Nafil Namaz Ka Sawab Marhomeen Ko Isal Karna

کیا نفل نماز کا ثواب مرحومین کو دے سکتے ہیں ؟؟

مجیب:  مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12284

تاریخ اجراء:     07 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/07جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا نفل نماز کا ثواب مرحومین کو دے سکتے ہیں ؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان جو بھی نیک کام کرے خواہ وہ فرض ہو یا نفل مثلاً نماز،تلاوت، کلمہ طیبہ،درود شریف،روزہ،حج،زکوٰۃ، صدقہ و خیرات وغیرہ، اس کا ثواب دوسرے فوت شدہ یازندہ مسلمانوں کو ایصال کر سکتا ہے کہ  ایصالِ ثواب کرنا واضح طور پر قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ 

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق ایصالِ ثواب کے متعدد طریقوں میں سے ایک طریقہ اپنے مسلمانوں بھائیوں کے لیے دعا کرنا بھی ہے، کیونکہ ایصال ثواب بھی میت کو نفع بخشتا ہے اور دعا بھی اسی مقصد کے لئے ہوتی ہے۔

   چنانچہ اپنے سے پہلے گزر جانے والے مسلمان بھائیوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے والوں کےمتعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :” وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ“ترجمہ کنز الایمان: ”اور وہ جو ان کے بعد آئے ، عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے  بھائیوں کو ، جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ “ (القرآن الکریم،پارہ28،سورۃ الحشر، آیت:10)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ رازی میں ہے:واعلم أن هذه الآيات قد استوعبت جميع المؤمنين لأنهم إما المهاجرون أو الأنصار أو الذين جاءوا من بعدهم، وبين أن من شأن من جاء من بعد المهاجرين والأنصار أن يذكر السابقين وهم المهاجرون والأنصار بالدعاء والرحمۃ فمن لم یکن کذلک بل ذکرھم بسوء کان خارجاً من جملۃ اقسام المؤمنین بحسب نص ھذہ الآیۃترجمہ: ”جان لو کہ ان آیات نے مسلمانوں کی تمام قسموں کا استیعاب کرلیا، اس لئے کہ مؤمنین یا تو مہاجرین ہیں یا انصار یا وہ لوگ ہیں جو  ان کے بعد ہوئے اور بیان فرمایا کہ مہاجرین و انصار کے بعد جو لوگ ہوئے، ان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ پہلے  لوگوں یعنی مہاجرین و انصار کو دعائے خیر اور رحمت کے ساتھ یاد کریں اور جو شخص ایسا نہ کرے  بلکہ (معاذ اللہ) انہیں برائی کے ساتھ یاد کرے تو وہ بحکم آیۃ کریمہ(نیک) مسلمانوں کی تمام اقسام سے خارج ہے۔ “ (التفسیر الکبیر للامام الفخر الرازی، سورۃ الحشر،  ج10 ، ص 509،  مطبوعہ  لاہور)

   تفسیرِ سمرقندی  میں ہے:وينبغي للمؤمنين أن يستغفروا لآبائهم ولمعلميهم الذين علموهم أمور الدينیعنی مؤمنین کو چاہیے کہ وہ اپنے آباؤ و اجداد اور دینی علوم کے اساتذہ کرام کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ (تفسير السمرقندي،  سورۃ الحشر،  ج03 ، ص 429)

   حاشیہ صاوی علی تفسیرِ جلالین  میں ہے:” قولہ: "الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ" ای بالموت علیہ، فینبغی لکل واحد من القائلین لھذا القول، ان یقصد بمن سبقہ من انتقل قبلہ، من زمنہ الی عصر النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فیدخل جمیع من تقدمہ من المسلمین، لا خصوص المھاجرین و الانصار۔“ترجمہ: ”جب مسلمان دعا کرے اور اس میں "اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ"  کہے تو اس سے یہ قصد کرے کہ جو لوگ ہم سے پہلے سابق بالایمان ہوئے ہیں یعنی جو لوگ اس کے زمانہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک تک انتقال کرچکے ہیں، تو اس میں تمامی گزشتہ مسلمان داخل ہوجائیں گے۔“ (حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین ، سورۃ الحشر،  ج06 ، ص 2139،  مطبوعہ  پشاور)

   فتاوٰی ملک العلماء میں ہے:” قرآن شریف میں مردوں کے لیے ایصالِ ثواب کے متعدد طریقے بتائے گئے ہیں۔ ان میں جس طریقہ کو انجام کرے گا، مردے کو ثواب ملے گا اور اگر کوئی شخص سب طریقے بجالائے تو اور بہتر ہے۔ (اول) مغفرت کی دعا کرنا "قال تعالیٰ: وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ "۔ ۔۔۔قرآن شریف کی آیت، تفاسیر کی عبارت، علمائے کرام کی صراحت، احادیث کی دلالت نے مردوں کے لئے ایصالِ ثواب کے طریقہ کو بہت صاف طور پر واضح کردیا کہ مسلمانوں پر نہ صرف مستحب بلکہ بقول علامہ حقی واجب ہے کہ گزشتہ مسلمانوں خصوصاً اپنےآباؤ و اجداد و علمائے کرام و مشائخ عظام کے ایصالِ ثواب کے لئے ان کی مغفرت کی دعا کیا کریں۔(فتاوٰی ملک العلماء، ص 327، نوری کتب خانہ، لاہور، ملتقطاً)

   مرحومین کی طرف سے صدقہ کرنے اور انہیں اس صدقہ کا اجر ملنے  کے متعلق بخاری شریف کی حدیثِ پاک میں ہے:”ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم“ایک شخص نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں ، تو کیا انہیں اجر ملے گا ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں ملے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب موت الفجأۃ البغتۃ،  ج01 ، ص 186 مطبوعہ  کراچی)

   سننِ  ابی داؤد کی حدیثِ پاک میں ہے : ”عن سعد بن عبادۃ انہ قال : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اِن ام سعد ماتت ، فایّ الصدقۃ افضل ؟ قال : الماء ، قال : فحفر بیرا و قال : ھذہ لام سعد “ ترجمہ : حضرت سیدنا سعد بن عُبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بے شک سعد کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، تو کونسا صدقہ افضل ہو گا ؟ ارشاد فرمایا : پانی ۔ راوی کہتے ہیں : تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنوں کھودا اور کہا : یہ سعد کی ماں کے لیے ہے ۔(سنن ابی داؤد ، کتاب الزکاۃ ، باب فی فضل سقی الماء، ج01 ، ص 248 ، مطبوعہ لاھور)

   نفل نماز کا ثواب بھی ایصال کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حج کو جانے والوں سے فرمایا:’’من يضمن لی منكم ان يصلی لی فی مسجد العشار ركعتين، او اربعا، ويقول هذه لابی هريرة‘‘تم میں سے کون مجھے اس چیز کی ضمانت دیتا ہےکہ وہ مسجد عشار میں میرے لئے دو یا چار رکعت پڑھ کر اس کا ثواب مجھے بخشے گا ۔ (سنن ابی داؤد،کتاب الملاحم،باب فی ذکر البصرۃ،ج02،ص242 ، مطبوعہ لاھور)

   اس حدیثِ پاک کےتحت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:’’اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ مبارک مقامات پر عبادت کرنا ،نماز ادا کرنا زیادہ ثواب کا موجب ہے،اور بدنی عبادات کا ثواب دوسرے کو دینا بھی جائز ،اور اکثر علماء کی یہی رائے ہے،رہا معاملہ عبادات مالیہ کا تو وہاں ثواب کا بخشنا بالاتفاق جائز ہے۔‘‘  (اشعۃ اللمعات (مترجم)،ج06،ص425، فرید بک سٹال ،لاہور)

   ہر نیکی کا ثواب ایصال کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے: الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار وزيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر ، كذا في غاية السروجي شرح الهداية۔“ یعنی اس باب میں قاعدہ یہ ہے کہ انسان کو جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کر دے،نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا ان کے علاوہ،جیسا کہ حج اور تلاوتِ قرآن اور اذکاراور انبیائے کِرام علیہم الصلاۃ والسلام،شہداء، اولیاء اور صالحین کے مزارات کی زیارت اور مردوں کو کفن دینا اور نیک کاموں کی تمام اقسام،اسی طرح ہدایہ کی شرح غایۃ السروجی میں مذکور ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب المناسک، ج 01 ،ص 257 ، مطبوعہ پشاور)

   رد المحتار اور بحر الرائق میں ہے: ”و النظم للآخر“ من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا والظاهر أنه لا فرق بين الفرض والنفل۔یعنی کسی نے نماز پڑھی یا  روزہ رکھا یا صدقہ کیااور اس کا ثواب کسی مردے یا زندہ کو بخش دیایہ جائز ہے اور اہلسنت والجماعت کے نزدیک ان کو ثواب ملے گا، بدائع میں بھی ایسے ہی ہے۔پھر صاحب بحر نے فرمایا کہ اس سے معلوم ہواکہ جسے ثواب بخشا گیاوہ زندہ ہو یا مردہ ہو اس سے  کوئی فرق نہیں پڑتا۔اور یہاں یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جس عمل کا ثواب بخشا گیا وہ نفل ہو یا فرض، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ )البحر الرائق، کتاب الحج، ج 03 ،ص 107-105 ، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:” اموات کو ایصالِ ثواب قطعاً مستحب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں :"من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ"(جو اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے ، تو چاہیے کہ اسے نفع پہنچائے)۔“(فتاوٰی رضویہ ، ج09 ، ص604 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”ایصال ثواب یعنی قرآن مجید یا درود شریف یا کلمہ طیبہ یا کسی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچانا جائز ہے۔ عبادتِ مالیہ یا بدنیہ فرض و نفل سب کا ثواب دوسروں کو پہنچایا جاسکتا ہے، زندوں کے ایصال ثواب سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کتب فقہ و عقائد میں اس کی تصریح مذکور ہے، ہدایہ اور شرح عقائد نسفی میں اس کا بیان موجود ہے۔( بہارِ  شریعت ، ج 03، ص 642، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم