Peer Sahib Ka Mukhtalif Silsilon Mein Bait Karna Kaisa ?

پیر صاحب کا مختلف سلسلوں میں بیعت کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8459

تاریخ اجراء: 30 محرم الحرام1445ھ/18 اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایسے شیخ   کہ جنہیں مختلف سلاسلِ طریقت  کی خلافت حاصل ہو اور وہ اُن سلسلوں میں بیعت کرنے کے مجاز ہوں، تو کیا وہ مختلف لوگوں کو مختلف سلسلوں میں بیعت کر سکتے ہیں، مثلاً: ایک شخص کو سلسلہ قادریہ میں داخل کر لیں، دوسرے کو سلسلہ نقشبندیہ میں ، یونہی دیگر افراد کو دیگر اجازت یافتہ سلسلوں میں داخل کر لیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب کسی شخص کو مختلف سلاسلِ طریقت میں خلافت واجازتِ بیعت حاصل ہو،تو وہ مختلف لوگوں کو اپنے کسی بھی اجازت یافتہ سلسلے میں بیعت کر سکتا ہے، مثلاً: ایک شیخ  کو سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ ، سہروردیہ اور چشتیہ، چاروں سلاسل میں خلافت اور اجازتِ بیعت حاصل ہو چکی، تو یقیناً وہ چاروں سلسلوں میں سے کسی بھی سلسلے میں داخل کرنے کا ”مجاز“ ہے، جیسا کہ عطائے خلافت واجازتِ بیعت کے بعد اُس شیخ  کو اُس سلسلے کا ”خلیفہ مجاز“ کہا جاتا ہے اور ”مجاز“ کا  معنی ہی ”اجازت یافتہ“ہے کہ  اب شیخ  کو اُس سلسلہ میں بیعت کرنے کی اجازت حاصل ہو گئی۔

   مختلف مشائخ  کی سیرت پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ کسی علاقے میں تشریف لے جاتے اور مختلف سلاسل میں مجاز ہوتے،  تو وہاں ایک مخصوص سلسلے میں بیعت لینے کے علاوہ، وہ  لوگوں کے حال کے موافق مختلف سلاسل میں بھی بیعت کرتے اور مختلف سلاسل کی ترویج واشاعت کیا کرتے تھے، مثلاً:حضرت اخوندسوات رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1295ھ/1877ء)  کا سلسلہ ِارادت صوبہ سرحد، افغانستان اور ہندوستان میں بہت پھیلا رہا اور آپ بیک وقت سلسلہ قادریہ اور نقشبندیہ، دونوں میں مرید کیا کرتے تھے۔

   چنانچہ” تذکرۂ صوفیائے سرحد“ میں ہے:حضرت شیخ محمد شعیب رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے خلفاء میں جس بزرگ نے غیر معمولی شہرت وعظمت حاصل کی، وہ ”اخوند سوات رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہیں، جنہوں نے اِس علاقے میں سلسلہ نقشبندیہ وقادریہ کو غیر معمولی فروغ  بخشا۔(تذکرہ صوفیائے سرحد، صفحہ 465، مطبوعہ مرکزی اردو بورڈ، لاھور)

   شیخ جب مختلف سلاسلِ طریقت میں بیعت کرنے کا مجاز ہو، تو وہ سالِک کی تمنا یا اُس کے حال کے موافق اُسے کسی بھی اجازت یافتہ سلسلے میں بیعت کر سکتا ہے، چنانچہ امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ عموماً خاندانِ عالیہ قادریہ  برکاتیہ میں بیعت فرمایا کرتے ، لیکن بعض اوقات سالِک کی تمنا یا اُس کے حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نقشبندیہ، چشتیہ یا سہروردیہ میں بھی بیعت فرما لیا کرتے تھے، چنانچہ خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا ظفر الدین بہاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1382ھ/1962ء)  اپنی معروف کتاب  حیاتِ اعلیٰ حضرت“ میں لکھتے ہیں:’’اعلیٰ حضرت قبلہ کو اپنے پیر و مرشد برحق قدس سرہ سے اجازت وخلافت جملہ طُرُق کی حاصل تھی اور سب طریقوں میں بیعت کے مجاز تھے،  مگر حضور (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ)کو سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ تھا۔ عام طور پر اُسی میں بیعت کرتے،  البتہ اگر کوئی شخص خاص طور پر خصوصیت کے ساتھ کسی خاص طریقہ میں بیعت کی تمنا کرتا، تو اُس کو اُسی طریقے میں بیعت فرماتے یا بعض موقع پر کسی شخص کو خاص طریقہ سے ملاحظہ فرماتے، تو اُسے اُسی طریقہ میں مرید فرماتے،  ورنہ عام طور پر سبھوں (سب لوگوں)کو سلسلہ قادریہ میں داخل فرماتے۔‘‘(حیاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ 607، مطبوعہ اکبر بک سیلرز، لاھور)

   دوسری جگہ لکھا:’’اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اگرچہ عام طور پر سب لوگوں کو طریقہ عالیہ قادریہ جدیدہ میں بیعت کرتے تھے، لیکن حضور کو اجازت وخلافت تیرہ طریقوں کی تھی۔‘‘(حیاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ 631، مطبوعہ اکبر بک سیلرز ، لاھور)

   اِس عبارت میں مذکور ہے کہ ”عام طور پر“ سلسلہ قادریہ میں داخل کرتے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ خاص طور پر کسی اور سلسلہ میں بھی داخل فرما لیا کرتے تھے۔

   کتاب”برکاتِ مارِہرہ“ میں امامِ اہلِ سنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مرشِد حضرت خاتَم الاکابر شاہ آلِ رسول مارِہْرَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے متعلق منقول ہے:’’علاوہ سلاسل خاندانی کے حضرت صاحب موصوف کو جملہ سلاسل عالیہ صابریہ کی اجازت خود حضرت مخدوم صابر صاحب قدس سرہ العزیز نے عنایت فرمائی تھی، جس کا تذکرہ ”سراج العوارف“ میں صفحہ 79 پر  ہے کہ ایک شخص حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضرت مجھ کو سلسلہ صابریہ میں اپنا مرید کر لیجیے۔ آپ نے فرمایا ”افسوس ہے کہ مجھ کو اس سلسلے کی اجازت نہیں ہے۔ اُس نے عرض کی کہ میں سوائے آپ کے کسی دوسرے کے ہاتھ پر بیعت کرنا نہیں چاہتا اور سوائے سلسلہ صابریہ کے کسی دوسرے سلسلے میں داخل ہونا بھی نہیں چاہتا۔ آپ افسوس کر کے خاموش ہور ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نے فرمایا کہ ” آؤ تمہیں سلسلہ صابریہ میں داخل کروں“ اُس وقت خود حضرت مخدوم صاحب تشریف لائے اور مجھ کو تمام سلاسل صابریہ کی اجازت عطا فرمائی۔ بالآخر وہ شخص داخل ِسلسلہ صابر یہ کیا گیا۔اس اجازت کے علاوہ حضرت مولانا شاہ محمد عبد العزیز صاحب دہلوی قدس سرہ سے بھی حضرت صاحب کو سلاسل عزیزیہ کی اجازت عطا ہوئی تھی۔ (برکاتِ مارِھرہ، صفحہ 100، مطبوعہ  تاج الفحول اکیڈمی، ھند)

   اِس واقعہ سے معلوم ہوا کہ شاہ آل رسول مارِہْرَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو جب سلسلہ صابریہ کی خلافت ملی، تو آپ نے اُس شخص کی تمنا کے موافق سلسلہ صابریہ میں داخل فرمایا، حالانکہ عموماً آپ خاندانِ قادریہ برکاتیہ میں داخل فرمایا کرتے تھے۔

   مرشدِ اعلیٰ حضرت سیدنا شاہ آلِ رسول رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پوتے حضرت ابو الحسین احمد نوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب ”سراج العوارف فی الوصایا  والمعارِف“ میں بیعت کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ بیعت لینے اور طالب کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی طالب سامنے آئے اور مرید ہونے کی التجا کرے ،تو پہلے یہ دیکھو کہ وہ  بیعت کے قابل بھی ہے یانہیں،  اگر اس میں بیعت کی شرطیں پائی جائیں، تواس سے معلوم کریں کہ اس سے پہلے کسی کے ہاتھ پر بیعت تو نہیں کی ، اگر وہ کہے کہ میں اب تک بیعت نہیں ہوا ہوں ، تو پھر اُس کے باپ دادا کے بارے میں معلوم کریں کہ وہ کس خاندان میں بیعت ہوتے آئے ہیں،پھر جو کچھ وہ بتائے،  اسی خاندان میں اگر اجازت ہو،  مرید کرلیں اور اگر خود کو اُس خاندان کی اجازت نہ ہو،تو اُس سے عذر کر کے پوچھیں کہ مجھے اِس خاندان کی اجازت نہیں،البتہ فلاں فلاں خاندان کی اجازت رکھتا ہوں،  اب تم کس خاندان میں مرید ہونا چاہتے ہو،  اب وہ جس خاندان کو کہے اُسی خاندان میں بیعت کر لیں۔

   ایک شخص بیعت کے لیے ہمارے مرشد (شاہ آل رسول رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کے پاس حاضر ہوا حضور نے اس سے مصافحہ کرکے فرمایاکہ میں تجھے مرید نہ کروں گا کہ تم خاندانِ  صابریہ سے ہو اور مجھے اِس خاندان کی اجازت نہیں اور حضرت مخدوم صابر سے مجھے اس کام میں حجاب آئے گا۔ اُس نے جواب دیا کہ میں حضور کے سوا کسی اور کا مرید نہ ہوں  گا۔ آپ نے اسے ٹھہرا لیا اور تین روز کے بعد فرمایا کہ اُس طالب کو لاؤ،  جب وہ حاضر ہوا ،تو فرمایا آؤ اب تمہیں مرید کرلوں کہ مجھے حضرت مخدوم سے اجازت مل گئی۔(سراج العوارف فی الوصایا  والمعارِف،  صفحہ 133، مطبوعہ برکاتی پبلشرز، کراچی)

   شیخ المشائخ سید محمد راشد  شاہ روزہ دَھنی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے متعلق بھی منقول ہے  کہ آپ کے والد سلسلہ نقشبندیہ وقادریہ دونوں میں مرید کرنے کے مجاز تھے، لہذا آپ کے والد حضرت سید محمد بقا شاہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پہلے آپ کو سلسلہ نقشبندیہ میں داخل فرمایا، لیکن مشغولیتِ وَظائف ِ نقشبندیہ کے باوجودراہِ سلوک میں ترقی محسوس نہ فرماتے تھے، لہذا والد محترم سے عرض کی  کہ کیفیاتِ قلب میں تبدیلی اور   راہِ سلوک میں صُعُود محسوس نہیں کر رہا، تو آپ کے والد چونکہ سلسلہ قادریہ میں بھی مجاز تھے، تو آپ نے اپنے شہزادے کو دوبارہ سلسلہ قادریہ میں داخل فرما کر وظائفِ قادریہ میں مشغول ہونے کا حکم ارشاد فرمایا۔‘‘

   ”ملفوظاتِ سائیں روزہ دھنی“ میں ہے:’’ آپ کا بیان ہے کہ جب میں اور میرا بھائی  میاں مرتضیٰ علی شاہ کوٹری کبیر میں مخدوم یار محمد کے مدرسہ میں علم ظاہری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک دن ہمارے والد ماجِد ہمارے پاس تشریف لائے، فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ   ہم اس وقت تمہارے پاس کس لیے آئے ہیں؟ ہم نے عرض کی:یاحضرت! اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔آپ نے فرمایا: آج میں مخدوم میاں عبدالرحمٰن  سے جو مخدوم محمد اسماعیل  کے مریدوں میں سے ہیں، ملاقات کے لیے اُن کے پاس گیا، تو انہوں ے مجھ سے پوچھا کہ آیا آپ کو حضرت مخدوم محمد اسماعیل  سے بیعت وتلقین کرنے کی اجازت حاصل ہے؟ میں نے کہا: ہاں، ہم کو اس کی اجازت حاصل ہے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے اپنی اہلیہ کو بیعت کرنے کی اجازت طلب کی۔تو میں نے اس کو اجازت دے دی۔ اس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ   آیا  آپ نے اپنے فرزندوں کو بھی اپنے سلسلہ طریقت میں داخل کیا ہے یا نہیں ؟ میں نے کہا کہ ابھی اُنہیں اس جانب کچھ توجہ نہیں ہے ؟ وہ کہنے لگے: چاہے اُن کو اِس جانب توجہ نہ بھی ہو ۔ آپ انہیں طریقت کا سبق ضرور دیں ۔ یہی وجہ ہے،  میں تمہارے پاس آیا ہوں،  یہ فرما کر آپ نے ہم دونوں بھائیوں کو سلسلہ نقشبندیہ میں داخل فرما لیا ۔ ہم دونوں بھائی آپ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کرتے رہے ۔ لیکن مجھ پر کچھ بھی اثر ظاہر نہ ہوا۔ جبکہ میرے بھائی مرتضیٰ علی شاہ پر خاطر خواہ اثرات نمایاں ہو گئےتھے۔ ہمارے والد صاحب دوبارہ ہمارے پاس تشریف لائے ،تو انہوں نے مجھ سےاَشغال وحال کی کیفیت دریافت کی۔ میں نے عرض کی : اشغال میں مشغول رہنے کے باوجود مجھے تو کچھ کیفیت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ سُن کر آپ نے مجھے طریقہ عالیہ قادریہ کے تحت ذکر بالجہر میں مشغول ہونے کا حکم فرمایا اور سلسلہ قادریہ میں داخل فرما لیا ۔( مخزنِ فیضان ”ملفوظات سائیں روزہ دھنی“، صفحہ 397، مطبوعہ  جمعیت علمائے اسکندریہ، خیر پور)

   شاہ ابو سعید دہلوی نقشبندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے رسالے ”ہدایۃ الطالبین“ میں اپنے احوالِ ارادت اور مختلف سلاسل میں بیعت لینے کے مجاز ہونے  کے متعلق لکھتے ہیں:(حضرت پیر دست گیر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے) اِس کے بعد ارشاد فرمایا کہ خاندانِ قادری  اور چشتی میں بھی ہم تجھ کو توجہ دیتے ہیں۔ یہ فرما کر بندہ  (ابو سعید دہلوی)کو اپنے زانو مبارک کے برابر بٹھلا لیا۔۔۔(کیفیاتِ ارادت بیان فرمائیں) ۔۔۔بعد ازاں حضرت پیر دستگیر نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ لے اب میں تجھ کو نسبتِ چشتیہ میں توجہ دیتا ہوں، خبردار ہو جا۔۔۔(کیفیاتِ ارادت بیان فرمائیں اور حضرت پیر دستگیر کی طرف سے دستخطی اجازت نامہ نقل کیا، جس میں  آئندہ عبارت مرقوم ہے) ۔۔۔لہذا اِن ( ابو سعید دہلوی)  کو طریقہ نقشبندیہ  مجددیہ کی تعلیم کی اجازت دے دی گئی کہ خدائے پاک کی عنایت ومہربانی  سے اذکار ومراقبات کی تعلیم دیا کریں۔۔۔اور اِن دو طریقہ (قادریہ وچشتیہ) میں جو کوئی اِن سے توسل چاہے، یہ اس سے بیعت لیں اور ان حضرات کا شجرہ اس کو عنایت فرمائیں اور طریقہ نقشبندیہ مجددیہ کی تلقین اور اس کے موافق اس کی تربیت فرمائیں۔(ھدایۃ الطالبین، صفحہ 45، مطبوعہ ادارہ فیوضاتِ مجددیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم