Nabi Pak Ke Moye Mubarak Ko Ghusl Dene Ka Hukum

نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم کے موئے مبارک کو غسل دینے کا حکم

مجیب: فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-752

تاریخ اجراء:17جماد  ی الاوّل1444 ھ  /12دسمبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےموئے مبارک کو غسل دینا جائز ہے؟ اور جس پانی سے غسل دیا جائے ،اس پانی کا کیا کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   موئے مبارک کو غسل دینا جائزہے ، غسل دینے کے بعد اس کا پانی پھینکا نہ جائے بلکہ بہتریہ ہے کہ یہ پانی بطور تبرک شفاء کے لیے پی لیا جائے  جیساکہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان ،حضوراقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال شریف کو دافعِ بلااور باعث شفاسمجھتے اور انہیں پانی میں غسل دے کر وہ پانی پی لیا کرتے تھے۔

   مشکوٰۃ المصابیح میں بحوالہ بخاری شریف حضرت عثمان بن عبد اللہ بن موہب سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: أرسلني أهلي إلى أم سلمة بقدح من ماء وكان إذا أصاب الإنسان عين أو شيء بعث إليها مخضبه فأخرجت من شعر رسول الله صلى الله عليه و سلم وكانت تمسكه في جلجل من فضة فخضخضته له فشرب منه “یعنی مجھے میرے گھر والوں نے پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجاجبکہ لوگوں کامعمول تھاکہ جب کسی آدمی کو نظر یا کوئی شے لگ جاتی ،تو آپ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا برتن بھیجتے تھے ، لہذا جب میں پانی کابرتن لے کر ان کے پاس پہنچا تو آپ  رضی اللہ عنہانے   رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کا بال مبارک  نکالاجبکہ وہ بال انہوں نے چاندی کی ایک کپی میں رکھا ہوا تھا ،پھرانہوں نے وہ بال پانی میں ہلادیا پھر میں نے اس میں سے پانی پیا۔(مشکوۃ المصابیح مع المرقاۃ، جلد8،صفحہ 385،مطبوعہ:بیروت)

   حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:”اس حدیث سے چند فائدے حاصل ہوئے ایک یہ کہ حضرات صحابہ کرام حضور کے بال شریف برکت کے لئے اپنے گھروں میں رکھتے تھے۔ دوسرے یہ کہ اس بال شریف کا بہت ہی ادب و احترام کرتے تھے کہ اس کے لئے خاص کُپی(ڈبی)یا پونگی بناتے ، اس میں خوشبو بساتے تھے ،کیونکہ یہ رنگت خوشبو کی تھی نہ کہ خضاب کی ۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کرام حضور کے بال شریف دافعِ بلا ، باعثِ شفا سمجھتے تھے کہ انہیں پانی میں غسل دے کر شفا کے لئے پیتے تھے ، کیوں نہ ہو کہ جب یوسف علیہ السلام کی قمیص دافعِ بلا ہوسکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم فرما رہا ہے:”اذھبو بقمیصی“تو حضور انورکے بال شریف بدرجہ اولیٰ دافع بلا ہوسکتے ہیں۔ چوتھے یہ کہ صحابۂ کرام حضور کے بال شریف کی زیارت کرنے جاتے تھے ،جیسا کہ روایت سے معلوم ہوا۔“(مرآۃ المناجیح ،جلد6،صفحہ 248،ضیاء القرآن پبلشرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم