Na Baligh Bacha Esal e Sawab Kar Sakta Hai Ya Nahi?

نابالغ بچہ ایصالِ ثواب کر سکتا ہے یا نہیں ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6200

تاریخ اجراء:23شوال المکرم1440ھ/27جون 2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر نابالغ بچے نے قرآنِ پاک کی تلاوت کی،تو کیا وہ بھی اس کا ثواب کسی دوسرے کو ایصال کر سکتا ہے؟ کیونکہ بعض اوقات ختم پڑھنے کے لیے بچے گھروں میں جاتے ہیں،تو ان میں نابالغ بچے بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی تلاوت کا ثواب دوسروں کو ایصال کر دیتے ہیں،کیاان کا ایصالِ ثواب کرنا درست؟سائل:محمد عمر خیام(ٹیکسلا)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ بچے یا بچی نےاگر نماز پڑھی یاقرآنِ پاک کی تلاوت کی یااس کے علاوہ کوئی بھی نیک کام کیا،تو وہ بھی بالغ افراد کی طرح اس کا ثواب دوسروں کو ایصال کر سکتے ہیں ۔تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ نابالغ پر اگرچہ عبادات واجب نہیں ،مگر جب وہ  عبادت کرتا ہے ،تو اسے عبادت کا ثواب ملتا ہےاور شریعتِ مطہرہ کااصول ہے کہ ہر شخص (چاہے بالغ ہو یا نابالغ وہ )اپنی عبادات پر حاصل ہونے والا ثواب دوسروں کو ایصال کر سکتا ہے،لہٰذا نابالغ کا قرآنِ پاک کی تلاوت وغیرہ کا ثواب دوسروں کو ایصال کرنا درست ہے۔

   مزید یہ بھی یاد رہے کہ شریعت مطہرہ نے نابالغ کو جن  تصرفات سے منع کیا ہے ،ان سے  مراد ایسے تصرفات ہیں،جن میں نابالغ کانقصان ہو ،جیسے قرض دینا یا نقصان کا احتمال ہو، جیسے خریدو فروخت کرنا،ان کے علاوہ ایسے تصرفات جن میں نقصان یا نقصان کا احتمال نہ ہو ،بلکہ محض  فائدہ ہی ہو،تو شریعت ان تصرفات سے نابالغ کو منع نہیں کرتی،کیونکہ نابالغ کو اگر ان  تصرفات سے بھی روک دیا جائے ،تو یہ اس پر شفقت نہیں،بلکہ ایسا کرنا خلافِ شفقت اورنقصان کا باعث ہے۔اب اس تفصیل کے بعد دیکھا جائے ،تو ایصالِ ثواب کرنے میں نابالغ کا کوئی نقصان نہیں اور نہ ہی نقصان کا کوئی احتمال ہے،بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے ،کیونکہ ایصالِ ثواب کرنے سے ثواب کم نہیں ہوتا ،بلکہ بڑھتا ہے،لہذا اس اعتبار سے بھی نابالغ اپنی نیکیوں کا ثواب دوسروں کو ایصال کر سکتا ہے۔

   نابالغ کی عبادات درست ہیں اور اسے ان کا ثواب بھی ملتا ہے۔چنانچہ صحیح مسلم اور سننِ نسائی وغیرہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں:واللفظ لمسلم:’’لقي ركبا بالروحاء، فقال:من القوم؟قالوا:المسلمون،فقالوا:من انت؟ قال : رسول اللہ،فرفعت اليه امراة صبيا، فقالت: الهذا حج؟ قال:نعم! ولك اجر‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم روحاء کے مقام پر کسی قافلہ سے ملے ،تو ارشاد فرمایا:تم کس قوم سے تعلق رکھتے ہو ؟انہوں نے کہا:ہم مسلمان ہیں ،پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ کون ہیں ؟ارشاد فرمایا:اللہ کا رسول ہوں ۔پس ایک عورت بچے کو اٹھائے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی :کیااس بچے کا بھی حج ہو سکتا ہے ؟ارشاد فرمایا:جی ہاں !اور تجھے بھی ثواب ملے گا۔(الصحیح لمسلم ،کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ ،ج1،ص431،مطبوعہ کراچی)

   اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:’’ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم‘‘ترجمہ:اس سے مراد یہ ہے کہ بیشک عورت کو بچہ اٹھانے اور مُحرِم کو جن چیزوں سے بچنے کا حکم ہے ،ان سے بچے کو بچانے کی وجہ سے ثواب دیا جائے گا ۔بعض علماء نے اس حدیث کی بناء پر یہ استدلال کیا ہے کہ بچے کو  طاعت(نیک کام )پر ثواب ملتا ہے اور اس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں ،یہی اکثر اہلِ علم کا قول ہے ۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)

   الاشباہ والنظائر میں ہے:’’وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘ترجمہ:بچے پر اگرچہ عبادات واجب نہیں ،لیکن (اگر وہ عبادات کرتا ہے ،تو)اس کی  عبادات درست ہیں اور اسے عبادات کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں اختلاف ہے اور معتمد قول یہ ہے کہ اسے ثواب ملتا ہے اور معلم کو بھی تعلیم کا ثواب ملے گا ،یہی حکم بچے کی تمام نیکیوں کا ہے۔(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   اپنی عبادات کاثواب دوسروں کوپہنچانے کے متعلق البنایہ شرح ہدایہ میں ہے:’’(الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره)۔۔ يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر‘‘ ترجمہ:اس باب میں قاعدہ یہ ہے کہ انسان کےلیے اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچانا،جائز ہے،اب برابر ہے کہ انسان جس عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا رہا ہے،وہ نماز ہو ،روزہ ہو، صدقہ ہو یااس کے علاوہ کوئی اور عمل ہو، جیسے حج،قراءتِ قرآن ،ذکرو اذکاراورانبیاء ،شہداء ،اولیاء اور صالحین کی قبروں کی زیارت ،مردوں کی تکفین اور ہر قسم کی نیکیاں (ان کا ثواب دوسروں کو ایصال کر سکتا ہے)۔(البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ اقول وباالتوفیق صبی عاقل ازہر گونہ تبرع محجورنیست، منشائے حجر ہمیں ضررست  ولو فی الحال کما فی القرض ولوبالا حتمال کمافی البیع آنجا کہ ہیچ ضرر  نیست در حجر نظر نیست بلکہ خلاف نظر وعین اضرار ست کہ بمشابہ الحاق اوبجماد واحجار ست‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں ا ور اللہ تعالی ہی کی توفیق سے کہتا ہوں:عاقل بچہ ہر طرح کے تصرف سے محجور نہیں،حجر کا منشا یہی ضرر ہے،اگر چہ فی الحال نقصان ہو، جیسے قرض دینے میں یااس کا احتمال ہو، جیسے بیع میں اورجہاں کوئی ضرر نہیں ،وہاں حجر میں نظر اور بچہ کی رعایت نہیں ،بلکہ یہ خلاف نظر اور بعینہ ضرر رسانی ہے،کہ گویا اسے جماد اور پتھر سے لاحق کردینا ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج9،ص632،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مزید ارشاد فرماتے ہیں:’’بالجملہ اہدائے ثواب ہمچو  روشن کردن چراغ از چراغ ست کہ ازیں چراغ چیزے نہ کاہد وہ چراغ دیگر روشنائی یابدوشک نیست کہ صبی ازہمچو تبرّع زنہار محجور نیست بلکہ چراغ افروختن نیز نظیر او نتوان شد کہ آنجار اگر از چراغ چیزے کم نشود فزوں ہم نشود واینجا ثواب واہب یکے دہ می شود﴿وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَاللہُ وٰسِعٌ عَلِیۡمٌترجمہ:مختصر یہ کہ ثواب ہدیہ کرنا ایسا ہے،جیسے چراغ سے چراغ جلانا کہ اس چراغ سے کچھ کم نہیں ہوتا اور دوسرے چراغ کو روشنی مل جاتی ہےاور بلاشبہ بچہ اس طرح کے تبرع سے ہر گز محجور نہیں، بلکہ چراغ جلانا بھی اس کی نظیر نہیں ہوسکتی کہ وہاں اگر چراغ سے کچھ کم نہیں ہوتا،تو کچھ زائدبھی  نہیں ہوتااور یہاں ہبہ کرنے والے کا ثواب ایک کا دس ہوجاتا ہے’’اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا ،علم والا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج9،ص638تا639،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مزید ارشاد فرماتے ہیں:’’بمثل فرض کن اگر در محسوس نیز صورتے ہمچناں یافتہ شدے کہ صبی درہمی دہد وآن درہم ہم  بموہوب لہ رسد و ہم بدست صبی برقرار ماند و یکے دہ گرد د آیا معقول بود کہ شرع مطہر صبی رااز ہمچوتصرف بازداشتے حاش ﷲ حجر برائے نظر ووضع ضرراست نہ بہر دفع نفع والحاق بحجراین ست دریں مسئلہ طریق نظر‘‘ترجمہ:بطورِمثل فرض کیجئےکہ اگر عالم محسوس میں بھی کوئی ایسی صور ت ہوتی کہ بچہ ایک درہم دے وہ درہم موہوب لہ کے پاس بھی پہنچے اور بچے کے ہاتھ میں بھی برقرار رہے اور ایک کا دس ہوجائے، تو کیا یہ متصور تھا کہ شرع مطہر بچے کو ایسے تصرف سے روک دیتی؟حاشاﷲ! حجر ضرر دورکرنے پر نظر کے لیے ہے،نفع دورکرنے اور حجر (پتھر) سے لاحق کرنے کے لیے نہیں ہے۔یہ اس مسئلہ میں طریق نظر ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج9،ص639،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم