ترجمہ:حرام ہونا اِس حیثیت سے ہے
کہ اِس انداز میں صورۃً
غیر اللہ کو سجدہ کرنا پایا جارہا ہے۔(یعنی
حقیقی طور پر اگرچہ سجدہ نہیں، مگر صورۃً سجدہ ہے۔)(حاشیۃ الطحطاوی
علی الدر المختار، جلد11، صفحہ 138، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے
ہیں:’’ زمین
بوسی حقیقۃ سجدہ نہیں کہ سجدہ میں
پیشانی رکھنی ضروری ہے، جب یہ اس وجہ سے حرام ومشابہ بت پرستی ہوئی کہ
صورۃً قریب سجدہ ہے، تو خود سجدہ کس درجہ سخت حرام اور بت پرستی
کا مشابہ تام ہوگا۔والعیاذ باللہ
تعالیٰ‘‘ (فتاویٰ
رضویہ، جلد22،صفحہ471، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
دوسری
جگہ بصراحت مزارات کے سامنے زمین
چومنے کے متعلق لکھتےہیں:’’مزارات کو سجدہ یا اُن کے سامنے
زمین چومنا حرام اورحد رکوع تک جھکنا ممنوع۔”المنسک المتوسط“ از ملا
علی قاری رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ میں ہے:’’لایمس عند زیارۃ
الجدار ولایقبلہ ولا یلتصق بہ
ولایطوف ولاینحنی ولا یقبل الارض فانہ ای کل واحد بدعۃ
غیر مستحسنۃ‘‘ ترجمہ: نبی
اکرم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار
میں حاضری کے وقت نہ دیوار کو ہاتھ لگائے، نہ چومے، نہ اس سے
چمٹے، نہ طواف کرے، نہ جھکے، نہ زمین چومے کہ یہ سب بدعاتِ
قبیحہ ہیں۔(میں کہتاہوں کہ) بوسہ میں اختلاف ہے اور
چھونا چمٹنا اِس کے مثل اور اَحوط منع اور علت خلاف ادب ہونا۔(فتاویٰ رضویہ،
جلد22،صفحہ474،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
جب مزارات کے سامنے زمین چومنا حرام
ہے،کہ یہ سجدہ کے مشابہ اور
صورۃً سجدہ ہی ہے، تو مزار کے
سامنے ہاتھوں کو چہرے پر رکھ کر باقاعدہ
سجدہ کی ہیئت اختیار کرنا اور دیر تک دعائیں مانگتے
رہنا، بلاشبہ زمین چومنے سے بڑھ کر ہے، لہذا بدرجہ اَولیٰ ممنوع اور حرام
ہے۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟