مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-7326
تاریخ اجراء: 17ربیع الثانی1445ھ02نومبر 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین
اس بارے میں کہ نمازِ غوثیہ کی حقیقت کیا ہے اور یہ
کس دلیل سے ثابت ہے؟ نیز اس نماز کو غوث پاک رضی اللہ عنہ کی
طرف منسوب کیا جاتا ہے، حالانکہ عبادت تو اللہ تعالیٰ کے لئے
ہوتی ہے، تو اس کی نسبت غوث پاک رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا
کیسے در ست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نمازِ غوثیہ جسے صلوۃ الاسرار بھی کہتے ہیں، یہ نہ صرف جائز، بلکہ
دعاؤں کی مقبولیت اور حاجتوں کےپورا ہونے کے لئے ایک نہایت
مجرب (آزمودہ) عمل ہے اور اسے امت کے اکابر علماء و اولیاء مثلاً امام اجل امام ابو الحسن
نور الدین علی بن جریر لخمی شطنوفی، محدث کبیر
علامہ ملا علی القاری، عارف باللہ شیخ محقق شیخ عبد الحق
محدث دہلوی (رحمۃ اللہ علیہم
اجمعین) وغیرہم نے حضور سیدنا
غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے نقل کیا ہے۔نیز اس نماز کی نسبت حضور سیدنا
غوث اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی طرف اس وجہ سے ہے کہ ا س
کا طریقہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے منقول ہے اور محض اس انداز سے
نماز وغیرہ دیگر عبادات کی نسبت مخلوق کی طرف کرنے میں
کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ شریعت میں اس کی اصل موجود
ہے۔مزید تفصیل اور دلائل جاننے سے قبل اس کا طریقہ ملاحظہ
فرمائیں:
نمازِ غوثیہ کا طریقہ:
کوئی شخص (بعد نمازِ مغرب سنتیں پڑھ کر) دو رکعت نماز پڑھے اور
(بہتر یہ ہے کہ) ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد گیارہ گیارہ
بار قل ھو اللہ شریف پڑھے، سلام کے بعد نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود و سلام عرض کرے اور غوث
پاک رضی اللہ عنہ کو یاد کرے، پھر عراق کی جانب گیارہ
قدم چلے(پاک و ہند سے بغداد شریف کی
سَمت مغرب و شمال کے تقریباً بیچوں بیچ ہے۔) غوث پاک کا
نام لے اور اپنی حاجت ذکر کرے، اللہ کے حکم سے اس کی حاجت پوری
ہو جائے گی۔
امام اجل سیدی
ابوالحسن نورالدین علی بن جریر لخمی شطنوفی (قدس
سرہ العزیز) بہجۃ الاسرار شریف میں معتبر سند
کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ شیخ ابو القاسم عمر البزار (رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیں:’’ سمعت سیدی
الشیخ محی الدین رضی اللہ عنہ یقول: من استغاث بی
فی کربۃ، کشفت عنہ ومن نادانی باسمی فی شدۃ
فرجت عنہ ومن توسل بی الی اللہ عزوجل فی حاجۃ، قضیت
لہ ومن صلی رکعتین یقرا فی کل رکعۃ بعد الفاتحۃ
سورۃ الاخلاص احدی عشرۃ مرۃ، یصلی علی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد السلام ویسلم علیہ ویذکرنی،
ثم یخطو الی جھۃ العراق احدی عشرۃ خطوۃ یذکر
اسمی وحاجتہ، فانھا تقض باذن اللہ‘‘ ترجمہ: میں
نے شیخ محی الدین رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ کو فرماتے سنا ہے کہ جو بندہ غم میں
مجھ سے مدد طلب کرے، اس کا غم دور ہو جائے گا، جو مشکل میں میرا نام
پکارے اس کی مشکل آسان ہو جائے گی اور جو اللہ عزوجل کی بارگاہ
میں میرا وسیلہ پیش کرے اس کی حاجت پوری کر دی
جائے گی اور جو دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد
گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھے، سلام پھیرنے کے بعد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم پر دُرود و سلام پڑھے اور مجھے یاد کرے، پھر عراق کی
جانب گیارہ قدم چلے اور میرے نام کے ساتھ اپنی حاجت بھی
ذکر کرے، اللہ عزوجل کے حکم سے اس کی حاجت پوری ہو جائےگی۔(بھجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ وبشراھم، صفحہ 197، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
یہی تفصیل شیخ
عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ نے زبدۃ الاسرار و زبدۃ
الآثار میں نقل فرمائی ، یونہی علامہ ملا علی القاری رحمۃ
اللہ علیہ نے نزھۃ الخاطر الفاتر میں
اسے نقل کرنے کے بعد فرمایا: ’’وقد جرب ذلک مراراً فصح ‘‘اس کا بار بار تجربہ کیا، تو
اسے درست پایا۔(نزھۃ الخاطر، صفحہ 67، مطبوعہ لاھور)
نمازِ غوثیہ کی شرعی
حیثیت:
یہ بلاشبہ جائز ہے، کیونکہ
اس میں مشکل کے حل کے لئے دو رکعت نماز ( جس کی ہر رکعت میں
فاتحہ کے بعد 11 بار سورت اخلاص ) پڑھ کر سلام پھیرنے
کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام
پڑھنا، پھر جانب عراق 11 قدم چلنا اور
غوث پاک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے استغاثہ کرنا ہے اور یہ سب
امور شرعاً جائز و درست ہیں، جب یہ تمام امور جداگانہ جائز ہیں،
تو ان کا مجموعہ کیسے ناجائز ہو جائے گا؟ تاہم دلائل سے قبل اس نماز کی نسبت حضور غوث
پاک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی طرف ہونا کیونکر درست
ہے؟ ملاحظہ ہو۔
غوث پاک رضی اللہ عنہ کی
طرف نماز کی نسبت:
اس میں کوئی شک نہیں
کہ عبادت اللہ عزوجل کے لئے ہی کی جاتی ہے، البتہ کبھی
عبادت کی نسبت مخلوق کی طرف بھی کر دی جاتی ہے، جس
کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، ان میں ایک وجہ یہ ہے کہ منسوب الیہ (جس کی
طرف نسبت کی جاتی ہے، اس) سے اس کا طریقہ منقول ہونا ہے اور اس
طور پر مخلوق کی طرف نسبت کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں،
بلکہ یہ نسبت تو احادیثِ طیبہ سے بھی ثابت ہے۔ جیساکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ’’احب الصلاۃ الی اللہ صلاۃ داؤد‘‘ (اللہ کے نزدیک
افضل نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے)۔ صحابہ کرام نے نماز کو
حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کیا اور فرمایا: ’’هكذا كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم‘‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نماز اسی طرح کی تھی)۔روزے کے متعلق حدیث: ’’افضل الصیام صیام داؤد‘‘ (افضل روزے داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں)۔
وضو کے متعلق فرمایا:’’هذا وضوئي ووضوء الأنبياء قبلي‘‘ (یہ میرا
اور مجھ سے قبل انبیاء کا وضو ہے)۔پھر نسبت کی وجہ فقط طریقہ
کی پہچان ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں، جیسے
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایصالِ ثواب کے بیان
کے لئے نماز کو اپنی طرف منسوب کیا اور فرمایا:’’ هذه لابی هريرة‘‘ ( یہ
نماز ابو ہریرہ کے لئے ہے)۔ تو جب مختلف اعتبار سے عبادت کی
نسبت مخلوق کی طرف کی جاتی ہے اور اس میں شرع کو کچھ کلام
نہیں، تو نمازِ غوثیہ میں بھی نماز کی نسبت حضور سیدنا
غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی طرف ہونا اس لئے ہے کہ ا س کا طریقہ
آپ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، لہذ ااس نسبت میں بھی شرعاً کچھ
حرج نہیں۔
صلاۃ داؤد کے متعلق صحیح بخاری میں
ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ احب الصلاۃ الی اللہ صلاۃ
داؤد، کان ینام نصف اللیل ویقوم ثلثۃ وینام سدسہ‘‘ ترجمہ: اللہ عزوجل کے نزدیک
سب سے پسندیدہ نماز داؤد علیہ
السلام کی نما زہے، کہ آپ آدھی رات سوتے اور رات کی ایک
تہائی کے برابر حصہ قیام کرتے اور (پھر) رات کا چھٹا حصہ آرام کرتے تھے۔( مثلا چھ گھنٹے کی رات
ہو تو تین گھنٹے آرام پھر دو گھنٹے عبادت پھر ایک گھنٹہ آرام)(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب احب
الصلاۃ الی اللہ صلاۃ داؤد، جلد 1، صفحہ 607، لاھور)
روزے کے متعلق سنن الکبری للبیہقی
میں ہے: ’’افضل الصیام صیام داؤد، کان یصوم یوماً یفطر یوما‘‘ ترجمہ: افضل روزے داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں
کہ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے تھے۔(سنن الکبری للبیھقی، کتاب الصیام،
صوم یوم وافطار یوم، جلد 3، صفحہ 187، مطبوعہ بیروت)
حضور علیہ الصلوۃ
والسلام نے تین تین بار اعضائے وضو دھو کر وضو کرنے کے متعلق فرمایا: ’’ هذا وضوئي
ووضوء الأنبياء قبلي‘‘ ترجمہ: یہ میرا اور مجھ سے قبل انبیاء
کا وضو ہے۔(مسند ابی داؤد الطیالسی،
جلد 3، صفحہ 433، مطبوعہ
مصر)
صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم:مسندابن ابی شیبہ میں
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے
ہیں: ’’ الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى
الله عليه وسلم، فلم يرفع يديه الا مرة واحدة‘‘ ترجمہ: کیا میں تمہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھ کر بتاؤں، پھر (آپ
نے نماز پڑھی اور اس میں) ایک مرتبہ کے علاوہ رفع یدین
نہ فرمایا۔( مسند ابن
ابی شیبہ، جلد 1، صفحہ 219، مطبوعہ ریاض)
مسندابی داؤد الطیالسی
میں ہے، حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھنے کے بعد
فرمایا:’’ھکذا کانت صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نماز اس طرح کی تھی۔(مسند ابو داؤد الطیالسی، جلد 2، صفحہ 15، مصر)
بیانِ ثواب کے لئے حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ نے نماز کی نسبت اپنی
طرف کی، چنانچہ حج پہ جانے والوں سے فرمایا:’’من يضمن لی منكم ان يصلی
لی فی مسجد العشار ركعتين او اربعا ويقول:هذه لابی هريرة‘‘تم میں سے کون مجھے اس چیز
کی ضمانت دیتا ہےکہ وہ میرے لئے مسجد عشار میں دو یا
چار رکعتیں پڑھ کر کہے گا : یہ نماز (یعنی اس
کا ثواب)ابو ہریرہ کے لئے ہے ۔(سنن ابی داؤد،کتاب الملاحم،باب فی ذکر البصرۃ،
جلد2، صفحہ 242، مطبوعہ
لاھور)
نمازِ غوثیہ درج ذیل
امور کا مجموعہ ہے اور ان میں کوئی بھی خلافِ شرع چیز نہیں۔
مشکل وقت میں نماز سے مدد
حاصل کرنا:
اللہ عزوجل قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّہَا
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا
بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ﴾ ترجمہ کنز الایمان : اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد
چاہو۔(پارہ 2، سورۃ
البقرہ، آیت 153)
حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ’’كان النبي صلى الله عليه وسلم اذا حزبه امر، صلى‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کوئی سخت مہم پیش آتی، تو آپ
علیہ الصلوۃ والسلام نماز میں مشغول ہو جاتے۔( ابو داؤد، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبی
ﷺ من اللیل، جلد 1، صفحہ 195، مطبوعہ
لاھور)
ہر رکعت میں سورت اخلاص کا
تکرار:
نوافل میں سورت فاتحہ کے بعد
قرآن کریم کی کسی سورت کا تکرار کرنے میں شرعاً کوئی
حرج نہیں ہے، بلکہ متعدد روایات سے ثابت ہے، ان میں سے ایک
یہ ہے۔ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’من صلى ركعتين بعد العشاء فقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب وخمس عشرة مرة ﴿قل هو الله احد﴾ بنى الله له قصرين في الجنة يتراآهما اهل الجنة‘‘یعنی جو عشاء کے بعد دو
رکعت پڑھے گا اور ہر رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد پندرہ بار ﴿قل هو الله احد﴾ پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں دو ایسے
محل تعمیر کرے گا جسے اہل جنت دیکھیں گے۔(تفسیر در منثور، جلد 8، صفحہ 681، دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’ نوافل کی دونوں رکعتوں میں ایک ہی
سورت کو مکرر پڑھنا یا ایک رکعت میں اسی سورت کو باربار
پڑھنا، بلا کراہت جائز ہے۔‘‘( بھار شریعت،
حصہ 3، صفحہ 549، مکتبۃ
المدینہ، کراچی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم پر درود پڑھنا:
درود و سلام پڑھنے کا حکم تو قرآن
کریم میں ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ
عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ
اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا
تَسْلِیۡمًا﴾
ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں
اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب
سلام بھیجو۔(پارہ 22، سورت الاحزاب، آیت 56)
غیر اللہ سے مدد مانگنا
/استغاثہ کرنا:
قرآن و حدیث سے اللہ تعالیٰ
کے نیک وبرگزیدہ بندوں مثلاًانبیاء (علیہم السلام)و اولیاء(علیہم
الرحمۃ)وغیرہم سے مدد مانگنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اللہ عزوجل کی
عطا سے اس کے نیک بندے بھی مدد گارہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتاہے:﴿ فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ
وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ
وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ
﴾ترجمہ کنزالایمان:تو بے شک اللہ ان کا مددگار ہے
اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔(پارہ28،سورۃ التحریم، آیت4)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اذا ضل احدکم شیئااو اراد احدکم عوناوھو بارض لیس
بھا انیس، فلیقل: یاعباد اللہ! اغیثونی، یاعباد
اللہ! اغیثونی، فان للہ عبادا لانراھم (وقد جرب ذلک)‘‘ترجمہ:جب تم میں سے کسی
کی کوئی چیز گم ہوجائے یاکسی کومدد کی حاجت
ہواوروہ ایسی جگہ ہو،جہاں اُس کا کوئی یار و مددگار نہ
ہو،تووہ یوں کہے’’اے اللہ کے بندو!میری مدد کرو۔اے اللہ کے بندو!میری
مدد کرو‘‘کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں جنہیں ہم نہیں
دیکھتے، وہ اُس کی مدد کریں گے۔(امام طبرانی علیہ
الرحمۃفرماتے ہیں کہ)اس کاتجربہ بھی ہے۔(المعجم الکبیر، باب العین، جلد 17، صفحہ 117،مطبوعہ القاھرۃ)
جانب عراق (بغداد) 11 قدم چلنا:
مراد پانے کے لئے اللہ عزوجل کے نیک
بندوں کی بارگاہ میں حاضر ہونا، جائز و درست اور حصولِ مراد کے لئے
بہترین عمل ہے اور اس کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
چنانچہ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ
جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ
لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی
جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی
چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے، تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول
کرنے والا مہربان پائیں۔(پارہ 5، سورۃ النساء، آیت 64)
وفات کے بعد بھی اولیاء
کے مزارات کی حاضری باعثِ برکات ہے۔ چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو جب
کوئی مشکل پیش آتی، آپ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے مزار کے
پاس آکر دعا کیا کرتے تھے، تو ان کی دعا قبول ہو جایا کرتی۔
چنانچہ الخیرات الحسان میں ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: ’’ انی
لاتبرک بابی حنیفۃ واجیئ الی قبرہ، فاذا عرضت لی
حاجۃ صلیت رکعتین وجئت الٰی قبرہ وسالت ﷲ
تعالٰی عندہ فتقضی سریعا‘‘ ترجمہ: میں
امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے تبرک حاصل کرتااور ان
کے مزار پر جاتاہوں اور جب مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے، دورکعت
نمازپڑھ کر، ان کی قبر کی طرف آکر اللہ تعالیٰ سے سوال
کرتاہوں، تو جلد ہی حاجت رواہوتی ہے۔(الخیرات الحسان، الفصل الخامس والثلاثون فی تادب
الائمۃ، صفحہ 72، مطبوعہ ھند)
بنی اسرائیل میں
ایک شخص گناہوں کے ازالہ کا حل معلوم کرنے کسی راہب کی بستی
کی طرف چلا، راستے میں انتقال ہو گیا، تو اللہ عزوجل نے اس عمل
کی برکت سے اسے بخش دیا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ كان في بني إسرائيل رجل قتل تسعة
وتسعين إنسانا، ثم خرج يسأل، فأتى راهبا فسأله فقال له: هل من توبة؟ قال: لا،
فقتله، فجعل يسأل، فقال له رجل: ائت قرية كذا وكذا، فأدركه الموت، فناء بصدره
نحوها، فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، فأوحى الله إلى هذه أن تقربي،
وأوحى الله إلى هذه أن تباعدي، وقال: قيسوا ما بينهما، فوجد إلى هذه أقرب بشبر،
فغفر له ‘‘ ترجمہ: بنی اسرائیل میں
ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمی قتل کئے تھے، پھر مسئلہ پوچھنے
نکلا، تو ایک راہب کے پاس پہنچا،اس سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ
ہوسکتی ہے؟ وہ بولا: نہیں،اس نے اسے بھی مار دیااور مسئلہ
پوچھتا رہا، پھر اسےکسی نے بتایا کہ فلاں بستی میں
جا، اسی حال میں اسے موت آگئی،
تو اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف کردیا، اس کے متعلق
رحمت و عذاب کے فرشتوں نے جھگڑا کیا، رب نے اس بستی کی طرف حکم
بھیجا کہ قریب آجا اور دوسری بستی کو فرمایا
کہ دور ہوجا، پھر فرمایا: ان دونوں بستیوں کے درمیان راستہ نا
پو، پس وہ راہب کی بستی کی
طرف ایک بالشت قریب پایا گیا، چنانچہ اس کی مغفرت
کردی گئی۔(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب حدیث الغار، جلد 1، صفحہ 493، مطبوعہ کراچی)
مراۃ المناجیح میں
ہے: ’’(وہ شخص) اس طرح گر کر مرا کہ اس کا چہرہ اور سینہ
تو اس عالِم کی بستی کی طرف تھا جہاں جارہا تھا اور پیٹھ
اس گناہوں کی بستی کی طرف جہاں سے آرہا تھا اللہ تعالیٰ
کو اس کی یہ ادا پسند آگئی۔۔۔بعض عشاق
مدینہ منورہ یا بغداد شریف کی طرف منہ کرکے دعائیں
مانگتے ہیں،نماز غوثیہ میں بعد نماز گیارہ قدم بغداد شریف
کی طرف منہ کرکے چلتے ہیں اور ادھر ہی منہ کرکے دعا مانگتے ہیں
ان سب کی اصل یہ حدیث ہے،دیکھو اس شہر میں کعبہ یا
بیت المقدس نہ تھا صرف ایک عالم کی بستی تھی جس کے
ادب کی برکت سے بخشا گیا۔‘‘(مراۃ
المناجیح، جلد 3، صفحہ 357، نعیمی
کتب خانہ، گجرات)
نوٹ: نمازِ غوثیہ کے متعلق مزید تفصیل و
دلائل جاننے کے لئے سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
رحمۃ اللہ علیہ کےدو رسائل
بنام ’’انھارالانوار من یم صلوۃ الاسرار‘‘ اور ’’
ازھارالانوار من صبا
صلوۃ الاسرار ‘‘ فتاوی رضویہ،
جلد 7
میں ملاحظہ فرمائیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟